عنوان: | عہد صحابہ میں پائے جانے والے قوانین روایت |
---|---|
تحریر: | محمد سلیم رضا مدنی |
دینِ اسلام کو یہ امتیازی مقام حاصل ہے کہ اس دین کے بنیادی ماخذ و مصادر کی حفاظت کا جو اہتمام کیا گیا وہ کسی دوسرے مذہب میں نہیں۔
یہی وجہ ہے کہ ہر دور میں باطل قوتوں نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا ،مگر اسلام کے بنیادی قواعد و اصول اور اساسی عقائد و نظریات کو مشکوک نہ کر سکے۔چناں چہ خورشیدِ اسلام آج بھی اسی آب و تاب کے ساتھ چمکتا دمکتا نظر آتا ہے، جیسا کہ عہدِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں تھا۔
اسلام کے ماننے والوں نے جہاں قرآنِ مجید کو حرف بحرف بالتواتر امت تک پہنچایا، وہیں احادیثِ مبارکہ کی حفاظت کی خاطر بھی ایسے اصول و ضوابط متعین کیے جن کے ذریعے صحیح کو سقیم سے ممتاز کرنا انتہائی آسان ہوگیا۔سب سے پہلے جن ہستیوں نے حفاظتِ حدیث کی خاطر اصول و قواعد مرتب کیے وہ صحابۂ کرام کی ذواتِ قدسیہ ہیں۔ ذیل میں ہم عہدِ صحابہ میں پائے جانے والے چنداہم قوانینِ روایت ذکر کرتے ہیں۔
تقلیل الروایۃ عن رسول الله صلی الله علیه وسلم:
اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم احادیثِ نبویہ کی حفاظت کی خاطر نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث بہت کم روایت کرتے تھے، کیونکہ کثرتِ روایت کی بنیاد پر راویانِ حدیث سے بسا اوقات لاشعوری طور پر بھی خطا واقع ہوجاتی ہیں، اور وہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ کے شبہ میں واقع ہوجاتے ہیں۔
مزید برآں صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے درمیان احادیث کم بیان کرنے کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ لوگ قرآنِ مجید حفظ کرنے کے لیے فارغ رہیں اور کسی دوسری کسی شے میں مشغول نہ ہوں۔
خصوصاً شیخین کریمین رضی اللہ عنہما تو اس معاملے میں حد درجہ سختی کرتے تھے، اور دیگر صحابۂ کرام بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث روایت کرنے میں بہت محتاط تھے۔ حتیٰ کہ صحابۂ کرام کی جانب سے یہ حدیث مشہور و معروف ہوگئی اور ایک جماعت صحابہ نے اسے روایت کیا کہ «كَفَى بِالْمَرَأِ إثْمًا أَنْ يُحَدِّثَ بِكُلِّ مَا سَمِعَ» (النکت علی کتاب ابن الصلاح لابن حجر العسقلانی 1/ 13 طبع: عمادۃ البحث العلمی۔ مدینۃ المنورہ،ملتقطاً) آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات بیان کردے۔
اخذِ حدیث اور روایتِ حدیث میں احتیاط و تحقیق:
دوسرا اہم قانون جو صحابہ کے مابین مشہور و معروف تھا وہ یہ تھا کہ صحابہ کرام حدیث پاک کو کسی سے سننے اور اسے قبول کرنے میں احتیاط فرمایا کرتے تھے۔
سب سے پہلے جس ذات نے حدیث کو قبول کرنے اور اسے آگے بیان کرنےمیں احتیاط فرمائی وہ افضل البشر بعد الانبیا جناب ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں۔
امام ذہبی (ت748ھ) حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے ترجمے میں لکھتے ہیں:
