✍️ رائٹرز کے لیے نایاب موقع! جن رائٹر کے 313 مضامین لباب ویب سائٹ پر شائع ہوں گے، ان کو سرٹیفکیٹ سے نوازا جائے گا، اور ان کے مضامین کے مجموعہ کو صراط پبلیکیشنز سے شائع بھی کیا جائے گا!

در جانانہ چاہیے!

عنوان: در جانانہ چاہیے
تحریر: مولانا سید فیضان احمد مصباحی


یہ تحریر وصال پر ملال پیر و مرشد، والد محترم، حضرت قبلہ سید اقرار احمد رضوی، چشتی، صابری، قادری رحمہ اللہ تعالیٰ کی مناسبت سے لکھی گئی۔ از سید فیضان احمد مصباحی {alertInfo}

کعبے کا شوق ہے نہ صنم خانہ چاہیے
جانانہ چاہیے در جانانہ چاہیے

حاضر ہیں میرے جیب و گریباں کی دھجیاں
اب اور کیا تجھے دل دیوانہ چاہیے

بیدمؔ نماز عشق یہی ہے خدا گواہ
ہر دم تصور رخ جانانہ چاہیے

اتوار کا دن تھا۔ شام کے چھ بج کر پندرہ منٹ ہوئے تھے۔ یہ لمحہ میرے لیے انتہائی المناک بن کر آیا۔ پیر و مرشد، والد محترم، حضرت قبلہ سید اقرار احمد رضوی چشتی، صابری، قادری رحمہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں داغ مفارقت دے دیا اور داعیٔ اجل کو لبیک کہہ دیا۔ میرے لیے اس سے بڑا صدمہ میری زندگی میں کوئی اور نہیں ہوگا۔

دل کی دنیا اجڑی ہوئی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے جسم سے کوئی روح نکال کر لے گیا ہو۔ میرے اردگرد وہ تمام لوگ موجود ہیں جو پہلے ہوتے تھے لیکن پھر بھی میں جو تنہائی محسوس کررہا ہوں، اس کا تجربہ اس سے پہلے میں نے کبھی اپنی زندگی میں نہیں کیا۔ اگرچہ ابو کا روحانی فیض تو ہمیشہ جاری رہے گا لیکن ان کے ہمارے درمیان میں نہ ہونے سے جو ایک خلا میری زندگی میں پیدا ہوا ہے اس کو کوئی اور پر نہیں کرسکتا۔

آج یہ احساس بھی ہوا کہ دوسروں کو صبر کی تلقین کرنا اور خود صبر کرنا دونوں الگ چیزیں ہیں۔ تاہم رب کریم کے فرمان ”اِنَّ اللهَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ“ کا تقاضا اور مطالبہ یہی ہے کہ انسان کو جیسے ہی صدمہ پہنچے، وہ ہمت اور حوصلے سے کام لے۔ اللہ پر توکل کرے، خود کو بکھرنے نہ دے۔ اور اپنے اردگرد دوسرے لوگوں کو بھی سنبھالے اور ان کو سہارا دے۔ پھر بھی عمل کی دنیا میں یہ سب اتنا آسان نہیں ہے۔ کم سے کم مجھ جیسے خطا کار اور کمزور بندے کے لیے تو انتہائی مشکل ہے۔

اب کئی دن گزر چکے ہیں۔ لیکن پھر بھی گاہے بگاہے بے اختیاری طور پر، خلوت و جلوت میں والد بزرگوار کی یاد میں آنسوں چھلک جاتے ہیں۔ وہ میرا وجود حقیقی تھے اور میں ان کا پرتو۔ اب وجود تو ختم ہوگیا، صرف سایہ ہی رہ گیا ہے۔ اور سایے کی اپنی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔

بچپن سے والد محترم کے ساتھ میرے خانقاہی وغیر خانقاہی دورے رہے۔ میں اپنے بھائی بہنوں میں سب سے زیادہ والد محترم کی معیت میں رہا۔ اس لیے ہر لمحہ، ہر وقت، سوتے جاگتے میرے ذہن و دماغ میں بس انہیں کا چہرہ، انہیں کا تصور گردش کرتا رہتا ہے۔

ایک ایسی عظیم نعمت ہم سے جدا ہوگئی جس کا کوئی بدل نہیں ہے۔ والد محترم کی زندگی کے بدلے اگر مجھ سے دنیا کی ساری نعمتیں بھی چھن جاتیں تو میں بخوشی منظور کرلیتا۔ اے کاش! والد محترم کی سرپرستی کچھ اور سال مل جاتی۔ لیکن مشیت الہی کے آگے سر تسلیم خم ہے۔

