عنوان: | اللہ کی محبت مؤمن کی پہچان |
---|---|
تحریر: | سلمیٰ شاھین امجدی کردار فاطمی |
اللہ تعالیٰ سے محبت ایک مؤمن کی زندگی کا بنیادی جزو ہے، جو اس کے ایمان کی گہرائی اور اخلاص کی عکاسی کرتی ہے۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّتَّخِذُ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ اَنْدَادًا یُّحِبُّوْنَهُمْ كَحُبِّ اللّٰهِؕ-وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰهِؕ-وَ لَوْ یَرَى الَّذِیْنَ ظَلَمُوْۤا اِذْ یَرَوْنَ الْعَذَابَۙ-اَنَّ الْقُوَّةَ لِلّٰهِ جَمِیْعًاۙ-وَّ اَنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعَذَابِ (سورہ بقرہ: 165)
ترجمۂ کنز الایمان: اور کچھ لوگ اللہ کے سوا اور معبود بنالیتے ہیں کہ انہیں اللہ کی طرح محبوب رکھتے ہیں اور ایمان والوں کو اللہ کے برابر کسی کی محبت نہیں۔ اور کیسی ہو اگر دیکھیں ظالم وہ وقت جب کہ عذاب ان کی آنکھوں کے سامنے آئے گا اس لئے کہ سارا زور خدا کو ہے اور اس لیے کہ اللہ کا عذاب بہت سخت ہے۔
اس آیت سے واضح ہوتا ہے کہ ایمان والوں کی محبت کا محور اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔
اللہ سے محبت کیوں؟
اللہ تعالیٰ سے محبت کے کئی اسباب ہیں:
خالق اور مالک:
اللہ رب العزت ہی نے ہمیں پیدا کیا اور ہماری تمام ضروریات کو پورا کیا۔ وہی ہمارا حقیقی مالک ہے۔
نعمتوں کا عطا کرنے والا: ہماری زندگی کی ہر نعمت، چاہے وہ ظاہری ہو یا باطنی،
اللہ ربّ العزت قرآن میں فرماتا ہے:
وَّ الْخَیْلَ وَ الْبِغَالَ وَ الْحَمِیْرَ لِتَرْكَبُوْهَا وَ زِیْنَةًؕ-وَ یَخْلُقُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ (نحل:8)
ترجمۂ کنز الایمان: اور گھوڑے اور خچر اور گدھے کہ ان پر سوار ہو اور زینت کے لیے اور وہ پیدا کرے گا جس کی تمہیں خبر نہیں۔
رحمت اور مغفرت کا منبع:
اللہ رب العزت بے حد رحمٰن اور رحیم ہے۔ وہ توبہ کرنے والوں کو معاف کرتا ہے اور اپنی رحمت سے نوازتا ہے۔
اللہ سے محبت کیسے حاصل کی جائے؟
اللہ تعالیٰ سے محبت پیدا کرنے کے لیے چند عملی اقدامات یہ ہیں: اللہ رب العزت کی معرفت حاصل کرنا:
اللہ رب العزت کے اسماء و صفات کو سمجھنا اور ان پر غور کرنا۔
جتنا ہم اللہ رب العزت کی صفات کو جانیں گے، اتنی ہی محبت میں اضافہ ہوگا۔
قرآن کی تلاوت اور تفکر:
قرآن اللہ کا کلام ہے۔
اس کی تلاوت، سمجھ اور اس پر عمل سے اللہ سے قربت بڑھتی ہے۔
نوافل اور عبادات میں اضافہ:
فرض عبادات کے علاوہ نفل عبادات، جیسے تہجد، ذکر اور دعا، اللہ کی محبت کو دل میں مستحکم کرتی ہیں۔
اللہ کے احکام کی پیروی:
اللہ رب العزت کی محبت کا تقاضا ہے کہ ہم اس کے احکام کی پیروی کریں اور ممنوعات سے بچیں۔
اللہ کے لیے محبت اور بغض:
اللہ رب العزت کی خاطر دوسروں سے محبت کرنا اور اس کی خاطر ہی کسی چیز سے نفرت کرنا، ایمان کی مٹھاس کو بڑھاتا ہے۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّىٰ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ الثَّقَفِيُّ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "ثَلَاثٌ مَنْ كُنَّ فِيهِ وَجَدَ حَلَاوَةَ الْإِيمَانِ: أَنْ يَكُونَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِمَّا سِوَاهُمَا، وَأَنْ يُحِبَّ الْمَرْءَ لَا يُحِبُّهُ إِلَّا لِلَّهِ، وَأَنْ يَكْرَهَ أَنْ يَعُودَ فِي الْكُفْرِ كَمَا يَكْرَهُ أَنْ يُقْذَفَ فِي النَّارِ۔ (صحیح بخاری: کتاب الإيمان ،باب حلاوة الإيمان نمبر: 16)
ترجمہ: تین خصلتیں ایسی ہیں کہ جس میں یہ پیدا ہو جائیں، اس نے ایمان کی مٹھاس کو پا لیا: اول یہ کہ اللہ اور اس کا رسول اس کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب بن جائیں؛ دوسرے یہ کہ وہ کسی انسان سے محض اللہ کی رضا کے لیے محبت رکھے؛ تیسرے یہ کہ وہ کفر میں واپس لوٹنے کو ایسا برا جانے جیسا کہ آگ میں ڈالے جانے کو برا جانتا ہے۔
اللہ رب العزت سے محبت کا مطلب یہ ہے کہ اس کی رضا کو ہر چیز پر مقدم رکھا جائے، اس کی عبادت میں لذت محسوس کی جائے، اور اس کی نافرمانی سے دل میں خوف اور ناپسندیدگی ہو۔
یہ محبت ہی ہے جو مؤمن کو دنیا کی مشکلات میں ثابت قدم رکھتی ہے اور آخرت میں کامیابی کا ذریعہ بنتی ہے۔
بے شک
جواب دیںحذف کریںما شاء اللہ تعالیٰ
ہماری محبت ہمارے رب سے سب سے پہلے ہے ۔