عنوان: | شاہی جامع مسجد سنبھل کی تاریخی حیثیت |
---|---|
تحریر: | محمد علاؤ الدین قادری مصباحی، بلرام پور |
ہندوستانی سپریم کورٹ نے ۹/ نومبر ۲۰۱۹ء میں ایودھیا کی بابری مسجد کے متعلق یک طرفہ فیصلہ کر کے نہ صرف جمہوریت کا خون کیا بلکہ یہ ثابت کر دیا کہ اب فیصلے محض آستھا کی بنیاد پر ہوں گے۔ یہی وہ موقع تھا جس سے زعفرانی ہندوؤں کے حوصلے بلند ہوئے اور پھر ان کی جانب سے یکے بعد دیگرے کئی مسجدوں کو نشانہ بنایا گیا، جن میں گیان واپی، متھرا اور شملہ کی مسجدیں سر فہرست ہیں۔ یہ سب ایک منصوبہ بند سازش کے تحت ہو رہا ہے، جس کا واحد مقصد ملک کے امن و امان کو خراب کرنا اور فتنہ و فساد برپا کرنا ہے، اس کی بیشتر مثالیں موجود ہیں جو حالات حاضرہ پر نظر رکھنے والوں سے پوشیدہ نہیں ہیں۔
ابھی حال ہی میں ۱۹/ نومبر ۲۰۲۴ء کو سنبھل کی شاہی جامع مسجد پر ہندو لابی نے ضلع کورٹ میں مقدمہ دائر کیا، جس میں یہ الزام عائد کیا گیا کہ یہ مسجد ہری ہر مندر توڑ کر تعمیر کی گئی ہے، جج آدتیہ سنگھ نے دوگھنٹے میں مقدمہ کی سماعت کرتے ہوئے ایک ہفتے کے اندر مسجد کے سروے کا آرڈر پاس کیا، مسجد کمیٹی اور مسلمانوں نے انتہائی متانت و سنجیدگی اور صبر وتحمل کے ساتھ سروے کرنے دیا۔
سروے کے بعد ضلع انتظامیہ اور اے ایس آئی کی ٹیمیں واپس لوٹ گئیں، مسلمانوں نے ۲۰/ نومبر کو اس فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل کرنے کا ارادہ کیا، اسی درمیان ہندو کمیونٹی نے ڈی ایم کو درخواست دی کہ ہم اس سروے سے مطمئن نہیں ہیں، لہذا از سرنو دوبارہ سروے کیا جائے، ڈی ایم نے بغیر عدالتی نوٹس کے خود ہی دوبارہ سروے کا حکم دے دیا۔
ہندو فریق کا وکیل وشنو شنکر جین ۲۴/ نومبر کی صبح سات بجے بہت سارے اوباشوں کی بھیڑ کے ساتھ پہنچا، بھیڑ مسلسل جے شری رام کے نعرے لگا رہی تھی۔
سروے ٹیم اور پولیس انتظامیہ کی موجودگی میں دوبارہ سروے ہوا، ادھر باہر ہندو شدت پسندوں کی بھیڑ کے ہنگامے سے مسلمان بھی مشتعل ہو گئے اور سنبھل کا شدّت پسند سی او شاید اسی کے انتظار میں تھا، اُس نے فوراً لاٹھی چارج کر دی، جس کے بعد یکا یک ہنگامے کا منظر بدل گیا اور پولیس نے فائرنگ شروع کر دی، جب ہنگامہ پردازی میں کچھ قرار آیا، تو مسجد کے آس پاس کی گلیاں خون سے آلودہ ہو چکی تھیں، تین نوجوان موقع پر اور دو اسپتال پہنچ کر شہید ہو گئے۔ (لہو لہان سنبھل، مولانا غلام مصطفے ٰ نعیمی)
سرزمین سنبھل اپنے دامن میں بہت سے نادر ونایاب آثار اور تاریخی عمارتوں کو سموئے ہوئے ہے، انھیں میں سے ایک شاہی جامع مسجد بھی ہے۔ اس کی تاریخِ تعمیر میں قدرے اختلاف ہے۔
