عنوان: | امام مقتدیوں کی عدالت میں |
---|---|
تحریر: | مفتی جمال احمد مصباحی |
ہم نے اماموں اور علماء کو ان کی پوری اجرتیں اور تنخواہیں نہ دیں۔ ہم نے ان کی اجرتیں انہیں وقت پر نہ دیں۔ ہم نے ان سے پانچ ملازموں کا کام لیا اور اجرت اتنی بھی نہ دی جتنی ایک ملازم کی بنتی ہے۔ بلکہ ہم نے انہیں ایک ملازم کی تنخواہ کا بھی پانچواں حصہ دیا۔باقی چار حصے ہم نے لاپتہ کردیے۔نہ ان چار حصوں کا ہم نے کبھی کسی کوحساب دیانہ اس کے بارے میں ہم نے کبھی کسی کو بتایا۔اور حق تو یہ ہے کہ پانچواں حصہ بھی پورا نہ دیا.
خیر یہ بھی اس وقت کی بات ہے جب ایک حافظ قرآن یا عالم دین کسی مسجد میں امامت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے۔دراصل کسی مسجد میں امامت حاصل کرنے میں کامیاب ہوجانا یہی اپنے آپ میں ایک بڑا امتحان ہے۔ہر گاؤں ، شہر یا بستی میں یاہر ایک مسجد سے جڑے ہوئے مقتدیوں میں لوگوں کے کئی گروپ ہوتے ہیں۔ اور ان میں سے ہر گروپ الگ الگ مزاج کا حامل ہوتا ہے۔ایک امام کو اگر کسی مسجد میں امامت حاصل کرنے میں کامیاب ہونا ہےتو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایسی ذات اور صفات کا مالک ہو کہ وہ ان تمام گروپوں میں سے ہر ایک کی امیدوں پر کھرا اتر سکے۔
اور ظاہر ہے یہ ایک بہت بڑی بات ہے کہ ایک انسان کے اندر وہ تمام خوبیاں ہو کہ وہ الگ الگ مزاج کے تمام گروپوں کو مطمئن کردے۔یہی وجہ ہے کہ کتنے گاؤں اور بستیاں ایسی ہیں کہ وہاں ایک امام آتا ہے، دوسرے دن اس کی چھٹی کردی جاتی ہے۔ پھر دوسرا آتا ہے اس کی تین دن میں چھٹی کردی جاتی ہے۔ پھر تیسرا آتا ہےاسے پانچ دن بعد نکال دیا جاتا ہے۔ پھر چوتھا آتا ہے اسے دس دن بعد واپس بھیج دیا جاتا ہے پھر کوئی اور آتا ہے اسے پندرہ دن میں رخصت کردیا جاتا ہے۔کسی کو مہینے میں ، کسی کو دو مہینے میں، کسی کو چھ مہینے میں ، کسی کو چھ مہینے سے کچھ زیادہ۔ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ ایک امام صاحب ایک سال تک اپنا دفاع کرنے میں کامیاب ہوجائیں۔ اور اگر کوئی امام صاحب دو سال تک اپنی امامت کی حفاظت کرپاتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ بہت خوش نصیب ہیں۔اور اگر ایسا ہوجاتا ہے کہ حفاظ، قراء یا علمائے کرام کا ایک ہی مسجد میں امامت کا دورانیہ دوسال سے اوپر چلاگیا تو یہ اپنے آپ میں حیرت میں ڈال دینے والی بات ہے.
اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ کوئی بھی امام اور نہ صرف امام بلکہ مدرسوں کے مدرسین اور علمائے کرام اپنی ملازمت کے حوالے سے کبھی بھی محفوظ نہیں ہیں۔ نہ تو کوئی ایسا قانون ہی موجود ہے جو اس بات کو یقینی بناتا ہو کہ ایک امام یا مدرس کو مثلاً ایک سال ، دوسال یاپانچ سال وغیرہ سے پہلے بنا معقول وجہ کے بر طرف نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی اماموں یا علماء کی کوئی ایسی تنظیم یا تحریک ہے جو ان کی ملازمت کو محفوظ بناتی ہو۔اس کا نتیجہ یہ ہے کہ امامت اور تدریس دونوں ہی اتنے غیر محفوظ عہدے ہیں کہ بسا اوقات کسی امام یا مدرس کی تنہا ایک شخص سے ناراضگی بھی اس کو مسجد یا مدرسے سے باہر کا راستہ دکھا سکتی ہے۔
لیکن ہم نے یہیں پر بس نہ کیا ۔جب ہم نے ایک عالم دین یا حافظ قرآن کو اپنا امام بنا ہی لیا پھر ہم انہیں ان کی روز مرہ کی زندگی میں بھی ستانے اور تکلیف دینے لگے۔ ہم ان سے اور ان کی زندگی سے جڑی ہر چیز میں جھانکتے ہیں اور اس کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں۔ اور نہ صرف ہم جاننا چاہتے ہیں بلکہ امام صاحب کو یہ بتانے میں دلچسپی بھی رکھتے ہیں کہ ان کی زندگی میں کیا صحیح اور کیا غلط چل رہا ہے۔ ہم انہیں ان کی زندگی کے بارے میں مشورے دینا چاہتے ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم اپنے اماموں کو اور اپنے علماء کو اتنا معصوم دیکھنا چاہتے ہیں جتنے فرشتے۔ہماری تمنا رہتی ہے کہ ہمارے امام اور علماء ایسے ہوں کہ ان سے کبھی بھولے سے بھی کسی قسم کی لغزش یا خطاء نہ ہو۔ ہم ان کے ساتھ اس طرح سے پیش آتے ہیں جیسے ہیں وہ نظام کائنات کے مطابق ہر انسان کی طرح اپنی ماں کے پیٹ سے پیدا نہیں ہوئے بلکہ’’ آسمان سے اترے ہوں‘‘۔اوراسی لیے ہم ان کی کسی بھی قسم کی غلطی کو کبھی معاف کرنے کے لیے تیار نہیں۔
چونکہ ہم ان کی زندگی میں ’’دلچسپی‘‘ رکھتے ہیں، اس لیے ہم اس جستجو میں لگے رہتے ہیں کہ ہمیں ان کی زندگی کے بارے میں کچھ جاننے کو ملے۔ اس کے لیے کبھی خود ہم امام صاحب سے براہِ راست ہی مختلف قسم کے سوالات کرتے ہیں۔ کبھی دوسرے لوگوں کے سامنے ان کے تذکرے چھیڑتے ہیں اور ان سے کچھ ہم امام صاحب کے بارے میں سنتے ہیں اور کچھ سناتے ہیں۔ اور جن جگہوں پر امام صاحب غلط ہیں ہم ان جگہوں اور ان غلطیوں کی نشاندہی کرتے ہیں۔ اور نہ صرف نشاندہی کرتے ہیں بلکہ ہم اس تعلق سے ’’دلائل ‘‘بھی پیش کرتے ہیں کہ امام صاحب کہاں غلط ہیں اور کیوں غلط ہیں۔
