عنوان: | کیا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے فضائل بیان کرنا جائز نہیں؟ |
---|---|
تحریر: | عمران رضا عطاری مدنی بنارسی |
منہاج القرآن کے ڈائریکٹر ڈاکٹر طاہر القادری نے اپنے ایک جلسے میں کہا جس کا خلاصہ یہ ہے کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے تعلق سے چودہ سو صدی تک کے علما کا اجماع ہے کہ ان کے متعلق سکوت اختیار کیا جائے، ان کے فضائل بیان نہ کیے جائیں۔ مزید کہا: جو ان (امیر معاویہ رضی اللہ عنہ) کے مناقب کے جھنڈے اٹھاتے اور نعرے لگاتے ہیں وہ خارجی ہوجاتے ہیں۔
تیرہ سو سال تک ائمہ چپ کراتے آئے، آج یہ عقیدہ کہاں سے آگیا کہ آپ ان کے جھنڈے اٹھالیں اور ان کے نعرے لگائیں اور مسجد بجاے مسجد علی رکھنے کے ان کے نام پر رکھیں، ان کی شانوں پر ترانے اور قصیدے گائیں اور ان کے عرس منائیں، جلسے کریں اور یوم میلاد منائیں؟ خدا کے لیے مجھے بتادو! میں نے تیرہ سو سال میں یہ عقیدہ اپنی زندگی میں نہیں دیکھا۔
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے فضائل بیان کرنے والوں کو کہا:
ایسے لوگوں کو شرم آنا چاہیے اور ڈوب کے مر جانا چاہیے یہ بغض رکھنے والے ہیں اہل بیت کے، یہ ہرگز سنی نہیں ہیں، یہ لوگ بھیڑیے اہل سنت میں گھس گئے ہیں۔
حاصل کلام یہ ہے کہ فضائل امیر معاویہ بیان کرنا خارجی ہونے کی علامت ہے۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے نام پر جلسہ کرنا، جلوس نکالنا، مسجد بنانا جائز نہیں۔ فضائل امیر معاویہ رضی اللہ عنہ بیان کرنا مشاجرات صحابہ میں کف لسان کو توڑنا ہے۔
اس کا جواب یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور سے لے کر آج تک صحابئ نبی، کاتب وحی، خال المومنین حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے فضائل بیان کیے جارہے ہیں، خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابۂ کرام نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے فضائل بیان فرمائے۔ ان کے بعد تابعین، تبع تابعین، ائمۂ محدثین، مؤرخین آج تک ان کے فضائل بیان کرتے آرہے ہیں۔ کسی نے یہ نہیں کہا کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی فضیلت بیان کرنا بغض مولی علی رضی اللہ عنہ کی نشانی ہے یا ان کی فضیلت بیان کرنا مشاجرات صحابہ میں کلام کرنا ہے۔ بلکہ صحابہ کرام کا خیر کے ساتھ ذکر کرنے کا حکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کئی احادیث میں ارشاد فرمایا ہے۔ مشاجرات صحابہ کا معنی تو ان کے آپسی نزاع اور لڑائی جھگڑے میں کلام کرنا ہے۔
کسی صحابی کی فضیلت کو مشاجرات صحابہ میں پڑنا کہنا سخت جہالت اور ائمۂ کرام کی عبارات سے ناواقفی کی بیّن دلیل ہے۔ ہم ذیل میں چند علماے کرام کے حوالے سے ان نصوص کا ذکر کریں گے جن میں علما و محدثین نے صحابیِ نبی کاتبِ وحی حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے فضائل بیان فرمائے ہیں:
(۱)-
حضرت امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے اپنی کتاب
’’فضائل الصحابة‘‘
میں
’’باب فضائل معاوية بن أبي سفيان‘‘
