عنوان: | عشقِ خواجہ کی خوشبو میں مہکتا ہوا اجمیر کا سفر |
---|---|
تحریر: | آصف جمیل امجدی |
۲۷/ جنوری کی خوشگوار صبح تھی، جب اندور کی فضا میں سورج کی کرنیں ایک عجیب کشش کے ساتھ بکھر رہی تھیں۔ ہلکی خنک ہوا کے جھونکے نیلگوں آسمان پر دودھیا بادلوں کی سرگوشیاں درختوں پر چہچہاتے پرندے ایک پُرسکون مگر پرکشش ماحول تخلیق کر رہے تھے۔ دل میں سلطان الہند خواجہ غریب نواز علیہ الرحمہ کی بارگاہ کی زیارت کی تمنا ایک جاذب قوت کی مانند انگڑائیاں لے رہی تھی۔
یہ سفر محض ایک زمینی سفر نہ تھا بلکہ ایک روحانی کشش اور عشق و عقیدت کا سفر تھا۔ میں اپنے عزیزوں (خصوصاً اپنے ساڑھو بھائی محب محترم علامہ شاہد رضا صاحب قبلہ دامت برکاتہم العالیہ) کے ہمراہ منزل کی طرف رواں دواں تھا۔ جیسے ہی اسٹیشن پہنچے معلوم ہوا کہ ہماری ٹرین کچھ دیر پہلے روانہ ہو چکی ہے۔
لمحہ بھر کے لیے دل اداسی کے گہرے سائے میں ڈوب گیا مگر پھر خالقِ کائنات کے نظام پر غور کیا تو قدرتی ماحول کے سکون نے دل کو سہارا دے دیا۔
اسٹیشن کے کنارے لگے درختوں پر چہچہاتی چڑیاں اور خنک ہوا کا ہلکا سا جھونکا گویا پیغام تھا کہ ہر رکاوٹ آزمائش ہوتی ہے اور سچے ارادوں کے لیے راستے ہمیشہ کھل جایا کرتے ہیں۔
خیر۔۔۔۔۔۔۔!!! دوسری ٹرین کے ذریعے ہم رتلام پہنچے جہاں رات کی خنک ہوائیں بدن میں سرایت کر رہی تھیں۔ آسمان پر چمکتے ستارے، ہلکی دھند میں لپٹی وادیاں، اور رات کے سناٹے میں بہتی ہوائیں، یہ سب قدرت کے سحر میں مبتلا کر دینے والے مناظر تھے۔ یہ فطرت کی وہی آواز تھی جو ہمیں یاد دلا رہی تھی کہ ہر تاریکی کے بعد روشنی آتی ہے، ہر مشکل کے بعد آسانی مقدر بنتی ہے۔
ابھی صبح کا اجالا پوری طرح پھیلا نہیں پھیلا تھا کہ ہم اجمیر شریف کی مقدس فضاؤں میں داخل ہو گئے۔ پہاڑوں کے دامن میں بسی یہ مقدس بستی اپنی روحانی خوشبو سے مہک رہی تھی۔ اسٹیشن کے قریب سبز درخت جیسے آنے والوں کو خوش آمدید کہہ رہے تھے اور ہوا میں ایسی تازگی تھی کہ دل کی دنیا یکبارگی معطر ہو گئی۔ آسمان پر اڑتے رنگ برنگے پرندے جیسے سلطان الہند کی سرزمین کی عظمت کے گیت گا رہے ہوں۔
جیسے ہی ٹرین سے اجمیر اسٹیشن پر اترے تو سیدھے ہم اپنے ساڑھو بھائی محب محترم قبلہ مفتی نہال اشرف مصباحی صاحب دامت برکاتہم العالیہ کے کمرے پر گئے، جہاں تازہ دم ہوۓ اور پھر باہر نکل کر ایک شفاف ہوٹل میں مختلف النوع لذیذ پکوان سے ناشتہ کیے۔ دل میں ایک ہی تڑپ تھی—سلطان الہند کی بارگاہ کی حاضری…!
