عنوان: | قرآن اور جدید سائنس |
---|---|
تحریر: | افضال احمد مدنی |
قرآن مجید مسلمانوں کے لیے ایک ہدایت نامہ ہے جو ہر دور کے لیے رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ اس میں زندگی کے ہر پہلو کا ذکر موجود ہے، اور یہ ایک ایسی کتاب ہے جس نے انسانی فکر کو ہمیشہ روشنی فراہم کی ہے۔ جدید سائنس، (جو قدرتی دنیا کی تفہیم اور تجزیے پر مبنی ہے،) بھی کئی معاملات میں قرآن کے بیان کردہ حقائق کی تصدیق کرتی ہے۔ اس مضمون میں ہم قرآن مجید کے اوراق میں موجود سائنسی حقائق اور جدید سائنس کے انکشافات کے درمیان حیران کن ہم آہنگی کا جائزہ لیں گے۔
قرآن اور سائنس: تعلق کی بنیاد
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
سَنُرِيۡهِمۡ اٰيٰتِنَا فِى الۡاٰفَاقِ وَفِىۡۤ اَنۡفُسِهِمۡ حَتّٰى يَتَبَيَّنَ لَهُمۡ اَنَّهُ الۡحَـقُّ (فصلت: 53)
ترجمہ: ہم عنقریب انہیں اپنی نشانیاں آفاق میں اور خود ان کے اندر دکھائیں گے یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہوجائے کہ یہ (قرآن) برحق ہے۔
یہ آیت واضح کرتی ہے کہ قرآن مجید نے دنیا اور انسان کے بارے میں جو باتیں بتائیں، وہ وقت کے ساتھ ساتھ انسانوں پر آشکار ہوں گی۔ آج، جدید سائنس کے انکشافات اس پیش گوئی کی تصدیق کرتے ہیں۔
کائنات کی تخلیق
جدید سائنس کے مطابق کائنات کی ابتدا ”بگ بینگ“ (Big Bang) تھی، جو تقریباً 13.8 ارب سال پہلے ہوئی۔ قرآن مجید اس حقیقت کی طرف واضح اشارہ کرتا ہے:
اَوَلَمۡ يَرَ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡۤا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضَ كَانَـتَا رَتۡقًا فَفَتَقۡنٰهُمَا (الانبیاء: 30)
ترجمہ: کیا کافر لوگوں نے یہ نہیں دیکھا کہ آسمان اور زمین جڑے ہوئے تھے تو ہم نے انہیں الگ کیا؟
یہ آیت نہ صرف کائنات کے آغاز کی طرف اشارہ کرتی ہے بلکہ اس عمل کو ایک ایسے انداز میں بیان کرتی ہے جو جدید فلکیات کے نظریات کے عین مطابق ہے۔
زمین اور آسمانوں کی توسیع
فلکیات کے ماہرین نے دریافت کیا کہ کائنات مسلسل پھیل رہی ہے۔ قرآن نے اس حقیقت کا ذکر 1400 سال پہلے کر دیا تھا:
وَ السَّمَآءَ بَنَيۡنٰهَا بِاَيۡٮدٍ وَّاِنَّا لَمُوۡسِعُوۡن (الذاریات: 47)
ترجمہ: اور ہم نے آسمان کو اپنی قدرت سے بنایا اور بے شک ہم اسے وسعت دینے والے ہیں۔
یہ بیان سائنس کے اس نظریے کے ساتھ ہم آہنگ ہے کہ کائنات نہ صرف پھیل رہی ہے بلکہ یہ پھیلاؤ مسلسل جاری ہے۔
پانی: زندگی کی بنیاد
جدید حیاتیات کہتی ہے کہ پانی زندگی کی بنیادی ضرورت ہے۔ قرآن مجید بھی اس حقیقت کو واضح الفاظ میں بیان کرتا ہے:
وَجَعَلۡنَا مِنَ الۡمَآءِ كُلَّ شَىۡءٍ حَىٍّ (الانبیاء: 30)
ترجمہ: اور ہم نے ہر جاندار کو پانی سے پیدا کیا۔
یہ آیت ظاہر کرتی ہے کہ قرآن نے پانی کی اہمیت کو صدیوں پہلے تسلیم کیا، جب انسان اس علم سے لاعلم تھا۔
انسان کی تخلیق
انسان کی تخلیق کا ذکر قرآن میں ایسے تفصیلی انداز میں کیا گیا ہے جو جدید علمِ جنین (Embryology) کے عین مطابق ہے۔ قرآن مجید فرماتا ہے:
ثُمَّ خَلَقۡنَا النُّطۡفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقۡنَا الۡعَلَقَةَ مُضۡغَةً فَخَلَقۡنَا الۡمُضۡغَةَ عِظٰمًا فَكَسَوۡنَا الۡعِظٰمَ لَحۡمًا ثُمَّ اَنۡشَاۡنٰهُ خَلۡقًا اٰخَرَ ؕ فَتَبٰـرَكَ اللّٰهُ اَحۡسَنُ الۡخٰلِقِيۡنَ (المؤمنون: 14)
ترجمہ: پھر ہم نے نطفہ کو جمے ہوئے خون کی شکل دی، پھر خون کے لوتھڑے کو گوشت بنایا، پھر گوشت سے ہڈیاں بنائیں، پھر ہڈیوں کو گوشت پہنایا۔
