عنوان: | اور مدینہ سے بلاوا آگیا |
---|---|
تحریر: | ابو تراب سرفراز احمد عطاری مصباحی |
امی، مجھے ڈر لگ رہا ہے کہ کہیں مجھے میری جاب سے ہی برخاست نہ کر دیا جائے۔
بیٹا، اتنا پریشان کیوں ہو؟ گھبراؤ نہیں، اللہ سب بہتر کرے گا۔
جی، امی، بالکل۔ میں نے اسی لیے آپ سے دعا کے لیے کال کی ہے تاکہ آپ دعا کر دیں اور یہ مسئلہ حل ہو جائے۔
وہ بھرائی ہوئی آواز میں امی سے بات کر رہا تھا۔ اس کی آواز گلے میں پھنسی جا رہی تھی۔
یہ ایک ملازم (فرضی نام: سعدی) کی گفتگو تھی جو وہ اپنی والدہ سے کر رہا تھا اور وہ ایک پریشان کن مسئلے میں اپنی والدہ سے دعائیں لینے کی کوشش کر رہا تھا۔ شاید اس نے کہیں سن رکھا تھا کہ ماں کی دعا قبول ہوتی ہے اور ماں کی دعا گویا کہ جنت کی ہوا ہوتی ہے۔
مسئلہ کچھ یوں تھا کہ وہ ایک کمپنی میں ملازم تھا۔ اس نے دیگر ملازمین سے کہا کہ میرے پاس کچھ رقم ہے، جس کے ذریعے میں چاہتا ہوں کہ کوئی مدینہ پاک جائے۔ ہم اپنے تمام ملازمین کے درمیان قرعہ اندازی کر لیتے ہیں، جس کا نام بھی قرعہ اندازی میں آئے گا، اس کو مدینہ پاک کا ٹکٹ دے دیا جائے گا۔
یہ سب طے تو ہو گیا اور قرعہ اندازی کی محفل کا بھی اہتمام کر لیا گیا، لیکن مسئلہ یہ تھا کہ کمپنی کے مالک سے اس بات کا کوئی تذکرہ نہ ہوا۔ قرعہ اندازی کی رات ہی کو مالک کو پتہ چلا کہ آج ہماری کمپنی کے ملازمین نے کچھ اس طرح کا طے کیا ہے۔ وہ کچھ ناراض ہو گئے اور دل برداشتہ ہو گئے کہ انہوں نے مجھ سے اجازت کیوں نہیں لی۔ اگر وہ مجھ سے اجازت لیتے تو میں انہیں منع تھوڑی کرتا۔
سعدی بہت پریشان تھا، سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ کیا کرے، کیسے اپنے مالک کو راضی کرے اور سعدی کی واقعی یہ غلطی بھی تھی کہ بے اجازت و اطلاع یہ سب طے کیا، کم از کم انہیں خبر تو کر دینا چاہیے تھا۔ لیکن اب قرعہ اندازی کی محفل بھی قریب تھی اور وقت بھی نہیں بچا تھا۔
سعدی اپنے مالک کے پاس گیا اور ان سے کہا کہ آج محفل ہے، قرعہ اندازی کرنا ہے، آپ نے ضرور شرکت کرنا ہے۔ لیکن اس بات پر کمپنی کے مالک نے بہت زیادہ ناراضگی کا اظہار کیا، حتیٰ کہ انہوں نے کچھ جواب بھی نہ دیا۔
سعدی کو ڈر یہ تھا کہ کہیں کمپنی کا مالک اس بے اجازت والے کام کی وجہ سے اسے برخاست نہ کر دے، اسی وجہ سے اس نے اپنی والدہ کو کال لگا کر کہا تھا: امی، میرے لیے دعا کریں تاکہ قرعہ اندازی کی محفل بھی بہتر انداز سے ہو جائے اور جس کی قسمت میں مدینہ لکھا ہو وہ بھی با آسانی مدینہ پاک جا سکے۔
سعدی کی والدہ نے سعدی کو تسلی دی کہ آپ پریشان نہ ہوں، میں دعا کروں گی، اللہ بہتر ہی کرے گا۔ اللہ جو کرتا ہے، بہتر ہی کرتا ہے۔
والدہ کی اس ڈھارس والی بات پر سعدی کافی مطمئن ہوا اور محفل مدینہ کی تیاری کرنے لگا۔ بالاخر عشاء کی نماز کے بعد محفل کا آغاز ہو گیا۔
محفل کے آغاز ہی میں، دیگر کچھ ملازمین محفل سے اٹھ کر چلے گئے، شاید ان کو بھی یہی ڈر تھا کہ کہیں مالک انہیں بھی جاب سے برخاست نہ کر دے۔