بارگاہ سلطان الہند میں پہلا قدم – کیف و سرور کی کیفیت:
درگاہ شریف کی پہلی جھلک ہی ایسی تھی کہ دل پر سکون اور سر پر عجز و محبت کی چادر تن گئی۔ اور فضاء میں پھیلی خوشبو جیسے اس جگہ کی روحانی عظمت کا پتا دے رہی تھی۔
قدم بہ قدم ہم آگے بڑھتے رہے، دل کی دھڑکنیں تیز ہوتی گئیں، نظریں جھک گئیں، اور روح عقیدت و احترام میں سجدہ ریز ہو گئی۔ جیسے ہی بارگاہِ اقدس میں پہنچے نگاہیں جھک گئیں، زبان پر درود و سلام جاری ہو گیا اس وقت دل بے اختیار پکار اٹھا تھا۔
"یہ کس در کا دربان ہے کہ وقت بھی رک کر سلامی دے رہا ہے، یہ کس کی چوکھٹ ہے کہ دل کی دنیا سر بسجود ہو رہی ہے…!"
مکمل یکسوئی کے ساتھ فاتحہ خوانی کی، دل کی دنیا میں جو بےچینی تھی وہ ختم ہو گئی۔ درگاہ شریف کی فضاؤں میں ذکرِ الٰہی اور درود و سلام کی صدائیں گونج رہی تھیں۔ یہاں کی فضا میں عجیب روحانی تاثیر تھی جیسے ہر ذی روح، ہر ذرے، ہر جھونکے میں عشقِ الٰہی اور محبتِ مصطفیٰ ﷺ کے رنگ بکھرے ہوئے ہوں۔
بارگاہ خواجہ غریب نواز کی حاضری کے بعد ہم ”ڈھائی دن کی جھوپڑی“ پہنچے۔ یہاں کی خاموشی میں بھی ایک عجیب سی روحانی تاثیر تھی جیسے وقت ٹھہر گیا ہو، جیسے فضائیں صدیوں سے کسی راز کو سینے میں چھپائے بیٹھی ہوں۔
اس کے بعد ہم اپنے عزیزوں کے ہمراہ ”انا ساگر جھیل“ کی طرف روانہ ہوئے۔ جھیل کا منظر سحر انگیز تھا، نیلے پانی پر چلتی ہوئی رنگ برنگی کشتیاں، فضاء میں اڑتے رنگ برنگے پرندے، اور جھیل کے کنارے لگے درختوں پر چہچہاتی چڑیاں، یہ سب مل کر ایسا لگ رہا تھا جیسے کوئی مصور قدرت کے رنگوں سے کائنات کی سب سے خوبصورت تصویر بنا رہا ہو۔
سفید بگلے اور بطخیں پانی پر تیرتے ہوئیں، جھیل کے صحن میں رقص کرتی چھوٹی بڑی مچھلیاں، اور پانی کی ہلکی ہلکی لہریں سورج کی روشنی میں چمک رہی تھیں گویا ہر لہر سلطان الہند کی سرزمین کی روحانی عظمت کی کہانی سنانے کے لیے بے قرار تھی۔
الوداع کا لمحہ – مگر دل اجمیر ہی میں رہ گیا:
رات کو اجمیر شریف کو الوداع کہنا ہم عاشقوں کے لیے ایک مشکل لمحہ تھا۔ مگر جھیل کی لہروں کی سرگوشیاں، پہاڑوں کی خاموشی، اور درگاہ شریف کی روحانی خوشبو دل کو یہ یقین دلا رہی تھی کہ خواجہ غریب نواز علیہ الرحمہ کی محبت کا فیض ہمیشہ ہمارے ساتھ رہے گا۔
ٹرین کے ذریعے اندور واپسی ہوئی، مگر دل کی دنیا میں اجمیر شریف کی خوشبو ہمیشہ کے لیے بسی رہی۔ یہ سفر محض جسمانی مسافت کا سفر نہ تھا بلکہ روحانی ترقی، عشق و معرفت کی روشنی، اور قدرت کے حسن کو قریب سے دیکھنے کی ایک سعادت تھی۔
ہمارا یہ سفر ختم تو ہو گیا مگر سلطان الہند کے در کی حاضری نے دل کو جو روشنی دی، وہ ہمیشہ راہ دکھاتی رہے گی۔ اجمیر شریف کی محبت کبھی ماند نہیں پڑے گی کیونکہ یہ عشق کا سفر تھا اور عشق کبھی ختم نہیں ہوتا…!
خواجہ ہند وہ دربار ہے اعلیٰ تیرا
جواب دیںحذف کریںکبھی محروم نہیں مانگنے والا تیرا