بعض مؤرخین جن میں محمود احمد ہاشمی عباسی (مصنف: تاریخ امروہہ) رام سہائے تمنا (مصنف: احسن التواریخ) بھی شامل ہیں، ان کا ماننا ہے کہ ظہیر الدین بابر نے ۹۳۲ھ _ ۱۵۲۵ء میں اس مسجد کی از سرِ نو تعمیر کرائی ہے، جیسا کہ اس کے کتبات سے ظاہر ہے۔
سنبھل کی تاریخ کی ورق گردانی کے بعد آفتابِ نیم روز کی طرح یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ ظہیر الدین بابر سلطنت مغلیہ کا پہلا فرماں روا اپنے ابتدائی دورِ حکومت میں سنبھل آیا تھا، سنبھل مغلیہ دورِ حکومت میں ترقی و تطور کے منازل طے کر رہا تھا، اسی دوران شاہی جامع مسجد کی مرمت بھی ہوئی جس کو بعد میں مؤرخین نے تعمیر سے تعبیر کیا ہے۔
عبدالمعید قاسمی لکھتے ہیں: جامع مسجد سنبھل کی تعمیر فیروز شاہ تغلق نے ۷۷۲ھ میں کرائی ہے، اس سلسلہ میں مزید رقم طراز یوں ہیں کہ جہاں تک میری رسائی ہے اور معلومات فراہم ہوئیں وہ ہدیۂ قارئین ہیں، ملاحظہ فرمائیں:
- ظہیر الدین بابر کے سنبھل آنے میں شک نہیں۔ اس کا سنبھل آنا روز روشن کی طرح واضح ہے۔ متعدد مؤرخین نے اس کے سنبھل آنے کو لکھا ہے۔
- ظہیر الدین بابر کو ہندوستان فتح کرنے کے بعد ملک میں صرف ۴/ سال حکومت کرنے کا موقع ملا، اس کی زندگی نے زیادہ ساتھ نہیں دیا۔
- یہ بات عقل سے ماورا ہے کہ بابر نے مختصر سی مدت میں ملک بھر میں تعمیرات کا سلسلہ شروع کر دیا ہو اور سنبھل کی جامع مسجد بھی تعمیر کرائی ہو۔
- ہاں بابر کا جامع مسجد کی مرمت کرانا قرینِ قیاس ہے اور عقل بھی اس کو تسلیم کرتی ہے۔ یہی قریب تر ہے کہ بابر نے جامع مسجد سنبھل کی مرمت کرائی ہو اور مؤرخین نے اسی مرمت کو تعمیر سے تعبیر کر دیا ہو۔ جیسے کہ بیت المقدس کی تعمیر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بیت اللہ کی تعمیر کے ۴۰/ سال بعد کی، حالاں کہ مشہور یہ ہے کہ بیت المقدس کی تعمیر حضرت سلیمان علیہ السلام نے کی ہے، جب کہ آپ نے مرمت (تعمیر ثانی) کی، جس کو تعمیر سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اور جیسا کہ مشہور ہے کہ بیت اللہ کی تعمیر حضرت ابراہیم و اسمعیل علیہما السلام نے کی، جب کہ ان دونوں حضرات نے تعمیر ثانی کی اور تعمیر اول حضرت آدم علیہ السلام نے فرمائی ہے۔ اسی طرح بابر نے اس مسجد کی مرمت کرائی ہے، جو تعمیر سے مشہور ہے۔
