عنوان: | انڈے کی کریٹ اور حامد |
---|---|
تحریر: | مفتی سرفراز احمد عطاری مصباحی |
حامد اور محمود بہت اچھے بچے ہیں اور سچے دوست بھی ، ان کا اسکول آنا جانا ہمیشہ ایک ساتھ ہی ہوتا ہے ، یہاں تک کہ پڑھنا لکھنا بھی ، سونے پر سہاگہ یہ کہ دونوں محنتی اور باادب اور اخلاق مند ہیں ، اسی وجہ سے اسکول کے تمام اساتذہ کو محبوب اور ہر طالب علم کے عزیز بھی۔ ہرکام وقت پر اور سلیقہ سے کرنا ان کے اندر خاص بات ہے۔
روزمرہ کے معمولات کے ساتھ زندگی کا گزر بسر جاری تھا اچانک حامد کے والد جامی خان کی طبیعت خراب ہوگئی حتی کہ ان کو اسپتال میں ایڈمٹ ہونا پڑا، کافی دن بستر علالت پر گزر گئے ، نتیجہ یہ ہوا کہ اخراجات کے مسائل ہوگئے، حامد سے دیکھا نہ جاتا مگر والد صاحب کی مسلسل علالت اس کی پڑھائی میں رکاوٹ نہ بنی، لیکن جب دوائی وغیرہ کی وجہ سے اخراجات مزید بڑھ گئے تو اب حامد نے پڑھائی کے ساتھ کچھ کام کرنے کا فیصلہ کیا، یہ اس کے لیے ایک غیر معمولی اقدام تھا، جس کے بارے میں اس نے اس سے پہلے کبھی سوچا بھی نہ تھا، طریقہ اس نے یہ اپنایا کہ تھوک کی دکان سے انڈے کی کیریٹ خریدتا اور فٹکر دکان داروں کو بیچ دیتا ، یوں اس نے پڑھائی بھی جاری رکھی اور کچھ پیسے بھی کمانا شروع کردیے۔
جامی خان صاحب کی طبیعت ٹھیک نہیں ہوپارہی تھی، اب وہ دس بارہ سال کی عمر کا حامد بے چارہ کیا کرتا، اپنے ننھے منھے ہاتھوں سے سائکل کے توسط سے انڈوں کا کاروبار کیا تو مگر حاجت پوری نہ ہوتی تھی۔
اچھا یہ بھی عرض کروں کہ اس کاروبار کے حوالے سے اس نے محمود کو کچھ بھی نہیں بتایا تھا ، پھر ہوا یوں کہ حامد کلاس میں غیر حاضر ہونے لگا، کلاس میٹ اور ٹیچرز کو حامد کی غیر حاضری بالکل پسند نہ تھی، جب حامد کلاس میں آتا تو سب پوچھتے کہ آپ کل کیوں نہیں آئے تھے؟ حامد بڑا خود دار تھا، وہ اپنے گھر کی پریشانی کسی پر ظاہر نہیں کرنا چاہتا تھا ، حامد جواب میں اپنے ہونٹ سی لیتا، اور بات کو ٹالنے کی کوشش کرتا، لیکن جب سبق سناتا تو بہت پکا پکا سناتا، سب کو تعجب بھی ہوتا کہ حامد غیر حاضری بھی کرتا ہے اور سبق بھی بڑا پکا سناتا ہے، اس طرح یہ بات ایک معمہ ہی بنی رہی۔
ایک بار اس کے ٹیچر جن کو طلبہ جمال سر کے نام سے پکارا کرتے تھے، ان کے ذہن میں کچھ کھٹکا کہ آخر معاملہ کیا ہے؟ انھوں نے اسے سنجیدگی سے لیا، اور من میں سوچا: اس سے پہلے کہ حامد کے بارے میں کوئی غلط تاثر قائم ہو معاملہ کی تحقیق کیوں نہ کرلی جائے۔
سر جمال ایک دن کلاس لینے نہیں آئے در اصل وہ حامد کے پڑوس والوں سے ملاقات کے لیے پہنچ گئے، اور اصل معاملہ پتہ کیا، اور کچھ دن بعد جس دن حامد نہیں آیا تھا انھوں نے طلبہ کو جمع کرکے کہا:
بچو! یہ بتاؤ کہ حامد اتنی غیر حاضری کیوں کرتا ہے؟