كان أول من احتاط في قبول الأخبار فروى بن شهاب عن قبيصة بن ذويب أن الجدة جاءت إلى أبي بكر تلتمس أن تورث فقال: ما أجد لك في كتاب الله شيئا وما علمت أن رسول الله ذكر لك شيئا ثم سأل الناس فقام المغيرة فقال: حضرت رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم يعطيها السدس. فقال له: هل معك أحد؟ فشهد محمد بن مسلمة بمثل ذلك فأنفذه لها أبو بكر۔ (تذكرة الحفاظ 1/9 طبع: دارالكتب العلمية، بيروت-لبنان)
صدیق اکبر رضی اللہ عنہ وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے حدیثِ نبوی کو قبول کرنے میں احتیاط فرمائی۔ چنانچہ ابن شہاب قبیصہ بن ذؤیب سے روایت کرتے ہیں کہ امیر المومنین سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں ایک عورت آئی اور اس نے اپنے پوتے کی وراثت میں سے حصہ مانگا۔
وراثت میں دادی کے حصے کے متعلق نہ قرآن حکیم میں ذکر تھا اور نہ ہی اس بارے میں کوئی حدیث پاک حضرت صدیق اکبر نے سنی تھی۔ آپ نے لوگوں سے اس کے متعلق پوچھا تو حضرت مغیرہ بن شعبہ اٹھے اور عرض کیا کہ مجھے معلوم ہے کہ حضور نے دادی کو چھٹا حصہ دیا تھا۔
انہوں نے جب حدیث پیش کی تو آپ نے ان سے گواہ پیش کرنے کو کہا۔ حضرت محمد بن مسلمہ نے گواہی دی تو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اس کے لیے حکم نافذ فرمایا۔
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ترجمے میں روایتِ حدیث میں سختی کے حوالے سے لکھا ہے:
وهو الذي سن للمحدثين التثبت في النقل وربما كان يتوقف في خبر الواحد إذا ارتاب فروى الجريري عن أبي نضرة عن أبي سعيد أن أبا موسى سلم على عمر من وراء الباب ثلاث مرات فلم يؤذن له، فرجع فأرسل عمر في أثره فقال: لم رجعت قال: سمعت رسول الله ﷺ يقول: «إذا سلم أحدكم ثلاثا فلم يجب فليرجع» قال: لتأتيني على ذلك بينة أو لأفعلن بك فجاءنا أبو موسى ممتقعا لونه ونحن جلوس فقلنا: ما شأنك؟ فأخبرنا وقال: فهل سمع أحد منكم؟ فقلنا: نعم كلنا سمعه فأرسلوا معه رجلا منهم حتى أتى عمر فأخبره. أحب عمر أن يتأكد عنده خبر أبي موسى بقول صاحب آخر۔
یہی (حدیث قبول کرنے میں سختی)وہ طریقہ ہے جو محدثین کے ہاں رائج ہے کہ نقلِ روایت میں تثبت اختیار کرتے ہیں اور مقامِ شک میں خبرِ واحد میں توقف کرتے ہیں۔ مروی ہے کہ حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو باہر سے تین دفعہ سلام کیا لیکن جواب نہ ملا، آپ واپس لوٹ آئے۔
حضرت عمر نے انہیں بلوایا اور واپس جانے کی وجہ پوچھی۔ آپ نے کہا کہ حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: جو شخص تین دفعہ سلام کہے اور اسے صاحبِ خانہ اندر جانے کی اجازت نہ دے تو وہ واپس لوٹ جائے۔ حضرت عمر نے فرمایا: اس حدیث کی صحت پر گواہ پیش کرو، ورنہ میں تمہاری خبر لوں گا۔ وہ صحابۂ کرام کے پاس گئے تو پریشان تھے، چہرے کا رنگ بدلا ہوا تھا۔ وجہ پوچھی تو آپ نے سارا ماجرا کہہ سنایا۔
