✍️ رائٹرز کے لیے نایاب موقع! جن رائٹر کے 313 مضامین لباب ویب سائٹ پر شائع ہوں گے، ان کو سرٹیفکیٹ سے نوازا جائے گا، اور ان کے مضامین کے مجموعہ کو صراط پبلیکیشنز سے شائع بھی کیا جائے گا!

اسباب پر نہیں، خالق اسباب پر یقین رکھو

عنوان: اسباب پر نہیں، خالقِ اسباب پر یقین رکھو
تحریر: مولانا محمد حبیب اللہ بیگ ازہری

اللہ خالق کائنات ہے، کسی بھی شے کی تخلیق و ایجاد میں اسی کی مشیت کار فرما ہوتی ہے، وہ جو چاہتا ہے وہی ہوتا ہے، اور جو نہیں چاہتا نہیں ہوتا، یہ اور بات ہے کہ اس نے کائنات عالم کو اسباب کے ساتھ مربوط کر رکھا ہے کہ جب اسباب فراہم ہوتے ہیں مقصد حاصل ہوجاتا ہے اور جب اسباب منقطع ہو جاتے ہیں مقصود فوت ہو جاتا ہے، لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ محض اسباب ہی کسی شے کی ایجاد و تکوین میں موثر ہوتے ہیں، اللہ چاہے تو بغیر اسباب کے بھی نتائج برآمد ہو جائیں، اور وہ نہ چاہے تو ہزار اسباب ہوں پھر بھی نتیجہ نہ نکلے۔

قرآن کریم نے حضرت زکریا علیہ السلام کے ایک ہی واقعے میں دونوں کے نمونے پیش کردیے ہیں، چناں چہ سورۂ مریم کی ابتدائی آیات میں ہے کہ حضرت زکریا علیہ السلام نے پیرانہ سالی میں اولاد کے لیے دعا کی، تو پرودگار عالم نے ان کی دعا سن لی، اور آپ کو یحییٰ علیہ السلام کی ولادت کی خوش خبری سنائی، تو آپ اپنے رب کے حضور عرض گزار ہوئے:

قَالَ رَبِّ اَنّٰى یَكُوْنُ لِیْ غُلٰمٌ وَّ كَانَتِ امْرَاَتِیْ عَاقِرًا وَّ قَدْ بَلَغْتُ مِنَ الْكِبَرِ عِتِیًّا [مریم: 8]

اے اللہ! مجھے اولاد کیوں کر ہوسکتی ہے، جب کہ میری بیوی بانجھ ہے اور میں حد درجہ ضعیف ہوچکا ہوں۔ تو پرودگار عالم نے فرمایا:

قَالَ كَذٰلِكَ قَالَ رَبُّكَ هُوَ عَلَیَّ هَیِّنٌ وَّ قَدْ خَلَقْتُكَ مِنْ قَبْلُ وَ لَمْ تَكُ شَیْــٴًـا [مریم: 9]

یہ میرے لیے آسان ہے، کیوں کہ میں نے تمھیں اس وقت پیدا کردیا جب تم کچھ بھی نہ تھے، تو اب تمھارے لیے اولاد پیدا کرنا کیوں کر مشکل ہو سکتا ہے؟

اس پر حضرت زکریا علیہ السلام نے عرض کی:

رَبِّ اجْعَلْ لِّیْۤ اٰیَةًؕ [آل عمران: 41]

اے اللہ! بچے کی ولادت پر میرے لیے کوئی نشانی عطا کردے۔

تو رب ذوالجلال نے فرمایا:

قَالَ اٰیَتُكَ اَلَّا تُكَلِّمَ النَّاسَ ثَلٰثَ لَیَالٍ سَوِیًّا [مریم: 10]

بچے کی ولادت کی علامت یہ ہوگی کہ تم صحیح وسالم رہتے ہوئے بھی تین رات تک بات نہ کر سکوگے۔

اس علامت کے ظہور کے بعد آپ کے آغوش محبت میں حضرت یحییٰ علیہ السلام جلوہ گر ہوئے، جس کی تفصیل سورۂ مریم کے پہلے رکوع میں دیکھی جاسکتی ہے۔

اس واقعے سے معلوم ہوتا ہے کہ جب اللہ رب العزت کی مشیت کار فرما ہوتی ہے تو اسباب کے بغیر بھی نتائج بر آمد ہوجاتے ہیں، اور جب اس کی مشیت شامل حال نہ ہو تو ہزاروں اسباب کے با وجود کوئی نتیجہ نہیں نکلتا۔

پہلا مقدمہ آیت کے ابتدائی جز سے ثابت ہوتا ہے، وہ اس طور پر کہ جب حضرت زکریا علیہ السلام نے فرمایا کہ میں ایام پیری سے گزر رہا ہوں اور میری زوجہ بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی، تو رب ذوالجلال کی طرف سے جواب آیا کہ ہم بغیر کسی سبب کے اولاد عطا کرنے پر قادر ہیں، اور واقعی ظاہری اسباب کے فقدان کے با وجود آپ کو اولاد جیسی گراں قدر نعمت ارزاں فرمادی۔

دوسرا مقدمہ واقعے کے آخری جز سے ثابت ہوتا ہے، وہ اس طور پر کہ جب حضرت زکریا علیہ السلام نے استقرار حمل اور قرب ولادت پر نشانی طلب کی تو فرمایا کہ آپ صحیح وسالم رہتے ہوئے بھی تین دن ورات تک عام گفتگو پر قادر نہ ہوسکیں گے، یعنی زبان سلامت ہوگی، گفتگو کی صلاحیت ہوگی، تکلم کے اسباب فراہم ہوں گے، تسبیح وتہلیل پر بھی قدرت ہوگی، لیکن عام گفتگو پر قادر نہ ہوں گے، کیوں کہ یہی اللہ کی مشیت ہے، اور یہی قرب ولادت کی نشانی ہے۔

اس واقعے میں ان لوگوں کے لیے نصیحت ہے جو ظاہری اسباب کی فراہمی پر خوش ہوکر حتمی نتیجے پر یقین کرلیتے ہیں، اور یہ بھول جاتے ہیں کہ جب تک اللہ کی مشیت شامل حال نہ ہو اسباب کار گر نہیں ہوسکتے۔

یوں ہی اس واقعے میں ان لوگوں کے لیے بھی ہدایت ہے جو اسباب و وسائل کے فقدان پر مایوسیوں کا شکار ہو جاتے ہیں، اور گویا یہ ماننے کو تیار نہیں ہوتے کہ اللہ قادر مطلق ہے اور وہ ظاہری اسباب کے فقدان کے با وجود سب کچھ عطا کرنے پر قادر ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اسباب پر نہیں، خالق اسباب پر توکل کریں، اور ہمیشہ اسی سے خیر کی امید رکھیں۔

تیری قدرت تو ہے وہ جس کی نہ حد ہے نہ حساب
تو جو چاہے تو اٹھے سینۂ صحرا سے حباب

مضمون نگار جامعہ اشرفیہ کے استاذ اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ {alertInfo}

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی
WhatsApp Profile
لباب-مستند مضامین و مقالات Online
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مرحبا، خوش آمدید!
اپنے مضامین بھیجیں