✍️ رائٹرز کے لیے نایاب موقع! جن رائٹر کے 313 مضامین لباب ویب سائٹ پر شائع ہوں گے، ان کو سرٹیفکیٹ سے نوازا جائے گا، اور ان کے مضامین کے مجموعہ کو صراط پبلیکیشنز سے شائع بھی کیا جائے گا!

ایکسیڈنٹ ہوگیا!

عنوان: ایکسیڈنٹ ہوگیا
تحریر: افضال احمد مدنی

زاہد کی سائیکل کو آئے ہوئے آج سات دن ہو چکے ہیں۔ جب سے اس کی سائیکل آئی ہے وہ اتنا خوش ہے کہ اس کی خوشی کی کوئی انتہا نہیں۔ امی اس کو جو کہتی ہیں وہ اس کو فوراً کر نے کو دوڑتا ہے۔ کہیں باہر جانا ہو، کوئی سبزی لانی ہو یا کسی کی دوائی لانی ہو، یا مارکیٹ سے کوئی سامان لا کر دینا ہو۔ بس ادھر امی پکارتی ہیں: زاہد بیٹا! زاہد بیٹا! ابھی امی کے جملے مکمل نہیں ہوتے ہیں ادھر زاہد فوراً سے پہلے سائیکل نکالتا ہے اور جانے کے لئے ریڈی ہوجاتا ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے زاہد کے اندر جنون آگیا ہو۔ کچھ اس طرح کا بھی لگنے لگا ہے جیسے کوئی اس کے اندر بیٹھا ہو اور وہ اس کو اندر سے کمانڈ دیتا ہو۔ کبھی کبھی تو اس کے جنون کی وجہ سے بے چارے کی مذاق بھی بن جاتی ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ جب بھی اس کو پکارا جاتا ہے، وہ فورا سائیکل کی طرف لپکتا ہے۔ اگرچہ اس کو باہر جانے کا نہ کہا گیا ہو۔ اس کی چھوٹی بہن منہل ناز تو اس کو ”سائیکل“ ہی کہنے لگی ہے۔ اس کو چڑاتی ہے ”سائیکل، سائیکل“۔

دوسری طرف کچھ دن پہلے اس کی حالت یہ تھی کہ وہ کسی کی کوئی بات سنتا ہی نہیں تھا۔ نہ اس کو امی کے کہنے کا اثر پڑتا تھا۔ نہ ابو جی کے کہنے کا۔ نا کسی بھائی کا، نا کسی بہن کا۔ کوئی کچھ بھی کہہ رہا ہو اس کو فرق ہی نہیں پڑتا تھا۔ جیسے کوئی بت ہو، کوئی اسٹیچو ہو۔ یا کوئی مورتی ہو۔ لیکن جب سے اس کو سائکل ملی ہے اس میں کرنٹ سا آگیا ہے۔ کمپیوٹر کی طرح کام کرنے لگا ہے۔ جیسے ہی کلک کرتے ہیں فورا رزلٹ سامنے آجاتا ہے۔ یہ اک بڑا سوال ہے کہ زاہد کے اندر اتنا بڑا چینج کیسے آیا؟ کس طرح آیا؟ جہاں وہ کسی کی بات ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتا تھا اور اب وہ بجلی کی طرح کام کرنے لگا ہے۔ بالکل مختلف۔ یہ سب کیسے ہوا؟ اس کے پیچھے کا راز کیا ہے؟ اس کے پیچھے کون سا جذبہ کام کر رہا ہے؟ اس پہ بات کریں گے کبھی اور۔

امی نے کہا بیٹا پیاز لاکر دینا ہے۔ اس نے فورا سائیکل اٹھائی، بڑی تیزی کے ساتھ پینڈل پر پیر مارتے ہوئے سائیکل کی اسپیڈ فل کردی۔ زاہد کے گھر کا محل وقوع ایک گلی میں، اس کے آخر میں ہے۔ گلی تقریبا سو میٹر کی ہے۔ اسکے سامنے 44 فٹ کا راستہ ہےجو بڑے ہائیوے روڈ سے مل کر جڑ جاتا ہے۔