باب باندھا اور اس میں فضائل کے متعلق تین احادیث ذکر فرمائیں۔
[أحمد بن حنبل، فضائل الصحابة، ج: 2، ص: 913، مؤسسة الرسالۃ، بيروت]
(۲)-
امام المحدثین حضرت سیدنا امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی مشہور معروف کتاب بخاری شریف میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے متعلق باب باندھا اور نام رکھا:
’’باب ذكر معاوية رضي الله عنه‘‘
جس میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے فضائل بیان فرمائے ہیں۔ چناں چہ یہ حدیث پاک نقل فرمائی:
أوتر معاوية بعد العشاء بركعة، وعنده مولى لابن عباس، فأتى ابن عباس، فقال: دعه فإنه صحب رسول الله ﷺ. [البخاري، صحيح البخاري، رقم الحدیث: ٣٧٦٤]
ترجمہ: عشا کے بعد حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے ایک رکعت نمازِ وتر پڑھی، ان کے پاس حضرت ابن عباس کے غلام موجود تھے، وہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور عرض کی، ارشاد فرمایا: ان کو چھوڑ دو! اس لیے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابی ہیں۔
امام بخاری شیخ المحدثین اس انداز میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی فضیلت ذکر کر رہے ہیں، کیا صحابی ہونا فضیلت نہیں؟ کیوں نہیں؟ ضرور فضیلت ہے اور بہت بڑی فضیلت ہے۔
اس حدیث کے تحت ملا علی قاری حنفی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
مطابقته للترجمة من حيث إن فيه ذكر معاوية. وفيه: دلالة أيضا على فضله من حيث إنه صحب النبي ﷺ. [علي القاري، عمدۃ القاري بشرح صحيح البخاري، ج: 16، ص: 248، دار الفکر، بیروت]
یعنی حدیث کی ترجمۃ الباب سے اس طور پر مطابقت ہے کہ اس میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا ذکر ہے ۔ اور اس میں ان کی فضیلت پر بھی دلیل ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابی ہیں۔
ایک دوسرے مقام پر امام بخاری نقل فرماتے ہیں:
قيل: لابن عباس: هل لك في أمير المؤمنين معاوية، فإنه ما أوتر إلا بواحدة؟ قال: أصاب، إنه فقيه. [البخاري، صحیح البخاري، رقم الحدیث: ٣٧٦٥]
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے عرض کی گئی؛ آپ کی امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں کیا رائے ہے؟ وہ ایک رکعت وتر پڑھتے ہیں۔ ارشاد فرمایا: وہ صحیح کرتے ہیں اس لیے کہ وہ فقیہ ہیں۔
حدیث مذکور کے تحت ہی حافظ الحدیث علامہ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
ظاهر شهادة بن عباس له بالفقه والصحبة دالة على الفضل الكثير وقد صنف بن أبي عاصم جزءا في مناقبه وكذلك أبو عمر غلام ثعلب وأبو بكر النقاش وأورد بن الجوزي في الموضوعات بعض الأحاديث. [ابن حجر العسقلاني، فتح الباري بشرح صحیح البخاري، ج: 7، ص: 104، دار المعرفة]
ظاہراً حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے لیے فقہ اور صحبت کی گواہی دی، جو فضل کثیر پر دلالت کرتی ہے، ابن ابی عاصم نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے مناقب میں ایک جزء لکھا، اسی طرح ابو بکر ثعلب، ابو بکر نقاش نے لکھا، اور علامہ ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ نے الموضوعات میں (فضائلِ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ)بعض احادیث ذکر فرمائی۔
