عنوان: | ارض مقدس اور یہود |
---|---|
تحریر: | مفتی شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ |
فلسطین کی عظمت و برتری کے لیے یہی کافی ہے کہ اسے قرآن کریم نے ارض مقدس کہا اور حضرت موسی کلیم اللہ جیسے اولو العزم رسول کی امت کو حکم دیا گیا:
يٰقَوْمِ ادْخُلُوا الْاَرْضَ الْمُقَدَّسَةَ. [المائدة: ٢١]
اور جب اس بزدل قوم نے وہاں کے معلّمین، جبارین کی ظاہری قوت کی داستان سن کر وہاں جانے سے انکار کر دیا اور یوں کہا:
اِنَّا لَن نَّدْخُلَهَا اَبَدًا مَّا دَامُوا فِيهَا فَاذْهَبْ اَنتَ وَ رَبُّكَ فَقَاتِلا اِنَّا هٰهُنَا قٰعِدُونَ. [المائدة: ٢٣]
ترجمہ: جب تک یہ اس میں ہیں ہم کبھی نہیں جائیں گے۔ آپ اور آپ کے پروردگار جائیں، لڑیں اور ہم یہاں بیٹھتے ہیں۔
تو چالیس سال تک صحرانوردی کے عذاب میں مبتلا رہے۔
اس ارض مقدس کے بارے میں فرمایا گیا:
بٰرَكْنَا حَوْلَهُ. [بني إسرائيل: ١]
اس سرزمین کا ادب رب العالمین کو اتنا ملحوظ ہے کہ وہاں داخل ہونے والے ایک گروہ کو داخلہ کے وقت اس ادب کا مامور کیا گیا:
وَادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّداً وَقُولُوا حِطَّةٌ. [البقرة: ٥٨]
ترجمہ: اور دروازے میں داخل ہوتے وقت سر جھکائے رکھنا اور کہو ہمیں معاف کر دیا جائے ۔ لیکن جب اس متمرد قوم نے اس ادب کو ملحوظ نہ رکھا تو طاعون جیسی موذی و با میں گرفتار ہوئی۔
ہمارا قبلہ اول اور امم ماضیہ کا قبلہ مستقل بیت المقدس ہے۔ جہاں ہمارے نبی نہ صرف ہمارے نبی بلکہ نبیوں کے نبی، نبی الانبیاء سید عالم ﷺ نے تمام انبیاے کرام کی امامت فرمائی۔ وہ بیت المقدس متبرک معبد جس کی بنیاد حضرت داؤد خلیفۃ اللہ علیہ الصلاۃ السلام نے رکھی اور جسے حضرت سلیمان علیہ الصلاۃ والسلام نے مکمل فرمایا ۔ اگر صفا و مروہ حضرت ہاجرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے قدموں سے مس ہو جانے کے وجہ سے شعائر اللہ میں داخل ہو گئے، تو وہ بابرکت سرزمین جسے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ الصلاۃ والسلام سے لے کر نبی آخر الزماں تک ہر نبی نے شرف بخشا ہو، جو سب کا معبد ہو، قبلہ ہو، اکثر کا مسکن ہو، عظمت و تقدس کی کسی منزل پر ہوگی، اس کا اندازہ آسان نہیں۔
لیکن یہ ارض مقدس اپنی عظمت، اپنے تقدس میں جتنی رفیع الشان ہے، دین داروں کے لیے امتحان و ابتلا کی اتنی ہی بڑی کسوٹی بھی ہے۔ ابھی سن چکے! قوم موسیٰ علیہ الصلاة والسلام نے جب بہ امر الٰہی اس سرزمین کا رخ کیا تو جبارین و ظالمین کا سامنا ہوا۔
اسی ارض مقدس کو طالوت اور بخت نصر نے اپنے مظالم کا نشانہ بنایا۔ باشندگان ارض پاک کے قتل کے ساتھ ساتھ معبد مقدس کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔ پھر صلیبی لٹیروں نے اس ارض مقدس میں وہ ظلم ڈھائے کہ طالوت اور بخت نصر کے مظالم بے حقیقت ہو کر رہ گئے۔