میرے پیارے ابو اخلاقی نقطۂ نظر سے جن اوصاف اور شخصیت کے حامل تھے اس کو احاطۂ قلم میں لانا بڑا مشکل ہے۔ انہوں نے کبھی کسی سے بدلہ اور انتقام نہ لیا۔ کسی نے انہیں کچھ غلط بھی کہا تو وہ ایسے ہوجاتے جیسے انہوں نے سنا ہی نہیں۔ اور پھر اس شخص سے بڑی شفقت و محبت سے ملتے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے وصال کے دن اپنے تو اپنے بلکہ بہت سے غیر مسلموں نے آکر اظہار افسوس کیا۔

شہر باندہ یوپی جہاں ہماری مرکزی خانقاہ واقع ہے اور مہاراشٹر کے متعدد علاقے جہاں ہماری مرکزی خانقاہ کی شاخیں قائم ہیں، وہاں کے مختلف مکاتب فکر کے لوگ اپنے مسلکی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر والد محترم کی عزت وتکریم بجا لاتے اور کہتے تھے کہ سنیوں میں اگر ہم کسی کو مانتے ہیں تو وہ شیخ طریقت سید اقرار میاں صاحب ہیں۔

والد محترم کے دست مبارک پر ہزارہا لوگوں نے توبہ کی۔ بہت سے غیر مسلم ایمان لائے۔ آپ کا یہ مخصوص طریقہ تھا کہ اپنے مالدار مریدین کو تلقین فرماتے کہ اپنے غریب پیر بھائیوں کی مدد کریں۔ خود بھی گھر کے بجٹ کا ایک حصہ اپنے غریب مریدین کے لیے مختص فرماتے اور اپنے صاحب ثروت مریدین کو بھی اس کی نصیحت فرماتے۔ اور بقول میری والدۂ مکرمہ، والد صاحب نے اپنے وصال سے 4 روز قبل والدہ کو چند نصیحتوں کے ساتھ آخری نصیحت یہ فرمائی:

"زکات کی ادائیگی میں کوتاہی نہ کرنا۔ اگر پیسے نہ ہوں تو کچھ سامان فروخت کرکے زکات ادا کرنا۔"

ابو ہمارے کپڑوں کے لیے، جوتوں اور تمام سامانوں کے لیے ہمیں پیسے دیتے مگر اپنی ذات کے لیے کبھی کچھ نہ خریدا۔ انتہائی سادگی سے رہتے اور کبھی یہ کوشش نہ کرتے کہ ہم دوسروں سے الگ دکھیں۔ میں کبھی کبھی ان سے یہ عرض کرتا کہ ابو پیران عظام کے دوسرے خانوادے بھی ہیں جنہیں اللہ نے بڑی شاہانہ زندگی عطا فرمائی ہے۔ ان کے پاس نقل و حمل کے لیے کئی گاڑیاں ہیں، اچھے لباس ہیں۔ آپ کے پاس یہ سب کیوں نہیں؟ تو فرماتے:

"بیٹا! غریبی تو ہمارے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان ہے اور دنیاوی اسباب تو جتنے کم ہوں اتنا اچھا ہے۔ قبر میں سب کو خالی ہاتھ ہی جانا ہے۔"

یہی وجہ ہے کہ ان کے وصال کے بعد ہم اہل خانہ کے پاس صرف اپنے بزرگوں کی نسبتیں ہی ہیں۔

میں سوچتا ہوں اب کون ہمیں آداب خانقاہی سکھائے گا؟ اور کون ہماری کوتاہیوں سے ہم کو مطلع کرے گا؟ فیا للاسف۔

بزرگوں کی قدر و قیمت کا اندازہ ان کے رخصت ہونے کے بعد ہی ہوتا ہے۔ وصال کے دن لاک ڈاؤن کی سختیوں کے باوجود اور اس کے باوجود کہ اعلان عام سے پرہیز کیا گیا، ہزاروں کا مجمع اکٹھا ہوگیا ۔جنازے کو کندھا دینے کے لئے لوگ قابو سے باہر ہو رہے تھے۔ اس منظر کو دیکھ کر مجھے یہ حدیث پاک یاد آئی:

إنَّ اللَّهَ تَبارَكَ وتَعالى إذا أحَبَّ عَبْدًا نادى جِبْرِيلَ: إنَّ اللَّهَ قدْ أحَبَّ فُلانًا فأحِبَّهُ، فيُحِبُّهُ جِبْرِيلُ. ثُمَّ يُنادِي جِبْرِيلُ في السَّماءِ: إنَّ اللَّهَ قدْ أحَبَّ فُلانًا فأحِبُّوهُ، فيُحِبُّهُ أهْلُ السَّماءِ. ويُوضَعُ له القَبُولُ في أهْلِ الأرْضِ. (البخاري (ت 256)، صحيح البخاري، الرقم: 7458)

