✍️ رائٹرز کے لیے نایاب موقع! جن رائٹر کے 313 مضامین لباب ویب سائٹ پر شائع ہوں گے، ان کو سرٹیفکیٹ سے نوازا جائے گا، اور ان کے مضامین کے مجموعہ کو صراط پبلیکیشنز سے شائع بھی کیا جائے گا!

اور اللہ پاک نے توبہ کی توفیق بخشی

عنوان: اور اللہ پاک نے توبہ کی توفیق بخشی
تحریر: مفتی وسیم اکرم رضوی مصباحی، ٹٹلا گڑھ، اڈیشہ

یہ کوئی تین سال پرانی، 2022 کی بات ہوگی جب میں حیدرآباد کے جامعۃ المدینہ میں تدریس کر رہا تھا۔ عشا کی اذان ہو چکی تھی، میں تیسری منزل پر اساتذہ والے کمرے میں وضو کر رہا تھا کہ اچانک ہمارے جامعۃ المدینہ کے ایک ذمے دار کی کال آئی۔ انہوں نے کہا:

"حضرت! نیچے کمرے میں ذرا جلدی آئیں، ورنہ ہاتھا پائی کی نوبت آ جائے گی!"

میں نے پوچھا: "مسئلہ کیا ہے؟"

تو بتایا کہ "ایک مولانا صاحب، جو امامت کورس کے لیے آئے ہوئے ہیں، اور دوسرے جو امامت کورس کے معلم ہیں، ان کے درمیان حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے متعلق کچھ باتیں ہوئیں، جو بہت آگے بڑھ گئی ہیں۔ اس کے علاوہ، وہ اشرف علی تھانوی سے متعلق بھی کچھ عجیب و غریب باتیں کر رہے ہیں۔"

میں نے اپنے ایک شاگرد کو ساتھ لیا اور نیچے امام صاحب کے حجرے کے بغل والے کمرے میں داخل ہوا۔ دیکھا تو وہ مولانا غصے میں لال پیلے ہو رہے تھے اور تخت پر بڑے تن کر بیٹھے تھے۔ ان کی سانس تیز چل رہی تھی۔ میں ان کے سامنے والے تخت پر بیٹھا اور پوچھا:

"کیا مسئلہ ہے؟"

وہ کچھ دیر خاموش رہے، پھر میں نے دوبارہ پوچھا: "بتائیں، مسئلہ کیا ہے؟"

تب وہ بولے: "امیر معاویہ نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے متعلق یوں کیا تھا، تو یوں کیا تھا..." وغیرہ وغیرہ۔ وہی عام اعتراضات، جو روافض کیا کرتے ہیں۔

میں نے پوچھا: "اور کچھ؟"

انہوں نے ذرا سوچا اور کہا: "فلاں کتاب میں یہ بھی ہے، تو وہ بھی ہے۔"

میں نے پھر پوچھا: "اور کچھ؟"

اب وہ خاموش ہو گئے اور کہنے لگے: "بس!"

میں نے کہا: "چلیں، میں مزید آپ کی تائید میں بتاتا ہوں کہ تاریخ کی کتابوں میں یہ بھی لکھا ہے، یہ بھی لکھا ہے اور مزید یہ بھی مذکور ہے۔"

وہ کہنے لگے: "نہیں، یہ میں نے نہیں پڑھا!"

میں نے کہا: "آپ ان سب کو بھی اپنے اعتراضات میں شامل کر لیں۔"

پھر میں نے ان سے سوال کیا:

"اچھا یہ بتائیں کہ اگر کوئی شخص وضو کرے اور وضو سے پہلے بسم اللہ شریف نہ پڑھے، تو کیا اس کا وضو ہو گا یا نہیں؟"

وہ حیرت سے مجھے دیکھنے لگے کہ "یہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے متعلق گفتگو چل رہی تھی اور اب وضو کا مسئلہ کہاں سے آ گیا؟"

خیر، انہوں نے جواب دیا: "ہو جائے گا، کیونکہ وضو سے پہلے بسم اللہ پڑھنا سنت ہے، فرض نہیں۔"

میں نے کہا: "کیوں ہو جائے گا؟ حالانکہ صحیح حدیث موجود ہے:

لَا وُضُوءَ لِمَنْ لَمْ يَذْكُرِ اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهِ۔ (سنن ابی داود، حدیث: 101)

