عنوان: | اگر خدا موجود ہے تو دکھاؤ |
---|---|
تحریر: | محمد عالم رضا عطاری |
زید کالج میں پڑھنے والا ایک اسٹوڈنٹ تھا، جس کی ایک سیکولر اسٹوڈنٹ سے دوستی تھی۔
ایک مرتبہ اس سیکولر دوست نے زید سے کہا:
"تم مسلمان ہو، ایک خدا کو مانتے ہو، قرآن پر ایمان رکھتے ہو، آخری نبی ﷺ کی سنتوں پر عمل کرتے ہو، اور یہ بھی مانتے ہو کہ اللہ ایک ہے، بے نیاز ہے، نہ اس نے کسی کو جنا، نہ اسے کسی نے جنا، اس کے برابر کوئی نہیں، وہ وحدہٗ لا شریک ہے۔
میں تو تب تک خدا کو نہیں مانوں گا جب تک خدا کو دیکھ نہ لوں۔ اگر خدا موجود ہے تو دکھاؤ!"
زید ڈر گیا۔ وہ دوڑتے دوڑتے قریبی مدرسے کے مولوی صاحب کے پاس گیا۔ اس وقت مولوی صاحب ایک باغ میں ٹہل رہے تھے اور اس غور و فکر میں مشغول تھے کہ:
"یہ باغ، جس میں پھول بھی ہیں، کانٹے بھی ہیں، ان کو وقت پر پانی دیا جاتا ہے، ضرورت پڑنے پر زائد حصہ کاٹ دیا جاتا ہے تاکہ خوبصورتی برقرار رہے۔ پھولوں کو کانٹوں سے الگ کیا جاتا ہے، جانوروں سے ان کی حفاظت کی جاتی ہے۔ ان سب کا ایک والی ہونا ضروری ہے، ورنہ یہ باغ اندھی ہواؤں اور طوفانوں میں خراب ہو جائے گا، زیادہ دن چل نہیں سکے گا۔
تو اتنی بڑی کائنات کیسے بغیر والی کے رہ سکتی ہے؟ یقیناً اس کا بھی کوئی رکھوالا ہے، یقیناً اس کا کوئی بنانے والا ہے۔ یقیناً کوئی تو ہے جس نے اس باغ کی طرح اس دنیا کو سجایا، پہاڑوں سے، درختوں سے، پھولوں اور پودوں سے، چاند ستاروں سے، زمین و آسمان سے، سمندروں سے اور طرح طرح کے عجائبات رکھے ہیں۔"
کوئی تو ہے جو نظامِ ہستی چلا رہا ہے تلاش اس کو نہ کر بُتوں میں، وہ ہے بدلتی ہوئی رتوں میں جو دن کو رات اور رات کو دن بنا رہا ہے، وہی خدا ہے کسی کو تاج و وقار بخشے، کسی کو ذلت کے غار بخشے جو سب کے ماتھے پہ مہرِ قدرت لگا رہا ہے، وہی خدا ہے سفید اس کا، سیاہ اس کا، نفس نفس ہے گواہ اس کا جو شعلۂ جاں جلا رہا ہے، بجھا رہا ہے، وہی خدا ہے
مولوی صاحب ان حسین خیالوں سے لطف اندوز ہو رہے تھے کہ اسی دوران زید آ پہنچا اور اس ایتھیسٹ کا سوال عرض کیا۔ مولوی صاحب نے کہا:
اس کو میرے پاس بلا کر لاؤ۔
وہ سیکولر اسٹوڈنٹ مولوی صاحب کے پاس آیا۔ مولوی صاحب اس سے سوال دہرانے کو کہتے ہیں۔ اس نے وہی سوال دہرایا:
خدا ہے تو دکھاؤ!