ترجمہ: جب اللہ کسی کو اپنا محبوب بنا لیتا ہے تو حضرت جبریل علیہ السلام کو بلاتا کر فرماتا ہے: اللہ کو فلاں بندے سے محبت ہوگئی یے، اب تم بھی اس سے محبت کرو۔ پھر حضرت جبریل اس سے محبت کرنے لگتے ہیں۔ اس کے بعد حضرت جبریل آسمان میں ندا دیتے ہیں: اللہ کو فلاں بندے سے محبت ہوگئی ہے۔ اب تم بھی اس سے محبت کرو۔ پھر آسمان والے بھی اس سے محبت کرنے لگتے ہیں۔ اور زمین والوں کے دلوں میں بھی اس بندے کی محبت اور مقبولیت ڈال دی جاتی ہے۔

رمضان کی 22 تاریخ سے طبیعت علیل تھی۔ مجھ سے اور والدہ سے فرمانے لگے کہ باندہ چلو میں اپنے بزرگوں کے پاس جانا چاہتا ہوں۔ اس وقت ہم لوگ اپنے آبائی وطن رامپور میں تھے۔ پھر 27 رمضان کو طبیعت زیادہ علیل ہوگئی تو مجھ سے اور والدہ سے سختی سے فرمایا: دیکھو میں تم لوگوں سے کہ رہا ہوں کہ مجھے باندہ میرے بزرگوں میں لے چلو۔ اگر ابھی نہ لے کر گئے تو بہت پچھتاؤ گے۔ مزید فرمایا کہ باندہ کی خانقاہ میں فلاں جگہ ہماری قبر کا انتظام کرو۔ اسے تیار کرواؤ۔

میں نے کہا: ابو آپ یہ کیسی باتیں کررہے ہیں؟ باندہ تو جانا ہی ہے، عید کے بعد چلیں گے۔ آپ کی طبیعت بھی ذرا بحال ہوجائے گی۔ تو فرمایا: نہیں، فوراً چلو۔ ان کی یہ باتیں سن کر ہم گھبرا گئے۔ لیکن پھر بھی ہمت کرتے ہوئے ہم نے فوراً گاڑی کا انتظام کیا۔ اور چاند رات والے دن صبح میں ہم باندہ کے لیے روانہ ہوگئے۔ سفر کے دوران دوپہر کے وقت طبیعت پھر سے خراب ہونے لگی تو ہم صفی پور شریف( جہاں ہماری خالہ کا گھر ہے) میں کچھ وقت کے لیے ٹھہر گئے۔ ان کی طبیعت خراب دیکھ کر میں پریشان ہونے لگا تو کہنے لگے: گھبراؤ نہیں، ابھی ہمارا سفر اور باقی ہے۔

کچھ وقت کے بعد ہم صفی پور سے نکلے اور رات تقریبا 9 بجے ہم باندہ شریف اپنے بزرگوں کے یہاں پہنچ گئے۔ یہاں کئی روز ان کا علاج چلتا رہا لیکن کسی دوا سے افاقہ نہ ہوا۔ ایک روز مجھے خیال آیا کہ ہمارے تبرکات میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا موئے مبارک شریف رکھا ہوا ہے۔ اسے نکال کر دعا کی جائے۔ جمعرات کا دن تھا۔ میں نے تبرکات میں سے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا موے مبارک نکالا۔ ایک پاک کپڑا والد صاحب کے سر پر رکھا۔ پھر اس کپڑے پر موئے مبارک کو رکھا۔ پھر موئے مبارک کو اسی کپڑے کے ساتھ ان کے سینے پر رکھا اور انہیں بتایا کہ ابو! آپ کے سر پر سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا موے مبارک ہے۔ تو دعا کرنے لگے: یا اللہ میری مغفرت فرما، میرے گناہوں کو معاف فرما۔ جمعہ کے روز طبیعت خوب اچھی ہوگئی، ہم نے خیال کیا کہ اب طبیعت بہتر ہوگئی ہے۔

لیکن جمعہ کا دن گزرنے کے بعد طبیعت پھر سے خراب ہونے لگی۔ میں رونے لگا اور کہا کہ ابو آپ کی طبیعت اچھی کیوں نہیں ہورہی ہے؟ اتنی اچھی دواؤں کے بعد تو لوگ ٹھیک ہوجاتے ہیں۔ کہنے لگے: رو مت بیٹا، پریشان نہ ہو، ٹھیک ہوجاؤں گا۔ ہمارے دوسرے بہن بھائیوں کو بھی تسلی دی اور کہا کہ رونا مت۔

سنیچر کی صبح سے انہوں نے بات کرنا اور کھانا پینا بند کردیا۔ ویسے بھی ان کی خوراک انتہائی مختصر تھی۔ اب یہ بھی بند ہوگئی۔ ہم نے بہت کوشش کی کہ کچھ کھلادیں، لیکن انہوں نے کچھ نہیں کھایا۔ والدہ نے کہا کہ انہیں زمزم پلاؤ، تو ہم سب بہن بھائیوں نے انہیں زمزم پلایا۔ زمزم انہوں نے اس غشی کے عالم میں بھی پی لیا۔

