عنوان: | بوڑھوں کی تنہائی اور عالم دین کی سعادت |
---|---|
تحریر: | مفتی وسیم اکرم رضوی مصباحی، ٹٹلا گڑھ، اڈیشہ |
میں نے پچھلے دنوں ایک تحریر پڑھی تھی جس کا خلاصہ کچھ یوں تھا کہ ایک ایسا بوڑھا شخص، جسے اس کی اولاد نے تنہا چھوڑ دیا تھا۔
وہ بوڑھا شخص ہر روز اخبار خریدتا تھا حالانکہ وہ پڑھتا نہیں تھا، صرف اس لیے کہ اس بہانے کم از کم اخبار لانے والے کی آواز سن لے اور اس کے ذریعے اسے کچھ انسیت ہو جائے۔ یوں تنہائی کی وحشتوں کی تلخی کچھ تو کم ہو جائے۔
آج میں غور کر رہا تھا کہ اس زمانے میں اکثر بوڑھے تنہائی کی تلخیاں جھیل رہے ہیں، چاہے ان کا تعلق اپنی جوانی میں کسی بھی شعبے سے کیوں نہ رہا ہو۔
ان بوڑھوں پر توجہ دینے کی حاجت ہے اور ان کی دلجوئی کرنا ضروری ہے۔ لیکن ایک باعمل عالمِ دین ایسا ہوتا ہے کہ جب وہ بوڑھا ہو جاتا ہے تو لوگوں کا ہجوم اس کی طرف پہلے سے زیادہ متوجہ ہوتا ہے۔
اسے تنہائی کی وحشتوں کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ یہ اللہ پاک کی طرف سے ایک عالمِ دین پر خاص عنایت ہے۔