صحابۂ کرام میں سے چند نے گواہی دی کہ ہم نے بھی یہ حدیث سنی ہے۔ چناں چہ ایک صاحب نے حضرت عمر کے پاس آکر شہادت دی۔ بعض کتابوں میں یہ بھی اضافہ ہے کہ اس پر حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے ابوموسیٰ! میرا ارادہ تمہیں متہم کرنے کا نہیں تھا، لیکن میں نے اس خوف سے اتنی سختی کی کہ کہیں لوگ بے سروپا باتیں حضور کی طرف منسوب نہ کرنے لگیں۔
نقد روایت یعنی روایت کی چھان بین:
صحابۂ کرام کے سامنے جب کوئی روایت پیش کی جاتی تو وہ اسے دین کے ضروری قواعد اور نصوصِ شرعیہ پر پیش کرتے۔ پس اگر ان روایات کو نصوصِ شرعیہ اور قواعد کے مخالف پاتے تو رد کر دیتے اور ان پر عمل کرنا چھوڑ دیتے۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کی حدیث کو قرآن مجید کی آیت کی وجہ سے ترک کر دیا اور فرمایا:
« لَا نَتْرُكُ كِتَابَ اللهِ وَسُنَّةَ نَبِيِّنَا ﷺ لِقَوْلِ امْرَأَةٍ لَا نَدْرِي لَعَلَّهَا حَفِظَتْ، أَوْ نَسِيَتْ، لَهَا السُّكْنَى وَالنَّفَقَةُ قال اللہ تعالیٰ لَا تُخْرِجُوْهُنَّ مِنْۢ بُیُوْتِهِنَّ وَ لَا یَخْرُجْنَ اِلَّاۤ اَنْ یَّاْتِیْنَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَیِّنَةٍ» (صحیح مسلم 4/198 طبع: دار الطباعۃ العامرہ ترکیہ،)
ہم کسی ایسی عورت کی وجہ سے کتاب اللہ اور سنت رسول پر عمل کو ترک نہیں کر سکتے جس کے بارے میں ہم نہیں جانتے کہ اس نے جو سنا وہ یاد رکھا ہے یا بھلا دیا اللہ رب العزت کا فرمان ہے اپنے رب اللہ سے ڈرو عدت میں انھیں اُن کے گھروں سے نہ نکالو اور نہ وہ خود نکلیں جب تک کوئی صریح بے حیائی کی بات لائیں۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے قرآنِ مجید کی اس آیتِ کریمہ: «لَا تُخْرِجُوْهُنَّ مِنْۢ بُیُوْتِهِنَّ وَ لَا یَخْرُجْنَ اِلَّاۤ اَنْ یَّاْتِیْنَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَیِّنَةٍ» کی بنیاد پر اس حدیث کو ناقابلِ عمل قرار دیا۔
خلاصۂ کلام:
یہ وہ سنہرے اصول تھے جو عہدِ صحابہ میں پائے جاتے تھے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے افعال ضبطِ حدیث میں احتیاط کی بنیاد پر ہوتے تھے نہ کہ تہمت اور سوء ظن کی وجہ سے۔
جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں تم سے جو حدیث کے معاملے میں سختی کرتا ہوں یہ تمہیں متہم کرنے کے لیے نہیں کرتا، بلکہ میں یہ پسند کرتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث میں احتیاط برتوں اسی وجہ سے بعض صحابۂ کرام نے بعض ان احادیث کو، جو ان کے اجتہاد میں قرآن کے مخالف ہوتیں، رد کر دیا۔
جب صحابہ کرام جیسی عظیم ہستیاں حدیث پاک کے معاملے میں اتنی احتیاط سے کام لیتے تھے تو ہم پر بھی لازم ہو جاتا ہے کہ ہم حدیث پاک کو سننے اور دوسروں کو بیان کرنے میں حد درجہ احتیاط سے کام لیں۔ مالک لم یزل ہمیں بھی حدیث کے معاملے میں احتیاط کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ جد الحسن و الحسین۔
نوٹ: یہ مضمون ڈاکٹر علامہ نور الدین عتر علیہ الرحمہ کی کتاب ”منھج النقد في علوم الحدیث“ سے اردو ترجمہ، اصل کتب کے حوالہ جات اور تمہید و اختتامیہ کے اضافے کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