ترجمہ: جس نے وضو سے پہلے بسم اللہ نہ پڑھی، اس کا وضو ہی نہیں ہوتا۔

پھر میں نے دوسرا سوال کیا:

"اچھا یہ بتائیں کہ اگر کوئی شخص نماز میں سورۂ فاتحہ نہ پڑھے، بلکہ کوئی اور سورت پڑھ لے، تو کیا اس کی نماز ہو جائے گی؟"

انہوں نے جواب دیا: "نماز ہو جائے گی، البتہ ترکِ واجب کی وجہ سے مکروہ ہوگی۔"

میں نے کہا: "نماز کیسے ہو جائے گی؟ حالانکہ صحیح سند سے حدیث موجود ہے:

لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ (البخاری: 756)

ترجمہ: جس نے سورۂ فاتحہ نہ پڑھی، اس کی نماز ہی نہیں ہوتی۔

اس پر وہ خاموش ہو گئے۔

پھر میں نے کہا: "اس کا جواب آپ یہی دیتے ہیں کہ کتاب اللہ میں وضو سے متعلق آیت مطلق ہے:"

يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا قُمْتُمْ اِلَى الصَّلٰوةِ فَاغْسِلُوْا وُجُوْهَكُمْ وَ اَيْدِيَكُمْ اِلَى الْمَرَافِقِ وَ امْسَحُوْا بِرُءُوْسِكُمْ وَ اَرْجُلَكُمْ اِلَى الْكَعْبَيْنِ (المائدہ: 6)

(اے ایمان والو جب نماز کو کھڑے ہونا چاہو تو اپنے منہ دھوؤ اور کہنیوں تک ہاتھ اور سروں کا مسح کرو اور گٹوں تک پاؤ ں دھوؤ)

اسی طرح، قراءت سے متعلق آیت بھی مطلق ہے:

فَاقْرَءُوْا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْاٰنِ (المزمل:20)

ترجمہ کنز الایمان: اب قرآن میں سے جتنا تم پر آسان ہو اتنا پڑھو۔

ہم اصولِ فقہ میں پڑھ چکے ہیں کہ کتاب اللہ کے مطلق کو اس کے اطلاق پر باقی رکھا جائے گا۔ اگر اس کے مقابل میں خبر واحد آ جائے، تو تطبیق ممکن ہو تو دی جائے گی، ورنہ کتاب اللہ پر عمل کیا جائے گا اور خبر واحد کو چھوڑ دیا جائے گا۔"

پھر میں نے کہا: "اب سنیں، اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں صحابہ کرام سے متعلق ارشاد فرماتا ہے:

لَا يَسْتَوِيْ مِنْكُمْ مَّنْ اَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَ قٰتَلَؕ-اُولٰٓىٕكَ اَعْظَمُ دَرَجَةً مِّنَ الَّذِيْنَ اَنْفَقُوْا مِنْۢ بَعْدُ وَ قٰتَلُوْاؕ-وَ كُلًّا وَّعَدَ اللّٰهُ الْحُسْنٰىؕ (سورۃ الحدید، 57:10)

ترجمہ کنز الایمان: تم میں برابر نہیں وہ جو فتح مکہ سے قبل خرچ اور جہاد کر چکے، وہ مرتبہ میں اُن سے بڑے ہیں جو بعد فتح کے خرچ اور جہاد کر چکے، اور اللہ نے سب سے بھلائی کا وعدہ فرما لیا ہے۔

اللہ تعالیٰ جن کے لیے "حسنٰی" (بھلائی) کا وعدہ فرمائے، ان کی شان قرآن خود بیان کرتا ہے:

اِنَّ الَّذِيْنَ سَبَقَتْ لَهُمْ مِّنَّا الْحُسْنٰۤىۙ-اُولٰٓىٕكَ عَنْهَا مُبْعَدُوْنَۙ لَا یَسْمَعُوْنَ حَسِیْسَهَاۚ-وَ هُمْ فِیْ مَا اشْتَهَتْ اَنْفُسُهُمْ خٰلِدُوْنَۚ (الأنبیاء: 101/102)

ترجمہ کنز الایمان: بیشک وہ جن کے لیے ہمارا وعدہ بھلائی کا ہوچکا وہ جہنم سے دُور رکھے گئے ہیں۔وہ اس کی بھنک نہ سنیں گے اور وہ اپنی من مانتی خواہشوں میں ہمیشہ رہیں گے۔

