✍️ رائٹرز کے لیے نایاب موقع! جن رائٹر کے 313 مضامین لباب ویب سائٹ پر شائع ہوں گے، ان کو سرٹیفکیٹ سے نوازا جائے گا، اور ان کے مضامین کے مجموعہ کو صراط پبلیکیشنز سے شائع بھی کیا جائے گا!

ادبی خیانت اور فکری سرقہ

عنوان: ادبی خیانت اور فکری سرقہ
تحریر: ہمشیرہ اخلاق برکاتی

ادبی خیانت اور فکری سرقہ دو ایسے اخلاقی اور علمی جرائم ہیں جو تخلیقی محنت اور علمی دیانت کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ ادبی خیانت میں کسی دوسرے کے الفاظ، خیالات یا تحریروں کو بغیر اجازت کے اپنے نام سے پیش کیا جاتا ہے، جب کہ فکری سرقہ میں کسی کے نظریات، تحقیق یا تخلیقی کام کو بغیر حوالہ دیے اپنا ظاہر کیا جاتا ہے۔ یہ دونوں عمل نہ صرف شرعی و اخلاقی اعتبار سے ناجائز ہیں بلکہ علمی معیار کے بھی خلاف ہیں۔

یہ روش اصل مصنف یا محقق کی محنت کی ناقدری اور سچائی کو چھپانے کا سبب بنتی ہے، جس سے علمی دنیا میں غیر اخلاقی رویے فروغ پاتے ہیں۔ اس سے تخلیق کاروں کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے، حالانکہ علم اور ادب کے فروغ کے لیے ایمانداری اور دیانت کا ہونا ضروری ہے۔

ادبی خیانت کا شرعی اور اخلاقی پہلو

کسی کی تحریر کو بلا اجازت شیئر کرنا، یا مصنف و محقق کا نام ہٹا کر اپنا نام شامل کرنا شرعی و اخلاقی طور پر ناجائز ہے۔ کسی فتویٰ سے اس کا اصل مصدر حذف کر کے اپنا نام لکھ دینا علمی چوری ہے، جو کہ شریعت میں خیانت کے زمرے میں آتا ہے۔

اس عمل سے اجتناب کرنا اور دیانت داری کا مظاہرہ کرنا اللہ عزوجل کے نزدیک پسندیدہ عمل ہے۔

جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:

إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا [النساء: 58]

ترجمہ کنزالایمان: بے شک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں جن کے سپرد کی گئی ہیں، انہیں ان تک پہنچاؤ۔

یہ آیت ہمیں امانت داری اور دیانت کو اپنانے کا درس دیتی ہے۔ نبی کریم ﷺ کی سیرتِ طیبہ ہمارے لیے بہترین نمونہ ہے۔ آپ ﷺ کی دیانت داری ایسی بے مثال تھی کہ کفارِ مکہ نے بھی آپ کو ”امین و صادق“ کے لقب سے نوازا۔ ہمیں بھی چاہیے کہ ان کی پیروی کرتے ہوئے ہر معاملے میں دیانت داری اختیار کریں۔

علمی بددیانتی کے خطرناک نتائج

آج کل یہ رویہ عام ہو چکا ہے کہ جس کی تحریر اچھی لگتی ہے، اس کا نام حذف کر کے اپنی طرف منسوب کر لیا جاتا ہے۔ بعض لوگ علمی سوالات کے جوابات دینے کے اہل نہیں ہوتے، مگر وہ گروپس چلا رہے ہوتے ہیں اور دوسروں کے جوابات اپنے نام سے پیش کر دیتے ہیں۔

یہ رویہ نہ صرف علمی خیانت ہے بلکہ بعض اوقات بہت بڑے دینی و شرعی مسائل بھی پیدا کر سکتا ہے۔ مثال کے طور پر، طلاق کے مسائل پیچیدہ ہوتے ہیں۔ اگر کوئی شخص سوال کو غلط سمجھے اور کسی اور سے پوچھ کر اس کا جواب دے، پھر اس میں رد و بدل کر کے اپنا نام ڈال دے، تو اس کے نتیجے میں سنگین غلط فہمیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔

ممکن ہے کہ کسی کو غلط فتویٰ دے دیا جائے اور وہ شخص ایسی حالت میں رہے کہ طلاق ہو چکی ہو مگر اسے علم نہ ہو، یا طلاق نہ ہوئی ہو اور وہ سمجھ بیٹھے کہ طلاق ہو چکی ہے۔ اس طرح، جہالت کے باعث زنا جیسے گناہ کا ارتکاب بھی ہو سکتا ہے، جو انتہائی خطرناک ہے۔

لہٰذا، ہمیں چاہیے کہ جو کچھ معلوم ہو، وہی بیان کریں۔ اگر کسی سے مسئلہ معلوم کرنا ہو تو اصل سوال ہی آگے بڑھائیں اور جو فتویٰ ملے، اسے جوں کا توں شیئر کریں۔ فتویٰ یا تحقیق سے اصل مصنف کا نام ہٹانا خیانت اور دھوکہ ہے، جو کہ اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔

جھوٹ اور دھوکہ دہی سے اجتناب

تحریر یا فتویٰ سے اصل مصنف کا نام ہٹا کر اپنا نام شامل کرنا ایک طرح کا جھوٹ ہے، اور جھوٹ ایک کبیرہ گناہ ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

لَعْنَتَ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ [آل عمران: 61]

ترجمہ کنزالایمان: جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ہے۔

یہ عمل دھوکہ دہی کے زمرے میں بھی آتا ہے۔

جیسا کہ حدیث شریف میں ہے:

مَنْ غَشَّنَا فَلَيْسَ مِنَّا۔ [صحیح مسلم: 283]

ترجمہ: جو ہمیں دھوکہ دے، وہ ہم میں سے نہیں۔

لہٰذا، ہمیں دیانت داری کو اپنا شعار بنانا چاہیے، دوسروں کے علمی و ادبی کام کا احترام کرنا چاہیے، اور ہمیشہ سچائی اور ایمانداری کو مقدم رکھنا چاہیے۔

اصل کامیابی اسی میں ہے کہ ہم اپنی محنت اور تخلیقی صلاحیتوں پر بھروسا کریں اور علم و تحقیق کے فروغ میں اپنا حقیقی کردار ادا کریں۔ سچائی، دیانت اور علمی دیانت داری ہی وہ اصول ہیں جو علم و تحقیق کی روشنی کو ہمیشہ روشن رکھ سکتے ہیں اور معاشرے کو حقیقی ترقی کی راہ پر گامزن کر سکتے ہیں۔

اللہ عزوجل ہمیں دیانت داری اور امانت داری اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور دوسروں کے حقوق کا احترام کرنے والا بنائے۔ آمین یا رب العالمین!

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی
WhatsApp Profile
لباب-مستند مضامین و مقالات Online
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مرحبا، خوش آمدید!
اپنے مضامین بھیجیں