- یہ قدیم تعمیر ہے، جو بابر کے عہد سے پہلے بھی موجود تھی۔ کیوں کہ یہاں پہلے سے مسلمان آباد تھے، بابر کے آنے سے قبل قاسم سنبھلی سنبھل کا حاکم تھا، اسی نے بابر کے خلاف علم بغاوت بلند کیا،سنبھل علم و حکمت کا گہوارہ تھا سکندر لودھی نے چار سال تک سنبھل کو دارالسلطنت قرار دیا تھا، یہ فارسی اور عربی کا مرکز تھا، جامع مسجد کی یہ تعمیر بابر کی آمد سے پہلی کی ہے۔
- اس شہر میں مسلمان سلاطینِ اسلام کی آمد سے اکثریت میں رہے ہیں اور آج بھی ہیں، یہاں کے مسلمانوں کے لیے ضروری تھا کہ کوئی مسجد ہو لہذا یہ مسجد پہلے سے تھی اور بعد میں بابر نے ترقی دی،مغلیہ دورِ حکومت میں سنبھل کو مرکز کی حیثیت حاصل رہی۔
- نیز اس کی تعمیر مغلیہ طرزِ تعمیر پر نہیں ہے۔
- البتہ ظہیر الدین بابر نے اپنی آمد پر مزید کام کرا کے زنیت بخشی اور تکمیل کی جیسا کہ رستم خاں دکنی جو شاہ جہاں کے عہد سے سنبھل کے ۲۵/ سال تک گورنر رہے، انھوں نے بھی مسجد کی مرمت کرائی اور مشرقی بڑا دروازہ بھی انھیں کی تعمیر کردہ یادگار ہے۔ [تاریخ سنبھل، ص: ۱۰۹، ۱۱۰، ۱۱۱]
مذکورہ بالا مختصر سی تحریر کی روشنی میں شاہی جامع مسجد سنبھل کی تاریخی حیثیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ کہ یہ کتنی قدیم مسجد ہے اور آج کے کچھ شر پسند ہندؤ ہماری عبادت گاہوں کو صرف اس بنیاد پر نشانہ بنا رہے ہیں کہ یہاں پہلے مندر تھا، مسلمانوں نے اسے توڑ کر مسجد بنالیا ہے، حالاں کہ ایسا کوئی ثبوت کسی جہت سے نہیں ملتا ہے۔
بابری مسجد کی مثال ہمارے سامنے ہے، سپریم کورٹ کا فیصلہ شہادات پر مبنی نہیں ہے بلکہ صرف اور صرف آستھا کی بنیاد پر ہے۔ دعا گو ہوں کہ مولیٰ تعالیٰ ہمیں مقامات مقدسہ مساجد و مدارس، مزاراتِ اولیا اور قبرستان کے علاوہ دیگر مذہبی اور تاریخی یادگاروں کی حفاظت و صیانت کرنے کی توفیق عنایت فرمائے، اسلام دشمن طاقتوں کو نیست و نابود فرمائے اور سنبھل میں شہید ہونے والوں کی مغفرت فرما کر ان کے درجات کو بلند فرمائے۔
آمین یارب العالمین بجاہ النبي الأمین صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم۔
اولاً ماشاءاللہ بہت خوشی ہوئی، ویب سائٹ زبردست اور یقیناً قابلِ تحسین عمل ہے، اصول و ضوابط نہایت عمدہ ہیں، ترتیب خوش اسلوب اور دلکش ہے۔ دعا گو ہوں کہ مولیٰ تعالیٰ پوری ٹیم کو صحت و سلامتی کے ساتھ عمر خضر عطا فرمائے اور دین متین کی خوب خوب خدمات کی توفیق عطا فرمائے، آمین یارب العالمین بجاہ النبی الامین صلیٰ اللہ تعالیٰ علیہ وسلم۔
جواب دیںحذف کریںبہت بہت شکریہ جناب، اللہ آپ کو سلامت رکھے
حذف کریںما شاء اللہ تعالیٰ ۔بہترین تاریخی مضمون پڑھنے کی سعادت حاصل ہوئی ۔
جواب دیںحذف کریں