"اب آپ غور کریں! جب ہم صحیح حدیث کے مقابل بھی قرآن کو نہیں چھوڑتے، تو بھلا یہ چنو منو تاریخی واقعات کے مقابل قرآن کو کیسے چھوڑ سکتے ہیں؟"

میرا اتنا کہنا تھا کہ وہ بالکل خاموش ہو گئے۔ میں نے پھر پوچھا: ’’اس پر اور کوئی اعتراض؟‘‘ اس پر انہوں نے ایک اور واقعہ بتایا، جس پر میں نے پوچھا: ’’یہ کہاں ہے؟‘‘ کہنے لگے: ’’وہی تاریخی واقعہ۔‘‘ میں نے پھر پوچھا: ’’اب کوئی اعتراض؟‘‘ اب وہ بالکل مطمئن ہو چکے تھے، کہنے لگے: ’’اب کچھ بچا ہی نہیں۔‘‘ میری تمام گفتگو سے وہ کافی مطمئن لگ رہے تھے اور شرمندہ بھی۔

پھر میں نے پوچھا: ’’اشرف علی کا کیا مسئلہ ہے؟‘‘

جناب نے اس کی تکفیر سے متعلق اپنے شکوک کا اظہار کیا۔ میں نے اس کی کفریہ عبارت زبانی سنائی (نقلِ کفر، کفر نہ باشد)۔ جب سنانے لگا تو اس گندی اور گھناؤنی عبارت پر میری آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے (یہ گستاخی والی عبارت یہاں میں نقل نہیں کر رہا)۔ پھر میں نے انہیں مزید سمجھانے کے لیے سوال کیا:

’’اگر میں آپ سے پوچھوں کہ آپ کے والد کیا کرتے ہیں؟‘‘ جناب نے جواب دیا: ’’فلاں کام کرتے ہیں۔‘‘ اس پر میں نے کہا: ’’فلاں کام کرنے میں آپ کے والد کی کیا تخصیص؟ ایسا کام تو ایک چمار بھی کر لیتا ہے۔‘‘ پھر میں نے پوچھا: ’’آپ کے والد صاحب کے کام پر میرا یہ تبصرہ کرنا آپ کو اچھا لگا؟‘‘ انہوں نے کہا: ’’نہیں۔‘‘

میں نے کہا: ’’اس سے بھی کہیں زیادہ گھٹیا تبصرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صفتِ علم سے متعلق اشرف علی نے کیا! جب ایک حلالی بیٹا اپنے والد پر ایسا تبصرہ برداشت نہیں کر سکتا، تو ایک غیرت مند امتی کیسے سن سکتا ہے؟‘‘

میری آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ میں نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا:

’’کیا ہم اسی دن کے لیے زندہ ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں اس طرح کی گستاخیاں ہمارے کانوں میں آئیں؟‘‘

اب وہ بھی رونے لگے، اور پھر ان کی ہچکیاں بندھ گئیں۔ وہ زار و قطار روتے رہے۔ دل تو پہلے ہی تائب ہو چکا تھا۔ اسی کیفیت میں انہوں نے مجھ سے کہا:

’’توبہ کرا دیں۔‘‘

اللہ پاک کی رحمت سے انہیں توبہ کی توفیق ملی۔ اسی مجلس میں روتے ہوئے انہوں نے اپنے گھر پر کال کی اور اپنی اہلیہ سے کہا کہ وہ اپنے نکاح کے لیے راقم الحروف کو وکیل بنائیں۔ میں وکیل بنا، اور پھر ان کا تجدیدِ نکاح کیا۔

یقیناً یہ بہت بڑی سعادت کی بات ہے جو انہیں نصیب ہوئی۔ اللہ تعالیٰ انہیں استقامت عطا فرمائے۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کے ایمان کی حفاظت فرمائے، بے ادبی سے بچائے، اور بے ادبوں و گستاخوں سے محفوظ رکھے۔

اللہ کرے کہ ہماری نسل در نسل میں کوئی گستاخ و بدمذہب نہ ہو۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم۔

1 تبصرے

  1. ما شاء اللہ تعالیٰ
    کیفیت عجیب ہو گئی
    رب کریم مذید برکتیں عطا فرمائے آمین

    جواب دیںحذف کریں
جدید تر اس سے پرانی
WhatsApp Profile
لباب-مستند مضامین و مقالات Online
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مرحبا، خوش آمدید!
اپنے مضامین بھیجیں