مولوی صاحب مسکرائے اور بڑے نرم لہجے میں کہا:
تم نے یہ سوال کر کے یہ ثابت کر دیا کہ تمہارے اندر عقل نہیں ہے۔
وہ سیکولر اسٹوڈنٹ غصے سے آگ بگولا ہو گیا اور مولوی صاحب سے کہنے لگا:
یہ آپ کیا بات کر رہے ہیں؟ میرے اندر عقل کیسے نہیں ہے؟
مولوی صاحب اس سے بولے:
اگر تمہارے اندر عقل ہے تو دکھاؤ۔
وہ سیکولر اسٹوڈنٹ مولوی صاحب کا جواب سن کر لاجواب ہو گیا، اس کا غصہ ٹھنڈا پڑ گیا۔
پھر مولوی صاحب نے اس کو بٹھایا اور سمجھایا:
"کسی چیز کے وجود (موجود ہونے) کے لیے ہمارا اس چیز کو دیکھنا ضروری نہیں۔ دنیا میں بے شمار چیزیں موجود ہیں، مگر ہم انہیں نہیں دیکھ پاتے۔ ہزارہا چیزیں ہیں جن کو ہم نے نہیں دیکھا، مگر کسی اور نے انہیں دیکھا۔
کچھ چیزیں ایسی بھی ہیں، جن کو انہوں نے نہیں دیکھا، مگر ہم نے دیکھا ہے۔
لہٰذا کسی چیز کے موجود ہونے یا نہ ہونے کا دار و مدار ہمارے دیکھنے اور نہ دیکھنے پر نہیں۔ ورنہ ہر کوئی کسی نہ کسی ایسی چیز کا انکار کرنے لگے گا، جسے اس نے دیکھا نہیں۔
عقلمند کے لیے اتنی سی مثال کافی ہے کہ جیسے ہم میں سے کسی نے عقل کو نہیں دیکھا، مگر عقل کا وجود ہم سب مانتے ہیں۔ کیسے؟ عقل کی نشانیوں کے ذریعے، اس کی علامتوں کے ذریعے، عقل کے تصرفات کے ذریعے۔
کئی چیزیں ہیں جو ہمیں عقل کے موجود ہونے کا پتہ دیتی ہیں، جیسے کسی شخص کا کاموں میں تصرف کرنا، اشیاء کو خوبصورت بنانا، چیزوں کو مناسب انداز میں ترتیب دینا، مشورے لینا، فیصلے کرنا، اس کے اقوال سے، اس کے اعمال سے، اس کے کردار سے، اس کی حرکات و سکنات سے۔
ہمیں معلوم ہو جاتا ہے کہ اس بندے کے اندر عقل موجود ہے، حالانکہ ہم نے عقل کو دیکھا نہیں۔
اسی طرح جب ہم کسی شخص کو الٹی سیدھی حرکت کرتے دیکھتے ہیں، خلافِ عقل کام کرتا ہوا پاتے ہیں، تو سمجھ جاتے ہیں کہ یہ بندہ پاگل ہے، اس کے اندر عقل نہیں ہے۔
بالکل اسی طرح اللہ تعالیٰ کے وجود کا بھی علم حاصل ہوتا ہے۔ یہ سارا عالم، اس میں ہونے والے بڑے بڑے تصرفات، حیرت انگیز عجائبات، نظم و ضبط کے ساتھ چلنے والا ایک خوبصورت نظام، چرند پرند، پہاڑ، درخت، پودے، زمین و آسمان اور اتنی وسیع کائنات، یہ سب کھلے الفاظ میں اعلان کر رہے ہیں کہ کوئی تو ہے جو انہیں بنا رہا ہے۔
کوئی تو ہے جو نظامِ ہستی چلا رہا ہے۔ یہ سب چیزیں اللہ تعالیٰ کے وجود پر دلالت کرتی ہیں، اگرچہ ہم اللہ تعالیٰ کو نہ دیکھ سکیں۔
ایک پیغام آپ کے نام
یہاں پر دوستوں! میں آپ سب کو ایک پیغام دوں گا کہ ہم سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہیں، طرح طرح کی نامناسب ویڈیوز دیکھتے ہیں، سیکولرزم، ایتھیزم، غیر مسلموں، بے علم، فاسقوں، فاجروں کو سنتے ہیں اور ان کی صحبت میں رہتے ہیں۔ نتیجتاً بہت سارے خرافات، سوالات اور وسوسوں کو دل و دماغ میں جگہ دے دیتے ہیں، جس کی وجہ سے ہمارا دماغ گندا ہونا شروع ہو جاتا ہے، دل بے چین ہونے لگتا ہے۔
پھر ہم کسی عالم صاحب کے پاس جاتے ہیں اور اپنا سوال پیش کرتے ہیں اور اطمینان بخش جواب نہ ملنے پر دعویٰ کرنے لگتے ہیں کہ ہمارے اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے۔
اس بیوقوفانہ حرکت کو ایک بہت آسان مثال سے میں آپ کو سمجھانا چاہوں گا:
ایک شخص صبح اٹھتا ہے، نہاتا ہے، صاف ستھرے کپڑے پہنتا ہے، لیکن دن بھر میں اس کے کپڑے پر کچھ گرد و غبار لگ ہی جاتی ہے، اس کا بدن گندا ہو جاتا ہے۔
اس کا حل کیا ہے؟ دوبارہ نہا لے، صاف کپڑے پہن لے، گندے کپڑے کو دھو دے۔ یہ یقیناً عقل مند شخص ہے۔
لیکن وہ شخص جو کیچڑ کے پاس جائے اور خود کو کالا کر لے، پھر آ کر دعویٰ کرے کہ کوئی ماہر سائنسدان ہے جو میرے کپڑوں کو سفید کر کے دکھائے؟
تو ایسے شخص کو کیا آپ عقلمند کہیں گے؟ ہرگز نہیں!
میرے پیارے اسلامی بھائیوں! ایسے سوالوں کے جواب کے لیے عام عالم صاحب کے پاس نہیں، اسپیشل ماہر مفتی کے پاس جانا ہوگا۔
مگر ایسے مفتی صاحب کا ہر کسی کو مل جانا انتہائی مشکل ہے، تو بلا شبہ خیریت اسی میں ہے کہ ہم ان چیزوں سے دور رہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہماری زندگی بے سکونی، بے چینی میں گزر جائے، پھر ایک دن موت آ کر گلے لگا لے اور ہم اپنے سوالات اور وسوسوں کو لیے ہوئے قبر کے گڑھے میں جا گریں۔ بالآخر دنیا تو برباد ہوگی ہی، اور آخرت میں بھی ہلاکت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