بیماری کی سختی اور جسم کی انتہائی لاغری کے باوجود بھی اذان سن کر اپنے ہاتھ باندھ لیتے اور لیٹے لیٹے نماز پڑھتے۔ دعا کے لیے ہاتھ اٹھانے کی کوشش کرتے۔ یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہا جب تک جسم میں کچھ بھی حرکت کی طاقت باقی رہی۔ جب جسم میں حرکت کی قوت بھی نہ رہی تب بھی ان کے ہونٹ حرکت کرتے تھے۔ وہ اس وقت کیا پڑھتے تھے یہ اللہ بہتر جانتا ہے۔

بروز اتوار صبح سے حالت اور زیادہ بگڑ گئی۔ میں نے ان کے سر کے پاس کھڑے ہوکر تلقین کلمہ کیا۔ پھر یسین شریف کی تلاوت کی۔ اس کے بعد میں نے اپنے سلسلۂ چشتیہ برخورداریہ کا شجرہ و مناجات وسلام چشتیہ بآواز بلند ان کے سامنے پڑھا۔ فاتحہ دی اور درود تاج پڑھی۔ بقول میری والدہ، والد محترم اسی غشی اور جانکنی کے عالم میں بھی میرے ساتھ درود تاج پڑھ رہے تھے۔ میں نے سلسلے کے طریقے پر مکمل فاتحہ دی۔ اس کے بعد ٹھیک 6:10 منٹ پر انہوں نے دو بارہ اپنی آنکھیں کھولیں۔ ان کی آنکھیں کھلی دیکھ کر میں تھوڑا خوش ہوا، کہ دو دن سے آنکھیں بند تھیں، شاید کچھ افاقہ ہوا ہو۔ میں نے زور سے آواز دی ابو! ابو! لیکن انہوں نے آنکھیں بند کرلیں اور روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی۔ إنا لله وانا اليه رجعون.

میرے لیے دنیا رک سی گئی۔ اس وقت کی کیفیت کا بیان الفاظ میں ممکن نہیں۔ لیکن سب کچھ مجھے ہی سنبھالنا تھا، میں نے ہمت کرتے ہوئے ان کے ہاتھ پیر سیدھے کیے اور جہاں وہ اپنے مریدین کے دکھڑے سن کر ان کے لیے دعائیں کرتے تھے وہیں تخت پر ان کو لٹادیا اور غسل دینے کے بعد خاک شفاء ان کی آنکھوں اور لبوں پر رکھی ۔

پیر کے دن یعنی 11 شوال المکرم کو صبح 10:30 بجے خانقاہ چشتیہ برخورداریہ، کالون گنج، ضلع باندہ، یوپی میں اپنے جد امجد حضرت قاری سید برخوردار علی شاہ بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے آستانے کے باہری حصے میں تدفین عمل میں آئی۔ یوں تو قبر میں اترنے سے بڑی ہیبت سی ہوتی ہے لیکن جب میں ان کی قبر میں ان کا جنازہ اتارنے کے لیے اترا تو بھینی بھینی خوشبو اور رونق محسوس ہورہی تھی۔ قبر میں ان کا آخری دیدار کیا۔ چہرے پہ بزرگی اور حد درجہ معصومیت دکھ رہی تھی۔ ڈبڈبائی پلکیں لیے میں قبر سے باہر نکلا اور اپنے پیر، مرشد اور والد محترم کو الوداع کہا۔

اللہ والد محترم کے درجات میں ہر لمحہ ترقی عطا فرمائے، ان کے فیض کو ان کے تمام مریدین، متوسلین، محبین اور متعلقین پر جاری وساری رکھے۔ مجھے اور میرے تمام گھر والوں کو حوصلہ اور ہمت عطا فرمائے۔ اور والد محترم کی طرح مجھ سے جتنا ممکن ہو اپنے دین متین کا کام لے اور ہماری خانقاہ کے مقاصد کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ حبیبه النبي الأمین صلی الله علیه وسلم

مضمون نگار خانقاہ چشتیہ برخوردایہ باندہ شریف (یوپی) کے سجادہ نشین ہیں۔ {alertInfo}

1 تبصرے

  1. بےشک ہم اللہ کے ہیں اور اسی کی طرف پھرنا ہے ۔
    اللہ کریم صبر عطا فرمائے آمین

    جواب دیںحذف کریں
جدید تر اس سے پرانی
WhatsApp Profile
لباب-مستند مضامین و مقالات Online
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مرحبا، خوش آمدید!
اپنے مضامین بھیجیں