عنوان: | کائنات کی نہیں خالق کائنات کی تعریف کرو |
---|---|
تحریر: | مولانا محمد حبیب اللہ بیگ ازھری |
اللہ وحدہ لاشریک کا ارشاد ہے:
الَّذِیْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا مَا تَرٰى فِیْ خَلْقِ الرَّحْمٰنِ مِنْ تَفٰوُتٍ فَارْجِـعِ الْبَصَرَ هَلْ تَرٰى مِنْ فُطُوْرٍ [الملك: 3]
یعنی اللہ وہی ہے جس نے ایک کے اوپر ایک سات آسمان بنائے، تمھیں رحمن کی تخلیق میں کوئی خلل نظر نہیں آئے گا، نظر اٹھا کر دیکھو، آسمانوں میں تمھیں کوئی شگاف نظر آرہا ہے؟
اس آیت میں دو باتیں بتائی گئیں، ایک یہ کہ اللہ نے طبق در طبق سات آسمان بنائے، جس کا ذکر آیت کے ابتدائی جز ”الَّذِیْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا“ میں ہے۔
دوسرے یہ کہ ان آسمانوں میں کہیں شگاف یا عدم توازن نہیں ہے، جس کا ذکر آیت کے درمیانی اور آخری جز ” مَا تَرٰى فِیْ خَلْقِ الرَّحْمٰنِ مِنْ تَفٰوُتٍ فَارْجِـعِ الْبَصَرَۙ هَلْ تَرٰى مِنْ فُطُوْرٍ “ میں ہے۔
عربی زبان کا ایک عام اسلوب یہ ہے کہ جب کسی شے کا ذکر پہلی بار ہوتا ہے تو اس کے لیے اسم ظاہر ذکر کیا جاتا ہے، دوبارہ اسی اسم یا اس سے متعلق کسی چیز کا ذکر کرنا ہو تو اس کے لیے عموماً ضمیر کا استعمال کیا جاتا ہے، لیکن پیش نظر آیت مبارکہ کا اسلوب عام استعمالات سے مختلف ہے، کیوں کہ اس آیت میں پہلے سات آسمانوں کا ذکر ہوا، جس کے لیے اسم ظاہر ” سَبْعَ سَمٰوٰتٍ “ ذکر کیا گیا، پھر انھی آسمانوں میں عدم توازن یا شگاف نہ ہونے کا ذکر کیا گیا، جس کے لیے نہ ضمیر لائی گئی نہ اسم ظاہر کا ذکر کیا گیا، بلکہ فرمایا: ” مَا تَرٰى فِیْ خَلْقِ الرَّحْمٰنِ مِنْ تَفٰوُتٍ “
اس آیت مبارکہ میں ” سَبْعَ سَمٰوٰتٍ “ کے بعد ما ترى فيهن کے بجائے ” مَّا تَرَىٰ فِی خَلۡقِ ٱلرَّحۡمَـٰنِ “ کہہ کر ایک خاص نکتے کی طرف اشارہ کیا گیاہے، وہ یہ کہ کسی بھی شے پر غور کرنے کے دو طریقے ہوسکتے ہیں۔
ایک یہ کہ کسی شے پر بحیثیت شے غور کیا جائے، یعنی اپنی تمام تر توجہ مرکوز کرکے شے میں پوشیدہ محاسن و کمالات تک رسائی حاصل کی جائے، اور اسی ادراک ومعرفت کو اپنی تحقیق کی انتہا اور اصل کامیابی تصور کیا جائے۔
دوسرے یہ کہ کسی شے پر بحیثیت مخلوق غور کیا جائے، یعنی شے کا بغور مطالعہ کرکے اس میں پوشیدہ اسرار و محاسن کو تلاش کیا جائے، پھر ان محاسن وکمالات کے ذریعے خالق کے وجود، اس کی بے مثال قدرت اور اس کے حسن تخلیق پر دلیل لائی جائے، اس طرح شے کے بجائے اس کے خالق تک رسائی کو اپنے مطالعہ و تحقیق کا مقصود تصور کیا جائے۔
جو لوگ کسی بھی شے کا بحیثیت شے مطالعہ کرتے ہیں وہ اسی شے تک محدود رہ جاتے ہیں، شے کی معرفت انھیں خدا کے وجود اور اس کی قدرت کا معترف نہیں بناتی، سائنس دانوں نے کائنات میں پھیلی ہزاروں چیزوں کی حقیقت دریافت کرلی، لیکن انھیں خدا کی معرفت حاصل نہ ہوسکی، کیوں کہ انھوں نے کائنات کا بحیثیت مخلوق مطالعہ نہیں کیا، اگر یہ حضرات کائنات میں پھیلی نشانیوں کے اسرار ومحاسن کے ساتھ ساتھ ان کے خالق ومصور کی تلاش جاری رکھتے تو ضرور حق آشنا ہوجاتے۔
اسی لیے قرآن کریم نے کسی بھی شے کا بحیثیت مخلوق مطالعہ کرنے کا حکم دیا، بطور خاص طبق در طبق آسمانوں پر غور وفکر کے باب میں فرمایا کہ دیکھو تمھارے مہربان رب نے ان آسمانوں کو کس طرح بلند، مضبوط اور بے عیب بنایا ہے؟ غور کرو تو صرف آسمان ہی نہیں، اس کی کسی بھی تخلیق میں کوئی عدم توازن یا بے ضابطگی نظر نہیں آئے گی۔
جو لوگ مظاہر فطرت پر غور کرتے ہیں اور اس بات پر یقین رکھتے ہیں یہ کائنات از خود وجود میں نہیں آسکتی، وہ اس کے پس پردہ کار فرما لا متناہی قدرتوں پر یقین کر لیتے ہیں، اور بزبان حال کہتے ہیں:
رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هٰذَا بَاطِلًا سُبْحٰنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ [آل عمران: 191]
مولی! تو ہی اس جہان رنگ وبو کا خالق ہے، تو نے یہ جہان عبث اور بے کار نہیں بنایا، تو ہر طرح کے عبث سے پاک ہے، کائنات میں پھیلی نشانیاں دکھا کر اپنی معرفت عطا فرمانے والے پروردگار! ہمیں دوزخ کی آگ سے محفوظ فرما۔
بلاشبہ یہ وسیع وعریض کائنات اللہ کی واضح نشانی اور اس کی غالب قدرتوں کا مظہر ہے، یہ کائنات متلاشیان حق کے لیے کھلی ہوئی کتاب کی طرح ہے، جو لوگ اس کے روشن صفحات کا مطالعہ کرتے ہیں، اور سنجیدگی سے تدبر کرتے ہیں، وہ خالق کائنات کے وجود وحیات، اس کے علم وقدرت، اور اس کے تصرفات واختیارات کے معترف ہوجاتے ہیں، یہی مطالعہ کائنات کا اصل مقصد ہے۔
مضمون نگار جامعہ اشرفیہ کے استاذ اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ {alertInfo}