ڈاکٹر کیتھ مور، جو علمِ جنین کے ماہر ہیں، نے قرآن کے ان بیانات کو جدید جنین کے علم سے مکمل ہم آہنگ قرار دیا ہے۔
پہاڑوں کا کردار
جدید جیولوجی بتاتی ہے کہ پہاڑ زمین کے استحکام میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ قرآن میں اس حقیقت کا ذکر یوں کیا گیا:
وَجَعَلۡنَا فِى الۡاَرۡضِ رَوَاسِىَ اَنۡ تَمِيۡدَ بِهِم (الانبیاء: 31)
ترجمہ: اور ہم نے زمین میں پہاڑوں کے لنگر ڈال دیے تاکہ وہ انہیں لے کر ڈگمگا نہ جائے۔
سائنس دانوں کے مطابق پہاڑ زمین کی سطح پر موجود صرف بڑے ڈھانچے نہیں ہیں، بلکہ یہ زمین کی پلیٹوں کو استحکام فراہم کرتے ہیں۔
خلا میں موجود نظام
قرآن میں ستاروں، سیاروں، اور سورج و چاند کے نظام کا ذکر کیا گیا۔ سورۃ یٰسین میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَالشَّمۡسُ تَجۡرِىۡ لِمُسۡتَقَرٍّ لَّهَا ؕ ذٰلِكَ تَقۡدِيۡرُ الۡعَزِيۡزِ الۡعَلِيۡمِ (یٰسین: 38)
ترجمہ: اور سورج اپنی مقررہ منزل کی طرف چلتا رہتا ہے، یہ زبردست علیم کی مقرر کردہ تدبیر ہے۔
آج، جدید سائنس نے یہ ثابت کیا ہے کہ سورج ایک خاص راستے پر حرکت کر رہا ہے، جو ”Solar Apex“ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
سمندروں کا آپس میں نہ ملنا
جدید سائنس کے مطابق دو مختلف سمندروں کے پانی آپس میں نہیں ملتے، کیونکہ ان کے درمیان ایک ”حائل“ موجود ہوتا ہے۔ قرآن مجید اس حقیقت کو یوں بیان کرتا ہے:
مَرَجَ الۡبَحۡرَيۡنِ يَلۡتَقِيٰنِۙ بَيۡنَهُمَا بَرۡزَخٌ لَّا يَبۡغِيٰن (الرحمن: 19-20)
ترجمہ: دو سمندروں کو اس نے چھوڑ دیا، وہ آپس میں ملتے ہیں۔ ان کے درمیان ایک آڑ ہے جس سے وہ تجاوز نہیں کرتے۔
یہ انکشاف بحرالکاہل اور بحرِ اوقیانوس جیسے سمندروں کی خصوصیات کو واضح کرتا ہے۔
روشنی اور تاریکی
سائنس کے مطابق، زمین کی مختلف جگہوں پر روشنی اور تاریکی کا تعین زمین کی گردش اور اس کے جھکاؤ سے ہوتا ہے۔ قرآن میں اللہ فرماتا ہے :
وَهُوَ الَّذِىۡ خَلَقَ الَّيۡلَ وَالنَّهَارَ وَالشَّمۡسَ وَالۡقَمَرَؕ كُلٌّ فِىۡ فَلَكٍ يَّسۡبَحُوۡن (الانبیاء: 33)
ترجمہ: وہی ہے جس نے رات اور دن کو اور سورج اور چاند کو پیدا کیا، سب اپنے اپنے مدار میں تیر رہے ہیں۔
یہ بیان زمین اور آسمانی اجسام کے حرکت کے اصولوں کے عین مطابق ہے۔
قرآن اور جدید سائنس کے درمیان ہم آہنگی اس بات کا ثبوت ہے کہ قرآن محض ایک مذہبی کتاب نہیں، بلکہ یہ الٰہی حکمت کا سرچشمہ ہے۔ جہاں جدید سائنس تحقیق کے ذریعے نئی دریافتیں کرتی ہے، وہیں قرآن پہلے سے ان حقائق کو واضح کر چکا ہے۔
یہ بات واضح ہے کہ قرآن میں موجود علمی حقائق انسان کو غور و فکر کی دعوت دیتے ہیں، اور جدید سائنس اس تفکر کے ذریعے انسان کو کائنات کی حقیقت سے روشناس کراتی ہے۔ یوں قرآن اور سائنس دونوں انسان کی فلاح و بہبود اور ترقی کے لیے کام کرتے ہیں۔
قرآن کے سائنسی حقائق صرف مسلمانوں کے لیے نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لیے ہیں۔ یہ ایک کھلی کتاب ہے جو تحقیق اور جستجو کی دعوت دیتی ہے۔ جدید سائنس اور قرآن کے درمیان ہم آہنگی اس بات کا مظہر ہے کہ قرآن کا پیغام ہر زمانے کے لیے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔
ما شاء الله
جواب دیںحذف کریںبڑا معلوماتی اور دل چسپ مضمون ہے۔
اللہ تعالیٰ مزید ترقی اور کامیابی عطا فرمائے
آمین یارب العالمین
سبحان اللہ سبحان اللہ
جواب دیںحذف کریں