نعت خواں اسلامی بھائی نے سعدی کی طرف دیکھا اور سعدی کے اشارے کے انتظار کرنے لگا کہ نعت خوانی شروع کرے یا نہ کرے، محفل کا آغاز کرے یا نہ کرے۔
سعدی کو اپنی والدہ کی دعا یاد آئی اور اس نے ہمت کرتے ہوئے نعت خواں اسلامی بھائی سے کہا کہ اللہ کا نام لو اور شروع کرو، اللہ سب بہتر ہی کرے گا۔
نعت خوانی شروع ہوئی اور عاشقان مدینہ یاد مدینہ میں رونے لگے، گڑگڑانے لگے۔ اور فریاد و استغاثے پیش کرنے لگے:
"یا رسول اللہ علیک الصلاۃ و السلام، ہم غم کے مارے ہیں، نفس و شیطاں کے ستائے ہوئے ہیں، ہر کسی کی فریاد رسی آپ ہی تو کرتے ہیں، گر تم نے سنوگے تو ہماری کون سنے گا، یا رسول اللہ سن لو خدا کے واسطے اپنے گدا کی عرض، یا رسول اللہ بخش دے گا ہر خطا ہماری خدا، آپ بس لب کشائی فرمادیں۔
اے چاند کو توڑ کر جوڑنے والے آقا ہم بھی ٹوٹی ہوئی تقدیر لیے بیٹھے ہیں
آقا نظر کرم فرمائیں نا:
نگاہ لطف کے امید وار ہم بھی ہیں لیے ہوئے تو دل بے قرار ہم بھی ہیں ہمارے دست تمنا کی لاج بھی رکھنا ترے فقیروں میں اے شہر یار ہم بھی ہیں
آقا بلائیے نا، بگڑی بنائیے نا، آقا آپ کو ہر چیز کے لیے رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے، اور ہم تو آپ کے امتی ہیں، اپنی رحمت کی طرف دیکھیں حضور، جانتے ہیں جیسے ہیں بدکار ہم، سرکار ہم کمیںوں کے اطوار پر نہ جائیں، آقا حضور اپنے کرم پر نظر کریں۔"
اسی طرح فریادوں کا ایک حسین سلسلہ جاری تھا کہ کچھ دیر کے بعد، قرعہ اندازی کا سلسلہ شروع ہوا اور تمام حاضرین کے نام اس قرعہ اندازی میں شامل تھے۔ پہلے 11 پرچیاں اٹھائی گئی۔ قرعہ اندازی کرنے والے اسلامی بھائی نے کہا کہ ان 11 میں سے کسی ایک کو مدینہ پاک جانا ہے۔
سعدی بھی بارگاہ رسالت میں استغاثے میں مشغول تھا اور عرضی بھی لگا رہا تھا کہ یا رسول اللہ، مجھے بھی مدینہ پاک بلا لیں، مجھے بھی مدینہ پاک آنے کی بڑی آرزو ہے۔ دوسری طرف، اس کو ذہن میں یہ بھی خیال تھا کہ میرے کمپنی کا مالک مجھے جاب سے برخاست نہ کر دے۔ یہ بھی وہ عرضی لگا رہا تھا کہ یا رسول اللہ، کرم ہو جائے کہ مجھے میری جاب سے برخاست بھی نہ کیا جائے۔
کچھ دیر بعد، ان 11 پرچیوں میں سے تین پرچیاں نکالی گئیں، اور اعلان کیا گیا کہ ان تین پرچیوں میں جن کا نام ہے، ان میں سے ایک خوش نصیب ہے، جس کو مدینہ پاک جانا ہے۔
قرعہ اندازی کا آخری مرحلہ شروع ہوا اور اس میں آخری پرچی اٹھائی گئی۔ جب اس پرچی میں جس کا نام لکھا تھا، اس نام کا اعلان کیا گیا تو تمام ملازمین حیران رہ گئے کہ یہ نام کسی اور کا نہیں تھا، بلکہ کمپنی کے مالک کا ہی نام تھا، یعنی کہ مدینہ پاک کی حاضری کے لیے کمپنی کے مالک کو سلیکٹ کر لیا گیا تھا۔
سعدی حیران تھا کہ کیا زبردست قرعہ اندازی کا نتیجہ سامنے آیا ہے کہ مالک ہی کا نام آگیا۔ کمپنی کے مالک نے اس محفل میں شرکت بھی نہیں کی تھی، وہ اپنے دفتر میں بیٹھے ہوئے تھے۔ ملازمین نے جیسے ہی مالک کا نام سنا، تو فوراً دفتر کی طرف دوڑے اور مالک کو خوشخبری سنائی کہ مالک! آپ کا تو مدینہ پاک کے لیے بلاوا آیا ہے، چلیں جلدی چلیں، محفل میں چلیں۔