اور یہ سب ہم اس لیے کرتے ہیں کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ امام صاحب اور تمام علماء ہمارے ٹکڑوں پر پلتے ہیں۔ ہم ان پر احسان کرتے ہیں۔ اگر ہم انہیں یہ ٹکڑے نہ دیں تو ان کو اپنے گھر میں دو وقت کی روٹی بھی نصیب نہ ہو۔ ہماری سوچ یہی ہے۔ اسی حد تک گر چکی ہے ہماری سوچ۔ لیکن ہم اپنی اس بھدی سوچ کو خود سے اور دوسرے لوگوں سے چھپاتے ہیں۔
اگر ہم نے کبھی کسی عالم کو یا امام کو کسی دن اچھے لباس میں ملبوس دیکھ لیا تو ہم دوسرے لوگوں سے پوچھتے ہیں: کیا بات ہے آج کل امام صاحب بہت اچھا سوٹ پہن رہے ہیں؟ کہاں سے ہاتھ لگ گیا یہ جوڑا؟ پیسے کہاں سے آئے؟ اگر اتفاق سے کسی دن امام صاحب کو نکاح پڑھانے کے لیے مدعو کیا گیا اور وہاں شادی والے خاندان کے لوگوں نے ان کو نذرانے میں کچھ روپے دے دیے، تو ہم امام صاحب سے کہتے ہیں: کیا بات امام صاحب، آج تو آپ ہم سے بات کرنے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں؟ آج آپ ہم سے بات کریں گے بھی کیوں؟ آپ کی جیب گرم جو ہوگئی ہے۔
اگر کسی عالم نے یا امام نے اپنے لیے کہیں سے قرضہ لے کر یا کسی اور طرح اپنے لیے بائیک کا انتظام کرلیا تاکہ اگر وہ اپنے گاؤں میں ہی امامت کرتے ہیں توان کو ان کے گھریلو کاموں کے لیے یا کسی دوسری جگہ امامت کرتے ہیں توکچھ اور کاموں کے لیے سہولت ہو جائے تو ہم آپس میں ایک دوسرے سے کہتے ہیں کہ امام صاحب کا بائیک پر آنا جانا اچھا نہیں لگتا۔ ایک امام یا عالم کی یہ شان نہیں ہے کہ وہ بائیک پر سواری کرے۔پھر اگر ان کو اپنی امامت والے گاؤں، بستی یا شہر میں اپنے مزاج کےلوگ مل جائیں اور وہ ان لوگوں سے ملنا جلنا، ان کے یہاں اٹھنا بیٹھنا پسند کریں ،تو ہم انہیں ان کی ذمہ داریاں یاد دلاتے ہیں، ہم ان کو بتاتے ہیں کہ ہم نے آپ کو یہاں امامت کے لیے رکھا ہے۔ آپ اپنے کام پر دھیان دیں۔ ادھر ادھر کی فضول باتوں میں پڑکر وقت ضائع نہ کریں۔
ہم نماز کے لیے مسجد میں جائیں اور وضو کر نے کے لیے وضو خانے پر بیٹھیں اور ٹونٹی کھولنے پر معلوم ہو کہ ٹنکی کا پانی ختم ہوچکا ہے تو ہم وہیں سے بیٹھے بیٹھے چیخ پڑیں اور وہیں سے امام صاحب کو اس طرح آواز دیں جیسے وہ امام نہیں بلکہ پلمبر کا کام کرنے والا کوئی مزدور یا مسجد میں جھاڑو لگانے کے رکھا گیا کوئی ملازم ہے۔ ہم ان کو آواز دیتے ہیں اور کہتے ہیں: امام صاحب آپ کو ذرا بھی ہوش ہے کہ نہیں؟ ٹنکی کا پانی ختم ہوگیا اور آپ کو پتہ بھی نہیں چلا۔ ویسے بھی پورا دن آپ کو کوئی کام تو ہوتا نہیں ہے۔ اگر آپ تھوڑا بہت ہوش رکھا کریں تو ٹنکی کا پانی ختم کبھی نہ ہو۔