زاہد کی تیزی کا یہ عالم تھا کہ اس کو کچھ سجھائی نہیں دے رہاتھا کہ سائڈ میں کیا ہے؟ آگے بھی کچھ ہو سکتا ہے کیا؟ 44 فٹ کے سامنے والے راستے سے کافی اسپیڈ میں ایک بائیک والا ہارن دیتے ہوئے گزرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ تبھی زاہد کی سائیکل آنا فاناً موٹر سائیکل سے جا ٹکرائی۔ ٹکراؤ کافی تیز تھا۔ زاہد سائیکل سے دائیں جانب گھٹنے کے بل گرا۔ گھٹنے گھس گئے جس کے سبب گھٹنے سے خون بہنا شروع ہوگیا۔ زاہد کی سائیکل کا رِنگ بھی مڑ چکا تھا۔ زاہد نے رونا چلانا شروع کردیا۔ شورو غل سے آس پاس کے سب لوگ ایکسڈنٹ کی جگہ پر جمع ہونے لگے۔ صرف دو منٹ میں تقریباً 50 سے زیادہ لوگ جمع ہو چکے تھے۔ زاہد کے دوست چھوٹو نے جب یہ ماجرا دیکھا وہ دوڑتا ہوا زاہد کے گھر کی طرف بھاگا۔ سیدھا گھر کے دروازے پر جاکر تیزی کے ساتھ دروازے کو پیٹنا شروع کردیا۔ اور زور زور سے چلاّنے لگا:

انکل انکل، زاہد زاہد۔ گھر سے زاہد کے ابو چھوٹو کی بھرائی ہوئی خوف سے بھری آواز سن کر ننگے پاؤں، صرف بنیان اور تہبند باندھے ہی دروازے کی طرف دوڑے۔ جیسے ہی دروازہ کھولا دیکھا کہ چھوٹو کی آنکھ سے آنسو بہ رہے تھے اور چلا چلا کر کہ رہا تھا انکل انکل! پلیز پلیز زاہد کو بچائیے نا۔ زاہد کا باہر ایکسڈنٹ ہوگیا ہے۔ اس کے پاؤں سے خون بہ رہا ہے۔ انکل! پلیز اس کو بچائیے نا۔ وہ بہت تکلیف میں ہے۔

اس کو بہت درد ہو رہا ہے۔ زاہد کے ابو غصے اور ہڑبڑاھٹ کے عالم میں ایکسڈنٹ کی جگہ کی طرف دوڑے۔ وہاں دیکھا کہ موجودہ بھیڑ نے موٹر سائیکل والے کو پکڑ رکھا ہے۔ لوگ اس کو گالیاں دے رہے ہیں۔ مارو کُتے کو۔ چھوڑنا مت۔ پکڑو اس جنگلی کو۔ کچھ تو گندی گندی گالیاں بھی دے رہے ہیں اور اسکو زد و کوب کررہے ہیں۔ اس کو بری طرح سے پیٹا جا رہا ہے۔ کوئی گھونسا، کوئی لات، کوئی تھپڑ، تو کوئی چپل، کوئی جوتے سے مار رہا ہے۔ کوئی گریبان پکڑ کر کھینچ رہاہے۔ کوئی سر کے بالوں کو نوچ رہا ہے۔ کسی کا گھونسہ اس کے منہ پہ پڑرہا ہے۔ کسی کا ہاتھ اس کے سر پر تو کسی کی لات پیٹ میں پڑ رہی ہے۔ تو کوئی طمانچہ چہرے پر رسید کررہا ہے۔ جس کو جتنا موقع اور جہاں مارنے کا موقعہ ملا۔ اس نے اس میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔

کچھ لوگوں نے حد ہی کردی لاٹھی ڈنڈے لے آئے، پتھر بازی کرنے لگے۔ جب کچھ سنجیدہ لوگوں نے دیکھا کہ حالات خراب ہورہے ہیں اور معاملہ طول پکڑتے جا رہا ہے۔ لڑائی تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہی ہے۔ موٹر سائکل والا بری طرح زخمی ہوچکا ہے۔ اس کے سر سے، منھ سے، ناک سے ہاتھ اور پاؤں سے خون بہ رہا ہے اور وہ بے چارہ بے بس ہوکر زمین پر پڑا ہے، انھوں نے جلدی سے پولیس کو کال کی اور اس جگہ کے حالات کے بارے میں انفارم کیا۔

