✍️ رائٹرز کے لیے نایاب موقع! جن رائٹر کے 313 مضامین لباب ویب سائٹ پر شائع ہوں گے، ان کو سرٹیفکیٹ سے نوازا جائے گا، اور ان کے مضامین کے مجموعہ کو صراط پبلیکیشنز سے شائع بھی کیا جائے گا!

امام احمد رضا اور تصوف

عنوان: امام احمد رضا اور تصوف
تحریر: نیاز احمد عطاری

اس موضوع پر گفتگو کرنے سے قبل تصوف کی تعریف جان لینا ضروری ہے۔ اور اس بارے میں خود اعلیٰ حضرت اپنی ہی تصنیف ”مقال عرفا باعزاز شرع و علما“ میں لکھتے ہیں:

سیدی عبد اللہ محمد بن خفیف ضبی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:

التصوف تصفية القلوب و اتباع النبي ﷺ في الشريعة.

”تصوف اس کا نام ہے کہ دل صاف کیا جائے اور شریعت میں نبی ﷺ کی پیروی ہو“۔ [مولانا محمد احمد مصباحی، امام احمد رضا اور تصوف، ص:١٥، ﷕الاسلامی، مبارک پور]

اب ہم تصوف کی تعریف کو زیرِ نظر رکھتے ہوئے اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی زندگی پر غور کریں تو یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہوکر سامنے آتی ہے کہ آپ نے پوری زندگی شریعت پر سختی سے عمل کیا، ہر فرض و واجب کی محافظت اور اتباع سنت و شریعت میں کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا؛ جس کے نتیجے میں آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا قلبِ مبارک ایسا پاکیزہ و مصفّٰی ہو چکا تھا کہ نورِ معرفت کی چمک اوائلِ زندگی میں ہی نظر آنے لگی۔

حضرت مولانا سید شاہ آل رسول مارہروی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ان اربابِ سلوک اور مرشدینِ کرام  میں سے تھے جو اپنے مریدین کو ریاضت و مجاہدہ کی سخت منزلوں سے گزار کر ان کے قلوب کا تزکیہ و تصفیہ کرتے، پھر جب انہیں مسندِ ارشاد پر جلوہ آرائی کے قابل دیکھتے تو خلافت و اجازت سے سرفراز کرتے۔

مگر جب اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اپنے والدِ گرامی کے ساتھ  مولانا سید شاہ آلِ رسول مارہروی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوکر بیعت سے شرف یاب ہوئے تو بغیر ریاضت و مجاہدہ کے بیعت کے ساتھ ساتھ خلافت بھی دے دی گئی؛ یہ اس بارگاہ کا عجیب واقعہ تھا۔

مولانا سید شاہ آل رسول رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے پوتے اور خلیفۂ باکمال ابو الحسن احمد نوری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے عرض کیا: حضور! آپ کے یہاں تو بڑی ریاضت و مجاہدہ کے بعد خلافت دی جاتی ہے؛ ان کو ابھی کیسے دے دی گئی؟ فرمایا:

دوسرے لوگ میلا کچیلا زنگ آلود دل لے کر آتے ہیں، اس کے تزکیہ کے لیے ریاضت و مجاہدہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ تو مصفّٰی و پاکیزہ قلب لے کر آئے؛ انہیں ریاضت و مجاہدہ کی کیا ضرورت؟ صرف اتصالِ نسبت کی حاجت تھی جو بیعت کے ساتھ ہی حاصل ہوگیا۔

مزید فرمایا: مجھے بڑی فکر تھی کہ اگر بروزِ حشر اللہ عزوجل نے مجھ سے پوچھ لیا کہ: آل رسول! تو میرے لیے کیا لایا ہے؟ تو میں کیا پیش کروں گا۔ مگر خدا کا شکر ہے کہ آج یہ فکر دور ہو گئی؛ اس وقت میں ”احمد رضا“ کو پیش کروں گا۔ [مولانا محمد احمد مصباحی، امام احمد رضا اور تصوف، ص: ۱۸، ﷕الاسلامی، مبارک پور]

روز محشر اگر مجھ سے پوچھے خدا
بول آل رسول! تو لایا ہے کیا؟
عرض کر دوں گا لایا ہوں احمد رضا
یا خدا یہ امانت سلامت رہے

              ‏اگر ہم اس واقعے میں غور کریں تو اعلی حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی زندگی میں تصوف اور تزکیۂ قلب کا ظہور کافی حد تک اس بات سے ہو رہا ہے جو مولانا سید شاہ آل رسول رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمائی کہ ”یہ تو مصفّٰی و پاکیزہ قلب لے کر آئے ہیں، انہیں ریاضت و مجاہدہ کی کیا ضرورت؟“