اللہ اللہ! ایک وہ بھی وقت تھا، اسی ارض مقدس پر سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے قبضہ کیا تھا۔ لیکن ایک قطرہ خون زمین پر نہ بہا۔ لیکن انہیں امن پسندوں کی اولاد کی لاشیں ان کے خون میں امن وسلامتی کے ٹھیکیداروں، صلیبی درندوں نے تیرائیں، بالآخر ۹۰ سال بعد شیر دل غازی سلطان صلاح الدین ایوبی نے ان صلیبی سورماؤں کو سمندر پار ڈھکیل کر ارض مقدس کو پاک کر دیا۔
پھر ارض مقدس کی پاسبانی عثمانی ترکوں کو سونپی گئی، اور اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ ان بہادروں نے صدیوں تک پورے یورپ کے مقابل سینہ سپر ہو کر پاسبانی کا حق ادا کر دیا۔ صلیبی معرکوں میں انجام کار ذلت و رسوائی اٹھانے والے یورپین نے اگرچہ ہر عہد میں ارض پاک پر قبضہ کرنے کے خواب دیکھے ہوں گے۔ مگر عثمانی ترکوں سے ارض مقدس چھیننے کی جرأت کبھی نہ کر سکے۔
خلافت اسلامیہ مٹ چکی تھی مگر عثمانی سلاطین نے کچھ نہ کچھ اس کی آن بان باقی رکھی۔ مصر، شام، عراق ، حجاز، فلسطین، لبنان، سمرقند، بخارہ کاشغر، پورا چینی ترکستان عثمانیوں کے ہلالی پرچم کے نیچے جمع تھا۔ اس اتحاد و وفاق کے نتیجے میں سلطنت ترک اتنی قوی تھی کہ صدیوں تک زار روس پوری قوت نے ٹکراتا رہا لیکن اسے ہمیشہ ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔
یورپ کے مکار، روباه صفت سیاست دانوں نے ترکوں سے بار بار ٹکرانے کے بعد یہ اچھی طرح آزمالیا تھا کہ جب تک مسلمانوں کا شیرازہ منتشر نہ کیا جائے گا، عثمانی شیروں کو زیر نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے لیے انہوں نے اپنے ففتھ کالم کے ذریعہ ترکوں کے صوبوں میں قومی عصبیت کا شیطان پیدا کرنا شروع کیا۔ مصریوں کو پڑھایا کہ تم شاندار ماضی کے مالک ہو، تمہاری ایک آبرو مندانہ تاریخ ہے، تم کیوں ترکوں کے غلام بنے ہوئے ہو؟ شامیوں کو بھڑ کایا؛ تم جغرافیائی حیثیت سے، نسلی حیثیت سے، لسانی حیثیت سے ترکوں سے الگ تھلک ہو، ان سے برتر ہو، پھر کیا وجہ ہے کہ ترک تم کو غلام بنائے ہوئے ہیں؟ عراقیوں کو ورغلایا؛ تم دولت عباسیہ کے کروفر کے وارث ہو، تم تمام دنیاے اسلام کے مرکز رہ چکے ہو، آج کیوں اتنے بے نامرد بن گئے ہو کہ یہ ترک تم پر مسلط ہیں؟ حجازیوں کو اکسایا تم ان مجاہدین کی اولاد ہو جنہوں نے سب سے پہلے کلمہ اسلام کو اپنایا اور سارے جہاں میں پھیلایا۔ تمہارا کوئی حریف نہیں۔ آخر اب اتنے کیوں گر گئے ہو کہ سمندر پار کے ترک تم پر حکومت کر رہے ہیں؟ پھر اب کیا تھا مصر، عراق، شام، حجاز سب نے بیک وقت انقلاب زندہ باد کے ساتھ ساتھ اعلان کردیا۔ اس طرح آناً فاناً وہ قوت مجتمع جس نے پانچ سو سال تک یورپ کے ایوانوں میں زلزلہ ڈال رکھا تھا، پاش پاش ہو کے رہ گئی۔ ڈاکٹر اقبال نے سچ کہا ہے:
ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے
پھر کیا تھا، بڑی آسانی کے ساتھ برطانیہ نے ارض مقدس پر قبضہ کر کے یورپ کے کروڑوں صلیبی دیوانوں کا کلیجہ ٹھنڈا کر دیا۔ ساری دنیاے اسلام تڑپ کر رہ گئی۔ فلسطین کا غم مسلمانوں کے سینے میں ناسور بن کے رہ گیا۔ روئے گڑگڑائے، جلسے کیے، جلوس نکالے، بیان دیے، فریادیں کیں، مگر سب کچھ بے سود۔ اسی وقت کے لیے فرمایا گیا ہے: ’’دعاءھم لا یستجاب‘‘ ایسے لوگوں کی دعائیں قبول نہیں کی جاتیں۔ اپنے گلے میں پھانسی کا پھندا ڈال کر جاں بری کی دعا کرنا قدرت کے ساتھ ٹھٹھا ہے۔
اب بھی وقت ہے کہ اپنی غلطیوں کا ازالہ کیا جاتا لیکن وطنیت کا بھوت اور سرکش ہوتا گیا۔ الگ ہوگئے تھے لیکن مل کے رہتے اور کم از کم ارض مقدس کی بازیابی کے معاملے میں متحد رہتے تو شاید ساری دنیاے اسلام کو یہ ذلت آفریں دور نہ دیکھنا پڑتا۔ نجدیوں کی تلواریں بے نیام ہوئیں، تو ارض مقدس کی بازیابی کے لیے نہیں بلکہ حرمین طیبین کے بے گناہوں کے خون پینے کے لیے اور جنت المعلیٰ و جنت البقیع میں آرام فرمانے والے اسلاف کے مزارت کھودنے کے لیے۔ بجو صفت گورکنوں سے اور توقع ہی کیا ہو سکتی ہے۔
عربوں کے آپس میں اختلافات و انتشار، تشنت اور تفرق نے دنیاے اسلام کو وہ روز بد دکھایا کہ ۱۹۴۹ء میں امریکہ و برطانیہ نے اپنی اسلام و مسلمان دشمنی کا نا قابل تردید ثبوت پیش کرتے ہوئے بین الاقوامی آئین کی دھجیاں اڑاتے ہوئے، ارض مقدس کی تقسیم کر کے اپنی کوکھ سے اپنی سیاسی ناجائز اولاد یہودی مملکت اسرائیل کو جنم دیا۔ یہودی مملکت کا وجود ساری دنیا کے مسلمانوں کی حمیت ملی، غیرت دینی کو کھلا ہوا چیلنج تھا لیکن سواے کچھ شور شغب اور دو ایک بار ہاتھا پائی کے اور کچھ نہ ہو سکا۔
اگرچہ برطانیہ نے اپنے قبضہ کے روزِ فردا ہی سے ساری دنیا میں بکھرے ہوئے یہودیوں کو گھسیٹ گھسیٹ کر فلسطین میں آباد کرنا شروع کر دیا تھا، اور حکومت کے تمام اعلیٰ عہدے اور تجارتی و زراعتی بالا دستیاں یہودیوں کو دیں، مگر برطانیہ کی انتھک کوششوں کے باوجود فلسطین میں یہودی آبادی ۳۳ فیصدی سے زائد نہ ہو سکی۔ آئین اور انصاف کا تقاضا تو یہ تھا کہ پورا ملک ۶۶ فیصد سے زائد آبادی اور وہاں کے ہزارہا سال سکان عرب کے حوالے کرتے لیکن سلطان صلاح الدین ایوبی کے زخموں سے نسلاً بعد نسلٍ تڑپتا ہوا یورپ اپنے آباء و اجداد کی ذلت و رسوائیوں کا انتقام لینے کا اس سے بہتر اور کوئی موقع شاید نہ پاتا۔ جوش انتقام میں اندھے ہونے والے یورپ نے اپنے خود ساختہ آئین کی دھجیاں بکھیر دیں اور ارض فلسطین کی تقسیم کر کے ارض مقدس کے صحیح مالکوں سے چھین کر ٦٦ فیصد کو ۳۳ فیصد کے کمینے درندوں کا غلام بنا دیا۔