ادھر زاہد ابھی تک زخمی حالت مین زمین پر پڑا تھا کیونکہ اس کے ابو بھی بجاے اس کو ڈاکٹر کے پاس لے جانے کے لڑائی میں مصروف ہو گئے تھے۔ وہ چیخ رہا تھا، رورہا تھا۔ پلیز میری کوئی مدد کرو۔ مجھے بہت درد ہورہا ہے۔ مجھے بہت تکلیف ہو رہی ہے۔ مجھے کوئی ڈاکٹر کے پاس لے کر جاؤ۔ لیکن لڑائی کے شور و غل اور چیخا چلی کی وجہ سے کسی کو کچھ سنائی نہیں دیا۔ کسی نے زاہد کی بات پر توجہ نہیں دی۔

اتنے میں پولیس کے ہارن کی آواز سنائی دی۔ لوگوں نے پیچھے ہٹنا شروع کیا۔ پولیس نے موقع کا جائزہ لیا اور موٹر سائیکل والے کو اٹھا کر ہاسپیٹل میں بھرتی کروادیا۔ زاہد کے ابو نے بھی زاہد کو اٹھایا ڈاکٹر کے پاس لے گئے، مرہم پٹی کروائی۔ زاہد صرف زخمی ہوا تھا، یہ تو اللہ پاک کا کرم ہوا کہ ہڈی وغیرہ نہیں ٹوٹی۔

اس حادثے کو پانچ دن ہو چکے ہیں۔ اب زاہد کی طبیعت میں کافی کچھ بہتری ہے۔ لیکن موٹر سائیکل والے کے حال و احوال ابھی تک خراب ہیں۔ کیونکہ زخمی کرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں نے اس کا پیر بھی توڑ دیا تھا۔

زاہد کے دادا گاؤں کے ان چند لوگوں میں سے ہیں جن سے لوگ اپنے تمام اہم کاموں کو انجام دینے سے پہلے مشورہ کرنے کے لیے آتے ہیں اور ان کے مشورے ہمیشہ انتہائی مفید ثابت ہوتے ہیں۔ ان کو اس واقعے کی خبر کچھ دیر سے لگی۔ وہ کسی کام سے گاؤں سے باہر گئے ہوئے تھے۔ زاہد کا زخم دیکھ کر جو اب کچھ بہتر ہوچکا تھا، ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ لیکن پھر انہوں نے اپنے آپ کو سنبھالا اور گھر میں موجود تمام لوگوں سے جن میں بہت سے وہ پڑوسی اور رشتے دار وغیرہ بھی تھے جو زاہد کی عیادت کے لیے آئے ہوئے تھے، مخاطب ہو کر بولے:

آپ کو معلوم ہے ہمیں ایسے مواقع پر کیا کرنا چاہیے؟ کیا وہی جو لوگوں نے موٹر سائیکل والے کے ساتھ کیا؟ یعنی اس پر حملہ آور ہوجائیں۔ اس کو زد و کوب کریں۔ اس کو برے طریقے سے پیٹیں۔ اتنا ماریں کہ اس کے منہ سے، ناک سے اور کان سے خون نکلنے لگے۔ اسی پر بس نا کرکے اس کے پیروں تک کو توڑ دیں۔ جب کہ حقیقت میں اگر دیکھیں تو غلطی ہمارے زاہد کی تھی جو بہت تیزی کے ساتھ سامنے دیکھے بغیر سائیکل چلا رہا تھا جس کے سبب ٹکراؤ ہوا۔

جب بھی کوئی اس قسم کا حادثہ ہو ہمیں اس کو متانت وسنجیدگی کے ساتھ لینے کی ضرورت ہے۔

سب سے پہلے یہ ہم یہ دیکھیں کہ فریقین کو چوٹ کتنی آئی؟ پہلا کام یہ ہے کہ فریقین میں سے دونوں کو بلا امتیاز ہاسپیٹل میں بھرتی کرائیں اور ان کا علاج کروائیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کے حادثوں میں اکثر و بیشتر کوئی ایک فریق ذمے دار نہیں ہوتا۔ اور ہاں لڑائی جھگڑے اور مار کٹائی کا تو سوچیں بھی نہیں۔

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی
WhatsApp Profile
لباب-مستند مضامین و مقالات Online
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مرحبا، خوش آمدید!
اپنے مضامین بھیجیں