✍️ رائٹرز کے لیے نایاب موقع! جن رائٹر کے 313 مضامین لباب ویب سائٹ پر شائع ہوں گے، ان کو سرٹیفکیٹ سے نوازا جائے گا، اور ان کے مضامین کے مجموعہ کو صراط پبلیکیشنز سے شائع بھی کیا جائے گا!

دلائل کی کثرت کمال اعلیٰ حضرت

AlaHazrat Image By Behance.net
عنوان: دلائل کی کثرت کمال اعلیٰ حضرت
تحریر: مفتی بلال رضا عطاری کانپور

مجدد اعظم اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ پر اللہ تعالیٰ کا فضلِ عظیم تھا کہ آپ کو فقہی جزئیات پر ایسی مہارت عطا ہوئی جس پر آج بھی عقلیں حیران ہیں۔

آپ نے جس موضوع پر قلم اٹھایا اس پر ایسے دریا بہائے گویا عمر بھر اسی علم پر کتب بینی فرمائی ہو، جس مسئلے کی تحقیق فرماتے تو کچھ اس طرح جزئیات کے انبار لگا دیتے کہ وقت کی کمی قلم روک دیتی مگر جزئیات ختم نہ ہوتے، وہ مسائل جن پر اب تک علماء کوئی فیصلہ نہ کر سکے تھے کسی نے سکوت کیا تو کسی نے ”لا اَعْلَم“ (نہیں معلوم) کہا، مگر اس فقیہ فقید المثال نے ان مسائل کو بھی حل فرما دیا۔

یہ سب محض ہوا میں تیر چلانا نہیں بلکہ اس پر آپ کی اسم با مسمی تصنیف ”العطايا النبوية في الفتاوي الرضوية“ منہ بولتا ثبوت ہے۔

فتاویٰ رضویہ میں آپ نے جو تبحر علمی کا مظاہرہ فرمایا اس کو بیان کرنے کے لئے تو دفتر درکار، یہاں ان میں سے صرف دلائل کی کثرت پر کچھ جھلکیاں ملاحظہ فرمائیں:

ایک مرتبہ آپ کی بارگاہ میں سوال ہوا کہ نماز جنازہ دوبارہ پڑھنی جائز ہے یا نہیں؟

اس پر آپ نے اعادہ کے عدم جواز پر تقریباً 57 صفحات کا رسالہ ”النھي الحاجز عن تكرار صلاة الجنائز“ تحریر فرمایا جس میں تقریباً 50 کتابوں سے متن و شروحات اور فتاویٰ کی تقریباً 200 عبارات پیش کیں اور نماز جنازہ کی تکرار کے ناجائز و گناہ ہونے پر مذہب حنفی کا اجماع ثابت کیا۔

اسی طرح سجدہ تعظیمی کے بارے میں سوال ہوا کہ یہ جائز ہے یا نہیں؟

آپ رحمۃ اللہ علیہ نے جواب میں فرمایا: لوگ تو رنگ رنگ کی چہل (40) حدیث لکھتے ہیں فقیر سجدۂ تعظیم حرام ہونے پر چہل حدیث لکھتا ہے۔

پھر اس پر آپ نے 146 صفحات کا رسالہ ”الزبدۃ الزکیة لتحریم سجود التحية“ تحریر فرمایا جس میں سجدہ تعظیمی کے حرام ہونے پر 40 احادیث 150 کتابوں اور 200 نصوص سے ثابت کیا کہ سجدۂ تعظیمی حرام ہے۔

اُس وقت کے علماے کرام بھی کثرت دلائل کی پیاس اِس بحر ناپیدا کنار کی بارگاہ میں آکر ہی بجھایا کرتے۔

ایک مرتبہ حاجی امداد اللہ صاحب مہاجر مکی رحمۃ الله علیہ کے خلیفۂ مولانا کرامت اللہ خان صاحب نے آپ کی بارگاہ سے فتویٰ طلب کیا کہ زید کہتا ہے حضور ﷺ کو دافع البلاء کہنا شرک ہے:

تو اس پر مخزن علم و حکمت اعلی حضرت رحمۃ الله علیہ نے 154 صفحات پر مشتمل رسالہ ”الأمن والعلی لناعتي المصطفی بدافع البلاء“ تحریر فرما کر 60 قرآنی آیات اور 300 احادیث سے ثابت کیا کہ ہمارے آقا سید الانبیاء ﷺ اللہ پاک کی عطا سے بلاؤں کو دور فرمانے والے، امت کی پریشانی دور کرنے اور مدد کرنے والے ہیں۔ الحمد للہ

آپ کی بارگاہ میں مسئلہ پیش ہوا کہ مُردوں کا سننا سمجھنا حق ہے یا نہیں؟

اس پر آپ نے عقلوں کو حیران کرتے ہوئے 208 صفحات پر مشتمل رسالہ ”حیات الموات في بیان سماع الأموات“ تحریر فرمایا اور علم کے دریا بہاتے ہوئے دلائل کے انبار لگا دیے، 75 حدیثوں اور 375 اقوال ائمۂ دین و علماء کاملین و خود بزرگانِ دینِ منکرین سے ثابت کیا کہ مردوں کا سننا دیکھنا سمجھنا قطعاً حق ہے۔