عربوں کی بے کسی اپنے نقطۂ عروج پر پہنچ گئی، جب انہوں نے یہ دیکھا کہ ہمارا حق ہمیں نہیں مل سکے گا تو یہ اسکیم پیش کی کہ اس خطہ میں سیکولر مخلوط حکومت قائم کر دی جائے اور دونوں فرقوں کو اپنی اپنی آبادی کے تناسب سے نمائندگی دی جائے۔ لیکن کینہ پرور برطانیہ نے یہ بھی نہیں سنا اور اپنی ضد اور ہٹ پوری کرکے رہا ۔ ہزاروں سال کے باشندوں پر نو آباد یہودی کتوں کو حاکم بنا کے چھوڑا۔ دنیاے اسلام خصوصا عرب کے لیے یہ معمولی حادثہ نہیں تھا۔ کون اسلامی دل ہے جو نہ تڑپ رہا ہو؟ کون اسلامی روح ہے جو بے چین نہ ہوئی ہو؟ کون زبان ہے جو چینی نہ ہو؟ لیکن قصر بلھنگم کے ارکان بے حیائی اور درندگی کی اس منزل کے پہ تھے جہاں ہر چہ خواہی کن فطرت ثانیہ بن جاتی ہے۔
روس سے متاثر علاقے نے یہودی ریاست کو امریکہ کی مغربی ایشیا میں اجارہ داری کا اڈہ کہا اور آج بھی کہتے ہیں لیکن میں اسے یورپ کے صلیبی درندوں کی ذلت آمیز شکست کا انتقام کے سوا اور کچھ نہیں جانتا۔ امریکہ و برطانیہ کو اجارہ دارانہ غلامی کے لیے مغربی ایشیا میں کمی نہ پہلے تھی اور نہ اب ہے۔ بہت سے جاہ پرست اقتدار کے بھوکے اپنی دینی غیرت و حمیت امریکه و برطانیہ کو رہن دے سکتے تھے اور اب ابھی دے رہے ہیں۔ تو اس کے لیے دنیا کے انصاف پسند حلقہ میں بدنام ہونے، ہمیشہ ہمیشہ کے لیے لعنت کا تمغہ حاصل کرنے کے لیے یہودی مملکت جن کر اپنی سیاسی بد کرداری کا اعلان کرنے کی کوئی حاجت نہیں تھی۔ ہاں! یہ ضرور ہے کہ اگر اردن یا نجدی مملکت کو اجارہ داری کا اڈہ بناتے تو شاہ رچرڈ کی فرار کی کالک برطانیہ کی پیشانی سے مٹ تو جاتی مگر اس کے قلب و جگر کے اس ناسور کا علاج ہے کیا ہوتا جو فلسطین پر صلیبی پرچم نہ لہرانے پر پیدا ہو گیا تھا؟ اس کا مداوا تو ان کینہ پرور، انتقام جو، سفاکوں کے نزدیک یہی تھا کہ ارض مقدس ان فاتحین کے قبضہ میں نہ رہے جنھوں نے ان کے ہم مذہبوں سے چھینا تھا۔
عرب کے لیے اب بھی وقت تھا کہ ملت کی آبرو بچانے کے لیے اپنے اقتدار کی ہوس سے دست کش ہو کر پوری ملت کی پیشانی پر لگے ہوئے کلنک کے ٹیکہ کو دور کرنے کی کوشش کرتے لیکن افسوس صد افسوس! ایسا نہ ہو سکا۔
نه اردن و عراق کی کشمکش ختم ہو سکی۔ نہ نجد اور مصر میں اتفاق ہو سکا۔ نہ امام نواز اور حریت پسند یمنیوں میں صلح ہو سکی۔ ایک دوسرے کے خلاف اعصابی بلکہ سلاحی جنگ تک جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ خود اندرونی طور پر وه افتراق و شقاق کہ الامان والحفيظ!