کمپنی کے مالک نے جیسے سنا وہ کچھ دیر کے لیے سکتے میں پڑ گئے اور حیران ہو گیے اور سوچنے لگے کہ کیا میرا بھی بلاوا آ سکتا ہے؟ میں تو اس محفل کے حق میں ہی نہیں تھا کیونکہ یہ محفل میری اجازت کے بغیر ہو رہی تھی۔ کیا میں اس لائق ہوں کہ مجھے بھی مدینہ پاک بلایا جائے؟
ان کی آنکھیں نم ہوگئیں بلکہ چھلک کر آنسو رخسار کی طرف بڑھ کر سوغات مدینہ پیش کرنے لگے۔
سعدی سمیت تمام ملازمین نے اللہ کا شکر ادا کیا اور سب نے گویا اس طرح کہا کہ بارگاہ رسالت سے کیا خوب فیصلہ ہوا ہے کہ ہم میں سے کسی کو ہماری جاب سے ہٹایا بھی نہیں جائے گا اور یوں ہمارے کمپنی کے مالک کو بھی مدینہ پاک بلالیا جائے گا۔
کمپنی کے مالک محفل میں آئے۔ ان سے سوال کیا گیا کہ آپ اس وقت کیسا محسوس کر رہے ہیں؟ تو انہوں نے کہا: میں اس کرم کے کہاں تھا قابل، حضور کی بندہ پروری ہے۔
اور کہنے لگے: میں بڑے بڑے فنکشنز میں گھنٹے گھنٹے لیکچر دیتا ہوں، لیکن آج میرے پاس بولنے کے لیے ایک لفظ نہیں ہے۔ بس اب دعا کریں کہ سرکار علیہ الصلوۃ والسلام نے مجھے یہ مزدہ سنایا ہے، میں با ادب ان کی بارگاہ میں حاضر ہونے میں کامیاب ہو جاؤں اور اپنی بخشش اور اپنی شفاعت کروا سکوں۔ یہ کہتے کہتے ان کی ہچکیاں بندھ گئیں۔
ایک عجیب سا سماں بندھ گیا، آنکھیں نم ہیں، چہرے آنسو سے بھیگے ہوئے، کوئی زائر مدینہ کے بوسے لے رہا ہے، کوئی پھولوں کے ہار پیش کررہا ہے، اور شوق مدینہ میں زائر مدینہ کو حسرت سے تکتے ہوئے سب اپنے مالک سے کہہ رہے تھے کہ آپ کو سرکار علی الصلوۃ والسلام کی بارگاہ سے بلاوا ملا ہے، اب آپ ہم کو مت بھولیے گا، ہمارے لیے دعا کیجئے گا کہ کاش سرکار ہمیں کبھی جلدی بلائیں، ہم بھی اس در پاک کو دیکھیں، ہم بھی وہاں جا کر اپنی فریاد سنائیں، ہم بھی اپنے غم کا مداوا کر سکیں۔
صبح ہوتے ہی سعدی نے اپنی والدہ کو فون کیا اور کہا:
امی، اللہ پاک نے آپ کی دعا کو قبول کر لیا ہے اور ہمارا مسئلہ بھی حل ہو گیا ہے اور بہت بہترین انداز میں مسئلہ حل ہوا ہے کہ ہماری کمپنی کے مالک کو ہی مدینہ پاک کا بلاوا مل گیا ہے۔ امی، بس اب یہ دعا کر دیں کہ ہمیں بھی مدینہ پاک کی حاضری کا مزدہ مل جائے۔
قارئین، سعدی کی والدہ کا اثر بھی کچھ اس طرح ظاہر ہوا کہ کچھ عرصے کے بعد سعدی اور اس کے دیگر ساتھی ملازمین کو بھی مدینہ پاک کی حاضری کا مژدہ مل گیا۔ ان کا کرم پھر ان کا کرم ہے، ان کے کرم کی بات نہ پوچھو۔
مضمون نگار کئی کتابوں کے مصنف اورجامعۃ المدینہ فیضان مخدوم لاہوری، موڈاسا کے استاذ ہیں۔ {alertInfo}
ما شاء اللہ تعالیٰ
جواب دیںحذف کریںبہت خوب صورت
کیفیت تو بیان سے باہر ہے
رب کریم جزائے خیر عطا فرمائے
ہر طلبگار کو در حبیب صلی اللہ علیہ وسلم ،رشکِ بہارِ جنّت کی با ادب حاضری نصیب فرمائے آمین