طلبہ کی طرف سے الگ الگ جوابات ملے مگر اصل بات کسی کو پتہ ہی نہیں تھی تو کوئی بتاتا بھی کیسے۔
کسی نے کہا: سر! اب حامد سست ہوگیا ہے۔
تو کوئی بولا : نہیں سر حامد سبق تو پکا سناتا ہے، لگتا ہے وہ کسی پریشانی میں مبتلا ہے۔
محمود پیچھے بیٹھا ہوا تھا، اس نے کھڑے ہوتے ہوئے اجازت طلب کی اور عرض گزار ہوا:
سر ! اصل بات شاید ہم میں کسی کو نہیں معلوم، ہم نے حامد سے معلوم کرنے کی کوشش بھی کی مگر اس نے کچھ نہیں بتایا ، سر! اب آپ ہی بتائیں ہمیں کیا کرنا چاہیے، حامد ہے تو بہت اچھا بچہ۔
سر جمال محمود کی بات سن کر مسکرائے اور شاباشی دیتے ہوئے ہاتھ کے اشارے سے بیٹھنے کو کہا۔
اور بولے:
پیارے بچو! الله تعالیٰ نے ہمیں مسلمانوں کے بارے میں بدگمانی سے منع فرمایا ہے، لہذا ہمیں کسی کے بارے میں غلط گمان ہرگز نہیں رکھنا چاہیے، بدگمانی گناہ ہے اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے.
سنیے! میں نے معلومات حاصل کرلی ہے،
حامد کے والد صاحب کافی دن سے ہاسپٹل میں ایڈمٹ ہیں، اور ان کے سامنے اخراجات کی پریشانی ہے اس وجہ سے حامد کو کچھ کام بھی کرتا ہے۔
حامد میں ایک بہت بڑی خوبی جو ہم سب کو اپنانی چاہیے اور وہ ہے خود داری، یعنی محنت کش ہونا اور کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلانا، اور بلا ضرورت اپنی گھریلو پریشانیوں کو دوسروں کے ساتھ شیئر نہ کرنا۔
پیارے بچو! ہمیں حامد کے والد کی مدد کرنی ہے، لیکن ہمیں یہ خیال رکھنا ہوگا کہ حامد اور اس گھر والوں کی خود داری کو ٹھیس نہ پہنچے بلکہ ہم ان کو خبر ہی نہ ہونے دیں۔
ہاتھوں ہاتھ طلبہ نے اپنے والدین سے رابطہ کیا اور بہت سے پیسے جمع کرلیے اور ایک بڑی رقم سر جمال نے اس میں ملائی اور خفیہ طریقے سے اسپتال کے مینیجر کو دے آئے اور کہہ آئے کہ حامد کو پتہ نہ چلے آپ جامی خان کا علاج اچھے سے کرو۔
چند روز ہی گزرے تھے کہ جامی خان مکمل صحت یاب ہوکر گھر واپس آگئے۔
کچھ دن کے بعد حامد پابندی کے ساتھ کلاس میں حاضر ہونے لگا، اور اب اس کے چہرے پر اداسی کی جگہ مسکان تھی۔ طلبہ اس بات کو سمجھ گئے، ان کے من میں خوشی کی ایک لہر سی دوڑ گئی، خاص طور پر محمود کو بہت خوشی ہوئی، سب ٹیچرز اور طلبہ نے دل ہی دل میں اللہ تعالیٰ کا خوب شکر ادا کیا۔
پیارے بچو! ہمیں بھی اپنے سبق کو خوب پکا یاد کرنا چاہیے، اور اگر کوئی پریشانی آئے تو ممکن حد تک خود اس سے لڑنا چاہیے، اور دوسروں کی پریشانی کا خیال کرنا چاہیے لیکن اس طرح کہ ان پر احسان جتلانے کے بجائے ہم اللہ کا شکر ادا کریں کہ اس نے ہمیں اپنے بندوں کی خدمت کی توفیق بخشی۔
مضمون نگار لباب کے مشیر اعلیٰ اور جامعۃ المدینہ فیضان مخدوم لاہوری موڈاسا کے استاذ ہیں۔ {alertInfo}
بے شک الحمدللہ
جواب دیںحذف کریںما شاء اللہ