علامہ شہاب الدین احمد بن محمد قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
ومناسبة هذه الأحاديث لما ترجم له ما فيها من ذكر الصحبة المقتضية للشرف العالي على أنه قد ورد في فضل السيد معاوية أحاديث لكنها ليست على شرط المولف. [القسطلاني، إرشاد الشاري بشرح صحیح البخاري، ج: 6، ص: 140، المطبعة الكبرى الأميرية، بولاق، مصر]
ان احادیث کے ترجمے سے مناسبت اس طرح ہے کہ اس میں اس صحبت کا ذکر ہے جو بلند و بالا شرف کے مقتضی ہے۔ باوجود یہ کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی فضیلت میں کئی احادیث وارد ہوئی ہیں مگر مصنف کی شرط پر نہیں۔
(٣)- شیخ المحدثین امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے سنن ترمذی میں ”باب مناقب معاوية بن أبي سفيان رضي الله عنه“ کے نام سے باب باندھا اور اس میں فضائل امیر معاویہ رضی اللہ عنہ میں دو احادیث ذکر فرمائیں:
- عن عبد الرحمن بن أبي عميرة، وكان من أصحاب رسول الله ﷺ عن النبي ﷺ أنه قال لمعاوية: «اللهم اجعله هاديا مهديا واهد به»
- عن أبي إدريس الخولاني، قال: لما عزل عمر بن الخطاب عمير بن سعد عن حمص ولى معاوية، فقال الناس: عزل عميرا وولى معاوية، فقال عمير: لا تذكروا معاوية إلا بخير، فإني سمعت رسول الله ﷺ يقول: «اللهم اهد به» [الترمذي، سنن الترمذي، رقم الحدیث: ٣٨٤٣]
(٤)-
ابو القاسم عبید اللہ بن محمد سقطی رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے فضائل میں باقاعدہ پوری کتاب بنام
”فضائل أمير المؤمنين معاوية بن أبي سفيان“
تصنیف فرمائی۔
(٥)-
علامہ شمس الدين محمد بن احمد ذہبی شافعی رحمۃ اللہ علیہ (ت: ٧٤٨ ھ) نے سير اعلام النبلاء میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے فضائل میں کئی احادیث ذکر فرمائیں:
- اللهم علم معاوية الكتاب، والحساب، وقه العذاب.
- اللهم علمه الكتاب، ومكن له في البلاد، وقه العذاب.
- اللهم اجعله هاديا، مهديا، واهد به. [سير أعلام النبلاء، ج3، ص124، مؤسسۃ الرسالۃ]
(٦)- چوتھی صدی ہجری کے امام ابو بكر محمد بن الحسين بن عبد الله الآجری البغدادی رحمۃ اللہ علیہ (ت: ٣٦٠ ھ) نے اپنی مشہور کتاب ”الشريعة للآجري“ میں باب ہی نہیں بلکہ پوری کتاب کا ذکر کیا، اور نام رکھا ”كتاب فضائل معاوية بن أبي سفيان“ اور اس میں کئی ابواب ذکر کیے:
باب ذكر دعاء النبي ﷺ لمعاوية، باب بشارة النبي ﷺ لمعاوية بالجنة، باب ذكر مصاهرة النبي ﷺ لمعاوية بأخته أم حبيبة، باب ذكر استكتاب النبي ﷺ لمعاوية بأمر من الله، باب ذكر مشاورة النبي ﷺ لمعاوية، باب ذكر صحبة معاوية للنبي ﷺ ومنزلته عنده، باب ذكر تواضع معاوية في خلافته، باب ذكر تعظيم معاوية لأهل بيت رسول الله ﷺ وإكرامه إياهم، باب ذكر تزويج أبي سفيان بهند أم معاوية رحمة الله عليهم، باب ذكر وصية النبي ﷺ لمعاوية: «إن وليت فاعدل».