یہی کرنل ناصر جو آج رورہے ہیں۔ کل اخوان المسلمین کے خلاف کیا کیا نہیں کر چکے ہیں۔ شاہ فاروق کے حامیوں پر وہ کون ظلم نہیں کئے، جو فراعنہ پہلے نہیں کر چکے ہیں۔ عراق میں اندرونی خون خرابہ نہیں ہوا کہ شام میں نہیں ہوا۔ ذرا ذرا سی مملکتیں اور نہ پڑوسیوں سے صلح اور نہ آپس میں اتحاد، اپنی صلاحیتیں، قوتیں اپنے بھائیوں کے خلاف استعمال ہو رہی ہیں۔ ان سب پر طرہ یہ ہے کے عیاشی، تن آسانی میں وہ انہماک کہ پیرس و لندن کو پیچھے چھوڑنے کی جدو جہد، ہر سال عروس نو سے ہمکناری، ہر سال نیو ماڈل کار، چاہے رہنے کو گھر نہ ہو، دنیا کے بیش قیمت سے بیش قیمت کپڑے بدن پر، یورپ کے اسپیشل کوالٹی کے صوفے عربوں کے خیموں میں۔ جب شاہ سعود کے حرم میں اکٹھے سو کنیزیں، محل سرا کے در و دیوار کو چھوڑیے، فرش اور زینے غلافوں سے آراستہ اور قیصر و کسریٰ کے تخت و تاج کے وارثین عیش و عشرت کے رنگینیوں میں:
تفو بر تو اے چرخ گردوں تفو
دوسری طرف یہودی شب و روز محنت و چال بازی اور اسلحہ کی فراہمی و مشق جنگ میں مصروف ہیں۔ کسی یہودی سربراہ مملکت کے محل میں ایک سے زائد بیویاں نہ ہوں گی۔ کوئی خیمہ میں شب و روز گزرنے والے یہودی کے گھر کار نہ ہوگی۔ عرب سامان عیش و عشرت، لہو ولعب جمع کرتے رہے اور یہودی اسلحے، عرب موسم بہار میں عروس نو کے ساتھ پیرس و نیو یارک میں ہنی مون مناتے رہے، اور یہودی تیر و تفنگ کی مشق کرتے رہے۔ عرب اپنے بھائیوں کے زیر کرنے شکست دینے کے جوڑ توڑ میں، اور یہودی عرب کو صفحۂ دنیا سے مٹانے کی تیاری میں۔ اس کا نتیجہ جو نکلنا چاہیے تھا وہ نکلا۔ اب رونے سے کیا حاصل! مسبب الاسباب جل مجدہ نے ہمیں پہلے بتا دیا تھا:
وَلَا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ [الأنفال: ٤٦]
ترجمہ: آپس میں اختلاف نہ کرو، ورنہ تمہاری ہوا کھڑ جائے گی۔
اس کریم مولی نے ہمیں واضح طور پر بتا دیا تھا:
لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِلَّذِينَ آمَنُوا الْيَهُودَ [المائدة: ٤٧]
ترجمہ: تم مومنوں کا سب سے بدتر دشمن یہود کو پاؤ گے۔
کاش کہ ماضی قریب کی ذلت و رسوائی ہی عربوں کے لئے تازیانۂ عبرت ہوتی۔ دنیا کی ذلیل ترین مٹھی بھر قوم سے اتنی سنگین شکست کھانے کے بعد بھی آنکھیں کھل جاتیں تو افسوس کم ہوتا، مگر اب بھی نہ تو قومیت کا بھوت اترا، اور نہ آپس کی کینہ پروری و حصول جاہ و مال کی لڑائی ختم ہوئی۔ اب بھی وہی پھوٹ، اپنے بھائی کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے مشورے۔
نیل کے ساحل سے لے کر تا بخاک کاشغر
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
یہ مضمون مقالات شارح بخاری سے لیا گیا ہے اور عنقریب شارح بخاری علیہ الرحمہ کے تمام مقالات اس ویب سائٹ پر پیش کیے جائیں گے۔ {alertInfo}
بہت ہی اچھا بہت عمدہ اور دلنشیں کہ ایک مرتبہ وزٹ کرو تو واپسی کا دل نہیں کرتا اللہ اور ترقی عطا فرمائے.
جواب دیںحذف کریںاللہ کے فضل سے میں نے سارے مضامین پڑھ لئے ہیں اور مزید کا متمنی ہوں ❤️❤️❤️❤️❤️❤️🌹🌹🌹
ما شاء اللہ تعالیٰ
جواب دیںحذف کریںہمارا گر نہ ہوا تو ہماری نسلوں کا
دیارِ قدس کے سائے میں آشیاں ہوگا
اِن شاء اللہ