✍️ رائٹرز کے لیے نایاب موقع! جن رائٹر کے 313 مضامین لباب ویب سائٹ پر شائع ہوں گے، ان کو سرٹیفکیٹ سے نوازا جائے گا، اور ان کے مضامین کے مجموعہ کو صراط پبلیکیشنز سے شائع بھی کیا جائے گا!

موے مقدس کی برکات

عنوان: موے مقدس کی برکات
تحریر: رئیس التحریر علامہ یٰسین اختر مصباحی علیہ الرحمہ

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اپنے والد ماجد حضرت شاہ عبدالرحیم دہلوی کی ایک بیماری اور حصول موئے مبارک کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

فرمایا! ایک بار مجھے بخار نے آلیا اور بیماری نے طول پکڑا۔ یہاں تک کہ زندگی سے ناامید ہو گیا۔ اسی دوران مجھ پر غنودگی طاری ہوئی تو میں نے دیکھا کہ حضرت شیخ عبدالعزیز سامنے موجود ہیں اور فرمارہے ہیں۔

بیٹے! پیارے آقا جان احمد مجتبیٰ محمد مصطفی ﷺ صلی اللہ علیہ وسلم تیری بیمار پرسی کو تشریف لا رہے ہیں اور شاید تیری پائنتی کی طرف سے تشریف لائیں اس لئے چار پائی کو اس طرح رکھنا چاہیے کہ حضور ﷺ کی طرف تمہارے پاؤں نہ ہوں۔

یہ سن کر مجھے افاقہ ہوا۔ قوت گویائی نہیں تھی۔ حاضرین نے میرے اشارے پر چار پائی کا رخ پھیر دیا۔ اس وقت نبی کریم ﷺ تشریف فرما ہوئے ۔ اور فرمایا: ”كیف حالك یا بني“ (اے میرے بیٹے ! کیسے ہو؟)

اس کلام کی لذت اس قدر غالب ہوئی کہ مجھ پر آہ و بکا اور وجد و اضطراب کی عجیب و غریب کیفیت طاری ہو گئی۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اس انداز سے اپنے پہلو میں لیا کہ آپ ﷺ کی داڑھی مبارک میرے سر پر تھی اور آپﷺ کا جبہ مبارک میری آنکھوں سے تر ہو گیا۔ پھر آہستہ آہستہ وجد و اضطراب کی کیفیت حالت سکون میں بدل گئی۔

اسی وقت میرے دل میں آیا کہ مدت سے موے مبارک کے حصول کی آرزو رکھتا ہوں۔ کیا ہی کرم ہو کہ اس وقت تبرک عنایت فرمائیں۔ میرے اس خیال سے آپ ﷺ مطلع ہوئے اور داڑھی مبارک پر ہاتھ رکھ کر دو مقدس بال میرے ہاتھ پر آپﷺ نے رکھ دیے۔ پھر میرے دل میں یہ آیا کہ یہ دونوں مقدس بال عالم بیداری میں بھی میرے پاس رہیں گے یا نہیں؟ اس کھٹکے پر مطلع ہو کر آپ ﷺ نے فرمایا! یہ دونوں بال عالم ہوش اور بیداری میں بھی باقی رہیں گے۔ اس کے بعد آپﷺ نے صحت کلی اور طویل عمر کی خوش خبری سنائی۔

اسی وقت مرض سے افاقہ ہوگیا۔ میں نے چراغ منگوایا۔ وہ دونوں مقدس بال اپنے ہاتھ میں نہ پائے تو میں غمگین ہو کر بارگاہ عالی کی طرف متوجہ ہوا۔ غیبت واقع ہوئی اور پیارے آقا جانﷺ مثالی صورت میں جلوہ فرما ہوئے اور فرمایا۔

اے بیٹے! عقل و ہوش سے کام لو۔ وہ دونوں بال احتیاطاً تمہارے سرہانے کے نیچے رکھ دیئے تھے۔ وہاں سے لے لو۔

افاقہ ہوتے ہی وہ دونوں بال وہاں سے اٹھائے اور تعظیم و تکریم سے ایک جگہ محفوظ کر کے رکھ دیے۔ اس کے بعد دفعتاً بخار ٹوٹا۔ اور انتہائی ضعف و نقاہت طاری ہوئی۔ سر سے اشارہ کرتا رہا۔ کچھ دیر بعد اصل طاقت بحال ہوئی اور صحت کلی نصیب ہوئی۔

اسی سلسلے میں یہ کلمات بھی فرمائے تھے کہ:

ان دو بالوں کے خواص میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آپس میں گتھے رہتے ہیں۔ مگر جب درود پڑھا جائے تو جدا جدا کھڑے ہو جاتے ہیں۔

دوسرے یہ کہ ایک مرتبہ تاثیر تبرکات کے منکروں میں سے تین آدمیوں نے امتحان لینا چاہا۔ میں اس بے ادبی پر راضی نہ ہوا مگر جب بحث و مباحثہ طویل ہو گیا تو کچھ عزیزان مقدس بالوں کو سورج کے سامنے لے گئے۔ اسی وقت بادل کا ٹکڑا ظاہر ہوا۔ حالاں کہ سورج بہت گرم تھا۔ اور بادلوں کا موسم بھی نہ تھا۔

یہ واقعہ دیکھ کر منکروں میں سے ایک نے توبہ کی۔ اور دوسرے نے کہا کہ یہ اتفاقی امر ہے۔ عزیز دوسری مرتبہ لے گئے تو دوبارہ بادل کا ٹکڑا ظاہر ہوا۔ اس کے دوسرے منکر نے بھی توبہ کر لی۔ مگر تیسرے نے کہا یہ اتفاقی بات تھی۔ پھر تیسری بار موے مبارک کو سورج کے سامنے لے گئے۔ تیسری بار بادل کا ٹکڑا ظاہر ہوا تو تیسرا بھی توبہ کرنے والوں میں شامل ہو گیا۔

مجھے میرے والد نے بتلایا کہ انھیں بیماری کی حالت میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کا خواب میں شرف حاصل ہوا۔ اور آپ نے ارشاد فرمایا۔

اے بیٹے! تیرا کیا حال ہے؟

پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں بیماری سے شفایابی کی خوش خبری دی۔ اور اپنی داڑھی مبارک کے دو بال عنایت فرمائے۔ جس کے بعد وہ فوراً صحت یاب ہو گئے۔ اور دونوں موے مبارک بیداری کے بعد بھی ان کے پاس موجود تھے۔ والد ماجد نے ان میں سے ایک موئے مبارک مجھے عنایت فرمایا جو اس وقت بھی میرے پاس ہے۔

پیش کردہ: عالمہ صائمہ عطاریہ ضیائیہ

1 تبصرے

جدید تر اس سے پرانی
WhatsApp Profile
لباب-مستند مضامین و مقالات Online
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مرحبا، خوش آمدید!
اپنے مضامین بھیجیں