عنوان: | اللہ کی خالقیت میں اس کا کوئی شریک نہیں |
---|---|
تحریر: | مولانا محمد حبیب اللہ بیگ ازہری |
مذکورہ بالا عقائد، عقیدۂ توحید کی اساس ہیں، اسی لیے اللہ وحدہ لاشریک نے قرآن مجید میں جابجا ان امہات عقائد کا مختلف طریقوں سے ذکر فرمایا، تاکہ بندے عقیدہ توحید پر مضبوطی سے قائم رہیں، اور اپنے رب کی خالقیت ومالکیت میں کسی کو شریک نہ کریں۔
اگر ہم مذکورہ بالا چاروں عقائد کو دلائل کے ساتھ ذکر کریں تو کم از کم آٹھ جملے درکار ہوں گے، اور اگر دلائل یا جملوں میں اختصار کریں تو تب بھی چار پانچ جملے بنیں گے، لیکن کلام الہٰی کا اعجاز دیکھیں کہ قرآن کریم نے مذکورہ بالا چاروں عقائد کو دلائل کے ساتھ صرف دو آیتوں میں ذکر کردیا۔
ارشاد باری ہے:
اَمْ خُلِقُوْا مِنْ غَیْرِ شَیْءٍ اَمْ هُمُ الْخٰلِقُوْنَ اَمْ خَلَقُوا السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ بَلْ لَّا یُوْقِنُوْنَ [الطور: 35-36]
ترجمہ: کیا وہ کسی لا شے سے بنے ہیں، یا وہ خود خالق ہیں، یا انھوں نے آسمان وزمین کو پیدا کیا ہے، بلکہ وہ یقین نہیں رکھتے۔
ان آیات میں أم منقطعہ ہے، اور بل کے معنی میں ہے، اس طرح کے مواقع پر سوال مقصود نہیں ہوتا، بلکہ الزام مقصود ہوتا ہے، جس کا جواب مخاطب کی طرف سے نفی میں ہوتا ہے، تو لازمی طور پر مدعا ثابت ہوجاتا ہے، لہٰذا ان آیات کا معنی مراد یہ ہوگا؛
اب آئیے دیکھتے ہیں کہ ان آیات بینات میں کس خوش اسلوبی کے ساتھ اللہ رب العزت کی خالقیت کا اثبات کیا گیا ہے، انداز بیان منطقی ہے، لیکن بڑا دلچسپ اور اطمینان بخش ہے۔
دعویٰ ہے کہ اللہ خالق ہے، اور سب اس کی مخلوق ہے۔ اس پر دلیل یہ ہے کہ اگر اللہ وحدہ لاشریک کو خالق کائنات نہ مانا جائے تو سوال ہوگا کہ:
تینوں شقیں باطل ہیں، لہذا مدعا ثابت کہ اللہ خالق ہے، اور سب اسی کی مخلوق ہے۔
اسی سے لازمی طور پر یہ بھی ثابت ہوگا کہ اللہ کی خالقیت میں اس کا کوئی شریک نہیں، اور کائنات کا کوئی ذرہ اللہ کے سوا کسی دوسرے کا پیدا کردہ نہیں۔
لیکن یہ تینوں شقیں کیسے باطل ہیں ملاحظہ فرمائیں:
(١)- کائنات کسی معدوم سے وجود میں نہیں آسکتی، کیوں کہ جو خود معدوم ہو وہ کسی بھی موجود کے وجود کا سبب نہیں بن سکتا، لہٰذا ماننا ہوگا کہ کائنات کو کسی واجب الوجود ذات نے وجود بخشا ہے، اور وہ ذات اللہ ہی کی ہے۔
اسی کو فرمایا: ” اَمْ خُلِقُوْا مِنْ غَیْرِ شَیْءٍ “ وہ کبھی کسی معدوم سے وجود میں نہیں آسکتے، بلکہ وہ جب بھی موجود ہوں گے واجب الوجود کی مدد ہی سے وجود میں آئیں گے۔
(٢)- کائنات، خالق نہیں ہوسکتی، کیوں کہ کائنات مخلوق ہے، اور کوئی بھی مخلوق خالق نہیں ہوسکتی، لہٰذا کائنات بھی خالق نہیں ہوسکتی، اور اگر کائنات کو خالق مان لیا جائے تو ایک ہی شے بیک وقت خالق ومخلوق ہوجائے گی، اس طرح اجتماع ضدین لازم آئے گا، جو کہ باطل ہے، لہٰذا تسلیم کرنا ہوگا کہ کائنات مخلوق ہے اور اس کا ایک خالق ہے جو سارے جہان کا رب ہے۔
اسی کو فرمایا: ”اَمْ هُمُ الْخٰلِقُوْنَ“ یہ خالق نہیں مخلوق ہیں، اور ان کا خالق اللہ ہے۔
(٣)- کائنات کا خالق اللہ کے سوا کوئی نہیں ہوسکتا، کیوں کہ اللہ کے سوا کسی نے کچھ بنایا ہی نہیں تو اس کے سوا کوئی خالق کہلانے کا حق دار بھی نہیں، اور اگر کسی کا گمان ہو کہ ماسوی اللہ کچھ ہے تو بتائے کہ آسمان بنایا یا زمین؟ اس کا جواب نفی وانکار کے سوا اور کچھ نہیں ہوسکتا، تو غیر اللہ کی خالقیت کا دعویٰ بے جا ہے۔
اسی کو فرمایا: ”اَمْ خَلَقُوا السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ“ انھوں نے کیا بنایا، آسمان بنایا یا زمین؟ جب کچھ نہیں بنایا تو دعوائے خالقیت لغو اور عبث ہوگا، اس طرح غیر اللہ کی خالقیت کی ساری شقیں باطل ہوں گی تو بجا طور پر مدعا ثابت ہوجائے گا کہ اللہ سب کا خالق ومالک اور سب اس کی مخلوق ومحتاج۔ ”سُبْحٰنَ اللّٰهِ عَمَّا یُشْرِكُوْنَ“
مضمون نگار جامعہ اشرفیہ مبارک پور کے استاذ اور متعدد کتابوں کے مصنف ہیں۔ {alertInfo}
شكراً جزيلاً
جواب دیںحذف کریںبے شک ہمارے رب کا کوئی شریک نہیں ۔
جواب دیںحذف کریںما شاء اللہ تعالیٰ