یا اسی طرح ہم نے دیکھا کہ مسجد کی صفوں پر گرد ہے ،مسجد کا دالان صاف نہیں ہے یا مسجد کے کسی اور حصے میں صفائی نظر نہیں آرہی ہے تو ہم فوراً امام صاحب کو طلب کرلیتے ہیں اور ان سے اس طرح سوال پہ سوال کرنا شروع کر دیتے ہیں جیسے امیر گھرانوں کے مالک اپنے گھر کے نوکروں کو بٹھا کر ان سے حساب لیتے ہیں۔ یہی نہیں وضو خانے کے ساتھ بنےباتھ روم اور ٹوائلٹ اگر گندے ہوگئے ہیں تو اس کے لیے بھی ہم مسجد کے امام صاحب یا مدرسے کے عالم دین کو کٹگھرے میں کھڑا کرکے ان سے اس طرح سوالات کرتے ہیں جیسا ان کو امام یا مدرس کے بطور نہیں بلکہ ایک ’’صفائی والے‘‘ کی حیثیت سے رکھا گیا ہو۔
اگر مسجد کے امام صاحب ایک دن کی چھٹی کرلیں تاکہ گھر جاکر وہ اپنے والدین، بیوی اور بچوں کی خیریت جان لیں تو بستی کا کوئی محلہ ایسا نہ بچے جس میں امام صاحب کی لاپروائی کے قصے سنے اور سنائے نہ جارہے ہوں۔بلکہ کچھ لوگ تو ان کے انتظار میں لگ جائیں کہ کب وہ گھر سے واپس آئیں اور وہ انہیں ان کے آتے ہی انہیں ان کی ذمے داری کا احساس دلائیں اور انہیں بتائیں کہ وہ کتنے لاپرواہ ہوچکے ہیں۔اور اگر مدرسے میں تعلیم دینے والے عالم دین ایک دن کے لیے چھٹی کر لیں تو مدرسے کی کمیٹی میں کھلبلی مچ جائےاور منصوبے تیار ہوجائیں کہ ان عالم صاحب کو جتنی جلدی ہوسکے مدرسے سے فارغ کیا جائے،ان کی غفلت حد سے زیادہ بڑھ چکی ہے۔ان کو نہ مدرسے کی فکر ہے، نہ طلبہ کی اور نہ تعلیم کی۔امام ہو یا عالم دین اس کی ملازمت اسی وقت سلامت رہ سکتی ہے جب وہ دن کے چوبیس گھنٹے، ہفتے کے سات دن، مہینے کے تیس دن اور سال کے تین سو پینسٹھ دن کا ہر ہر لمحہ ڈیوٹی میں خرچ کریں۔بلکہ تب بھی کوئی گارنٹی نہیں۔
ایک عام سے عام ملازم کو بھی ہفتے میں ایک دن اپنے کام سے آرام کے لیے اور اپنے گھر والوں، والدین اور بیوی بچوں کی خیریت جاننے اور اس طرح کے دوسرے کاموں کو انجام دینے کے لیے دیا جاتا ہے جو وہ پورے ہفتے اپنی ڈیوٹی میں مصروف ہونے کی وجہ سے انجام نہیں دے سکے۔اور اب تو بہت سے اداروں میں ہفتے میں دودن کی چھٹیوں کا رواج آنے لگا ہے۔لیکن یہ سب ہماری نظر میں اماموں، علماء اور دین کے خادموں کے لیے غیر ضروری چیزیں ہیں کیونکہ وہ انسان نہیں بلکہ آسمان سے اتری ہوئی کوئی دوسری مخلوق ہیں۔جن کو ان میں سے کسی بھی چیز کی ضرورت نہیں ہوتی جن کی ہم کو ضرورت ہے۔امام، علماء اور دین کے خادم لوگ مشینوں کی طرح ہیں ہم ان سے جتنا چاہیں کام لے لیں ۔ یہ تھکتے نہیں ہیں۔ بلکہ مشینیں بھی ایک وقت تک چلنے کے بعد جواب دینے لگتی ہیں ۔
یہ مضمون مفتی جمال احمد مصباحی کی کتاب ”امام کو کس نے مارا“ سے ماخوذ ہے۔ اس پوری کتاب کو حاصل کرنے کے لیے درج ذیل بٹن پر کلک کیجیے۔ {alertInfo}
اللہ کریم ہمیں امامِ مسجد کا ادب و احترام کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین
جواب دیںحذف کریں