(٧)-
علامہ ابو القاسم علی بن الحسن ابن ہبۃ الله بن عبد الله شافعی المعروف بابن عساكر رحمۃ اللہ علیہ نے
”تاريخ مدينة دمشق“
میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے فضائل پر مشتمل احادیث کو ذکر فرمایا ہے۔
[ابن عساکر، تاريخ دمشق، ج: 59، ص: 82، دار الفکر]
(٩)-
امام محمد بن عبد الله خطيب تبريزی نے مشکاۃ المصابیح میں فضائل امیر معاویہ رضی اللہ عنہ بیان کیے۔
[التبریزي، مشكاة المصابيح، ج: 3، ص: 1758، المکتب الإسلامي]
(٩)-
علامہ محمد بن محمد بن سليمان بن فاسیردوانی مغربی (ت: ١٠٩٤ھ) نے اپنی کتاب
”جمع الفوائد من جامع الأصول ومجمع الزَّوائِد“
میں صحابہ کرام کے فضائل بیان کیے اور باب کا نام دیا:
”مناقب حارثة بن سراقة وقيس بن سعد بن عبادة وخالد بن الوليد وعمرو بن العاص وأبي سفيان بن حرب وابنه معاوية رضی الله عنهم أجمعین“
اس باب میں مذکورہ صحابہ کرام کے ساتھ خال المومنین حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے فضائل بھی شامل کیے۔
(١٠)-
امام ابو القاسم سليمان بن احمد بن ايوب بن مطير اللخمی الشامی الطبرانی (ت: ٣٦٠ھ) نے
”مسند الشاميين للطبراني“
میں حضرت امیر معاویہ کے فضائل پر مشتمل احادیث دعاے مصطفیٰ ﷺ ذکر فرمائیں۔
[الطبراني، مسند الشامیین، ج: 1، ص: 190، مؤسسة الرسالة، بيروت]
(١١)-
امام شہاب الدین احمد بن علی بن محمد بن احمد بن حجر عسقلانی (ت: ٨٥٢ھ) نے
”إتحاف المهرة بالفوائد المبتكرة من أطراف العشرة“
اور
”إطراف المُسْنِد المعتَلِي بأطراف المسنَد الحنبلي“
میں فضائل امیر معاویہ رضی اللہ عنہ بیان فرمائے۔
(١٢)-
امام محمد بن اسماعيل بخاری (ت: ٢٥٦ھ) نے
”التاریخ الکبیر“
میں بھی فضائل بیان کیے۔
مذکورہ تمام شواہد سے روز روشن کی طرح واضح ہوگیا کہ ڈاکٹر کا اعتراض بالکل بے سرو پا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور سے آج تک علما و محدثین اور مؤرخین فضائل امیر معاویہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے آئے ہیں، اگر ان کے فضائل ذکر کرنا بغض مولی علی کی نشانی ہے اور اس سے انسان سنی نہیں رہتا ، خارجی ہوجاتا ہے تو بقول آپ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات سے لے کر آج تک کتنے علما نے بیان کیا، صحابہ کرام ، تابعین ، تبع تابعین ، امام احمد بن حنبل ، امام بخاری ، امام ترمذی ، امام ابو بکر آجری ، امام طبرانی ، امام خطیب تبریزی ، امام ابو القاسم ابن عساکر ، امام شمس الدین ذہبی ، امام ابن حجر عسقلانی ، امام اہل سنت اور ان کے علاوہ سیکڑوں اولیا و علما میں کوئی بھی سنی نہیں بچا؟ سب خارجی ہوگئے تو پھر سنی ہے کون؟
چودہ سو صدی میں علم کلام و عقائد ، فقہ ، حدیث کسی بھی شعبے کہ کسی ایک امام نے بھی یہ اصول بیان نہیں کیا کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے فضائل بیان کرنے سے انسان خارجی ہوجاتا ہے آج یہ عقیدہ بیان کرنا اور یہ کہنا کہ چودہ سو سال سے اس پر اجماع و اتفاق ہے سراسر خیانت اور علم سے بے بہرہ ہونے کی واضح دلیل ہے۔
ان ڈاکٹر صاحب کو چاہیے کہ علم کے سمندر میں غوطہ زنی کریں، کتب کو کھنگالیں جب معلوم ہوگا کہ چودہ سو صدی سے امت حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے فضائل بیان کرتی آرہی ہے۔
مضمون نگار جامعۃ المدینہ انڈیا کے فاضل و متخصص اور متعدد کتابوں کے مؤلف ہیں۔ {alertInfo}
رب کریم ہمیں صحابہ کرام کی عزت و ناموس کا محافظ بنائے آمین
جواب دیںحذف کریں