عنوان: | دعوت و تبلیغ امت کے ہر فرد کی ذمہ داری |
---|---|
تحریر: | مفتی شہباز انور برکاتی مصباحی |
اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
كُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰه. [آل عمران: ١١٠]
(اے مسلمانو!) تم بہترین امت ہو ان تمام امتوں میں جو لوگوں پر ظاہر ہوئیں، تم بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔
نیز رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:
أَلَا كُلُّكُمْ رَاعٍ وكلكم مسؤول عَنْ رَعِيَّتِهِ، فَالْإِمَامُ الَّذِي عَلَى النَّاسِ رَاعٍ وهو مسؤول عَنْ رَعِيَّتِهِ، وَالرَّجُلُ رَاعٍ عَلَى أَهْلِ بَيْتِهِ وهو مسؤول عَنْ رَعِيَّتِهِ، وَالْمَرْأَةُ رَاعِيَةٌ عَلَى أَهْلِ بَيْتِ زوجها وولده وهي مسؤولة عَنْهُمْ، وَعَبْدُ الرَّجُلِ رَاعٍ عَلَى مَالِ سَيِّدِهِ وهو مسؤول عنه، ألا فكلكم راع وكلكم مسؤول عن رعيته. [البخاري، صحیح البخاري، رقم الحدیث: 7138]
ترجمہ: سنو! تم میں سے ہر ایک ذمہ دار ہے اور ہر ایک سے اس کی ذمہ داری کے بارے میں پوچھا جائے گا، پس لوگوں کا امام و سربراہ ذمہ دار ہے اور اس سے اس کی رعیت سے متعلق پوچھا جائے گا، آدمی اپنے اہل خانہ کا ذمہ دار ہے اور اس سے اس کی ذمہ داری کے بارے میں پوچھا جائے گا، عورت اپنے شوہر کے گھر اور بچوں کی نگران و ذمہ دار ہے اس سے ان سے متعلق پوچھ گچھ ہوگی اور غلام اپنے آقا کے مال کا نگہبان ہے اس سے اس کے بارے میں پوچھا جائے گا تو خبردار سنو! ہر ایک ذمہ دار ہے اور ہر ایک سے اس کی ذمہ داری کے بارے میں پوچھا جائے گا۔
قرآن و حدیث کی مذکورہ نصوص سے واضح ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہر فرد پر حسب حال و استطاعت واجب ہے لیکن اس کا وجوب علماے کرام پر زیادہ اہم و اعظم ہے کیوں کہ یہ وارثین انبیا ہیں چناں چہ حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ کی روایت میں مذکور ہے کہ نبی کریم علیہ الصلاۃ و التسلیم نے ارشاد فرمایا:
إِنَّ الْعُلَمَاءَ وَرَثَةُ الأَنْبِيَاءِ. [ابن حبان، صحیح ابن حبان، رقم الحدیث: 830، والدیلمي، مسند الفردوس، والقضاعي، مسند الشھاب]
ترجمہ: بے شک علما انبیا کے وارثین ہیں۔
وارث کا کام مورث کے مشن کو آگے بڑھانا ہے اور ظاہر ہے کہ انبیا کی بعثت صرف دعوت و ارشاد ہی کے لیے ہوئی، لہٰذا علما کو اپنی ذمہ داری کا احساس ہونا چاہیے کہ ان کی ذمہ داری عوام سے کئی گنا زیادہ اور چہار جہت پھیلی ہوئی ہے، اللہ نے آپ کو جس جگہ پیدا فرمایا یا رہائش پذیر فرمایا ہے، وہاں کے دینی ذمہ دار من جانب اللہ آپ ہی ہیں۔
دعوت و تبلیغ میں علما کی ذمہ داری اور اس باب میں ان کی خصوصیت پر یہ آیات مبارکہ دلالت کرتی ہیں:
وَلْتَكُنْ مِّنْكُمْ اُمَّةٌ یَّدْعُوْنَ اِلَى الْخَیْرِ وَ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِؕ-وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ [آل عمران: 104]
ترجمہ: تم میں ایک گروہ ایسا ہونا چاہیے کہ بھلائی کی طرف بلائیں اور اچھی بات کا حکم دیں اور برائی سے روکیں اور وہی لوگ مراد کو پہنچے۔
اللہ کریم سورۂ توبہ میں ارشاد فرماتا ہے:
وَ مَا كَانَ الْمُؤْمِنُوْنَ لِیَنْفِرُوْا كَآفَّةًؕ-فَلَوْ لَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ طَآىٕفَةٌ لِّیَتَفَقَّهُوْا فِی الدِّیْنِ وَ لِیُنْذِرُوْا قَوْمَهُمْ اِذَا رَجَعُوْۤا اِلَیْهِمْ لَعَلَّهُمْ یَحْذَرُوْنَ [التوبة: 122]
ترجمہ: اور مسلمانوں سے یہ تو ہو نہیں سکتا کہ سب کے سب نکلیں تو کیوں نہ ہوا کہ ان کے ہر گروہ میں سے ایک جماعت نکلے کہ دین کی سمجھ حاصل کریں اور واپس آکر اپنی قوم کو ڈر سنائیں اس امید پر کہ وہ بچیں۔
مذکورہ بالا آیت مبارکہ سے روشن و عیاں ہے کہ ایک عالم جب علم دین اور فقہ شریعت حاصل کرنے جاتا ہے تو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ وہ اللہ کی طرف سے چنندہ فرد ہے جسے علما وارثین انبیا کی مبارک جماعت کے لیے منتخب فرمایا گیا ہے اور اس کا اہم مقصد ہی یہی ہے کہ وہ علم دین سیکھ کے واپس آنے کے بعد اپنی قوم کی اصلاح کرے، انھیں آخرت کے عذاب سے ڈرائے اور نا امید نہ ہو بلکہ اخلاص کے ساتھ فریضۂ دعوت کو انجام دے اور امید رکھے کہ یہ لوگ باز آجائیں گے۔
واضح رہے کہ دوسروں کو کہنے سے پہلے خود عمل کرنا لازم ہے ورنہ بندہ اس آیت کا مصداق ہے:
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ، كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللّٰهِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا لَا تَفْعَلُوْنَ. [الصف: 3]
ترجمہ: اے ایمان والو کیوں کہتے ہو وہ جو نہیں کرتے، کتنی سخت ناپسند ہے اللہ کو وہ بات کہ وہ کہو جو نہ کرو۔
خدارا ! اپنے ذمہ دار ہونے کا احساس پیدا کریں اور خلوص و للہیت کے ساتھ اپنے حصے کا کام انجام دیں ان شاء اللہ تعالیٰ انقلاب آجائے گا۔ اللہ کریم ہمیں توفیق عطا فرمائے۔
مضمون نگار جامعۃ المدینہ فیضان مخدوم لاہوری، موڈاسا میں تدریسی خدمات میں مصروف ہیں۔ {alertInfo}
ما شاء اللہ تعالیٰ
جواب دیںحذف کریںاپنے حصے کی شمع ہمیں خود ہی جلانی ہوگی