ہر کامل صاحبِ تصوف مرتبۂ ولایت پر فائز ہوتا ہے، اور ہر ولی صوفی ضرور ہوتا ہے۔  ولی کون ہے؟ اس کی کئی تعریفیں بیان کی گئی ہیں لیکن اصدق الکلام، کلام پاک ولی کی تعریف یوں بیان فرماتا ہے:

”الَّذِيْنَ آمَنُواْ وَكَانُواْ يَتَّقُوْنَ“ [یونس: ٦٣]

ترجمۂ کنزالایمان: وہ جو ایمان لائے  اور پرہیز گاری (تقویٰ) کرتے ہیں۔

مذکورہ آیتِ مبارکہ سے واضح ہوجاتا ہے کہ ولی وہی ہے جو تقویٰ اختیار کرے اور اگر ہم اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی طرف نظر ڈالیں تو آپ کی زندگی کے کئی ایسے واقعات ملتے ہیں کہ جن کو پڑھ کر آپ کہنے لگیں گے کہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فقط متقی ہی نہیں بلکہ درجۂ ورَع کو پہنچے ہوئے تھے۔ انہیں میں سے ایک واقعہ آپ کے مرتبۂ ورَع و تقویٰ کو اجاگر کرنے میں کافی ہے۔

آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی زندگی کا آخری رمضان (1339ھ) تھا۔ اس وقت ایک تو بہت سخت گرمی تھی اور دوسری طرف آپ کی عمر مبارک کا آخری حصہ اور ضعف و مرض کی شدّت۔ شریعت اجازت دیتی ہے کی شیخِ فانی روزہ نہ رکھ سکے تو فدیہ دے اور ناتواں کو تو اجازت ہے کہ قضا کرے۔ لیکن آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا اپنے لیے فتویٰ کچھ اور ہی تھا جو در حقیقت فتویٰ نہیں بلکہ تقویٰ تھا۔ آپ نے فرمایا: بریلی میں شدّتِ گرما کے سبب میرے لیے روزہ رکھنا ممکن نہیں۔ لیکن پہاڑ پر ٹھنڈک ہوتی ہے، یہاں سے نینی تال قریب ہے، بھوالی پہاڑ پر روزہ رکھا جا سکتا ہے۔ میں وہاں جانے پر قادر ہوں لہذا میرے لیے وہاں جاکر روزہ رکھنا فرض ہے۔چناں چہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے رمضان وہیں گزارا اور پورے روزے رکھے۔ [مولانا محمد احمد مصباحی، امام احمد رضا اور تصوف، ص:۱۸، ﷕الاسلامی، مبارک پور]

اللہ اللہ! کتنا تقویٰ ہے! کتنا خوفِ خدا ہے! اور  کیوں نہ ہو کہ صاحبِ تقویٰ ہی تو صاحب ولایت ہے او ر صاحبِ ولایت صاحبِ تصوف ہے۔

اللہ عزوجل ہمیں  طُرقِ اولیا کی اتباع نصیب فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الکريمﷺ

مضمون نگار جامعۃ المدینہ موڈاسا، گجرات میں درجۂ سابعہ کے طالب علم ہیں۔ {alertInfo}

3 تبصرے

  1. ♥️ماشاء اللہ♥️
    اللہ رب العالمين آپ کو اور ترقیاں عطا فرمائے

    جواب دیںحذف کریں
  2. لباب ویب سائٹ دیکھ کر بے حد خوشی ہوئی! اس کی تھیم اور فونٹ کی خوبصورتی نہ صرف دلکش اور آنکھوں کو سکون دینے والی بلکہ انتہائی نفیس اور جاذبِ نظر ہے۔ علماء و مشائخ کے مقالات و مضامین کو اس قدر عمدہ و حسین انداز میں پیش کرنا قابلِ تعریف ہے۔ یہ ویب سائٹ نہ صرف علم کے متلاشی افراد کے لیے ایک قیمتی پلیٹ فارم ہے بلکہ اس کی تھیم اور ڈیزائن اس قدر پُرکشش ہیں کہ قاری مضامین و مقالات کے سحر میں جکڑے بغیر نہ رہ سکے گا۔
    دعا گو ہوں کہ اللہ پاک اس ویب سائٹ کو عروج و دوام بخشے اور علمی دنیا میں ایک معتبر و مستند حوالے کی حیثیت عطا فرمائے، آمین۔
    اس میں حصہ ملانے والوں کو دارین کی سعادت عطا فرمائے، آمین۔
    عطاء المصطفیٰ مصباحی

    جواب دیںحذف کریں
جدید تر اس سے پرانی
WhatsApp Profile
لباب-مستند مضامین و مقالات Online
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مرحبا، خوش آمدید!
اپنے مضامین بھیجیں