جب اللہ عزوجل کے بارے میں غلط نظریات قائم کیے جانے لگے تو امت مسلمہ کے عقائد ونظریات کی حفاظت کرتے ہوئے 101 صفحات پر مشتمل رسالہ ”قوارع القهار على المجسمة الفجار“ تحریر فرمایا جس میں بطور ضرب 250 دلائل دے کر ثابت کیا کہ اللہ تعالیٰ جسم اور مکان سے پاک ہے۔

عقیدۂ علم غیب پر جب امت مسلمہ کو الجھانے کی کوشش کی گئی تو کلک رضا سے دلائل کی ایسی نہریں جاری ہوئیں جس سے عرب و عجم کے علماء بھی سیراب ہوئے، آپ نے علم غیب مصطفٰی ﷺ کی وضاحت کرتے ہوئے 120 دلائل پر مشتمل 67 صفحات کا رسالہ ”خالص الاعتقاد“ تحریر فرمایا جب کہ سیکڑوں دلائل دیتے ہوئے ”الدولة المكية بالمادة الغيبية“، ”إزاحة العيب بسيف الغيب“، ”إنباء المصطفى بحال سر وأخفى“، اور ”إنباء الحي أن كلامه المصون تبيان لكل شيء“ تحریر فرمایا۔

ایک مٹھی داڑھی رکھنا واجب جب کہ مٹھی سے کم کرنا حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے، اس پر آپ نے 18 آیات 72 احادیث اور 60 اقوال فقہاء نقل فرماتے ہوئے 89 صفحات پر مشتمل رسالہ ”لمعة الضحى في إعفاء اللحى“ تحریر فرمایا۔

ختم نبوت کے منکرین کو جواب دیتے ہوئے 150 صفحات اور 150 دلائل پر مشتمل رسالہ ”جزاء الله عدوه بإبائه ختم النبوة“ تحریر فرما کر ثابت فرمایا کہ ہمارے نبی خاتم النبیین ہیں، جو آپ کے زمانے میں یا بعد کسی کو نبوت ملنا جائز جانے وہ کافر ہے۔

اب چونکہ فتاویٰ رضویہ میں سوالات کرنے والوں کی کثیر تعداد خود جلیل القدر علماء ہی کی ہے، اس لیے مجدد اعظم اعلی حضرت رحمۃ الله علیہ بہت بڑی بڑی علمی بحثیں چند جملوں میں ہی سمیٹ کر آگے بڑھ گئے، جن کو اگر تفصیل سے کوئی بیان کرنا چاہے تو ایک صفحہ کے دس صفحات یا اس سے زائد ہو جائیں۔

کئی مقامات پر آپ نے کثیر دلائل تو نقل فرمائے مگر آپ کے نزدیک وہ کثیر دلائل بھی بطور اختصار ہوتے، جس کا اندازہ آپ کے رسائل پڑھنے کے بعد آخر میں کہی گئی بات سے لگایا جا سکتا ہے۔

جس میں سے ایک رسالہ ”التحبير بباب التدبير“ بھی ہے جس میں آپ نے مسئلہ تدبیر پر فقط 20 صفحات میں 15 آیات، 35 احادیث اور کثیر نصوص و جزئیات نقل فرما کر ثابت کیا کہ انکارِ تدبیر کس قدر اعلی درجہ کی حماقت، اخبث الامراض، اور قرآن و حدیث سے صریح اعراض اور خدا و رسول پر کھلا اعتراض ہے۔

اور رسالے کے آخر میں آپ فرماتے ہیں:

فقیر غفر ﷲ تعالی لہ دعوی کرتا ہے کہ ان شاء ﷲ تعالی اگر محنت کی جائے تو دس ہزار سے زائد آیات و احادیث اس پر ہو سکتی ہیں مگر کیا حاجت کہ آفتاب آمد دلیل آفتاب۔(سورج کی دلیل خود سورج ہے۔) (رسائل رضویہ ج: ٣٠ ص: ٣٥٢، امام احمد رضا اکیڈمی)

پیارے آقا سید الانبیاء ﷺ کا تمام اولین و آخرین کے سردار ہونے اور تمام انبیاء ومرسلین علیہم السلام سے افضل و اعلیٰ ہونے پر دلائل کی بات آئی تو آپ نے 155 صفحات پر مشتمل رسالہ ”تجلي اليقين بأنّ نبينا سيد المرسلين“ تحریر فرمایا جس میں 10 قرآنی آیات، 100 سے زیادہ احادیث اور سینکڑوں ضمنی دلائل بڑی آسانی کے ساتھ درج فرما دیے، جبکہ ہزاروں دلائل آپ کے پیش نظر تھے۔

جس کا اظہار کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں:

فقیر غفراللہ تعالی لہ نے مسئلہ تفضیل حضرات شیخین رضى الله عنہما میں دلائل جلائل قرآن وحدیث سے جو اکثر بحمداللہ استخراج فقیر ہیں نوے 90 جز کے قریب ایک کتاب مسمی بہ ”منتھی التفصیل لمبحث التفضیل“ لکھی جس کے طول کو ممل خواطر سمجھ کر ”مطلع القمرین في إبانۃ سبقۃ العمرین“ میں اس کی تلخیص کی، پھر کہاں وہ بحث متناہی المقدار اور کہاں یہ بحر ناپیدا کنار۔ الله الله العظمة لله!

بلا مبالغہ اگر توفیق مساعد ہو اس عقیدے کی تحقیق مجلدات سے زائد ہو، مگر بقدر حاجت ووقت فرصت، قلب مؤمن کی تسکین وتثبیت اور منکر بد باطن کی تحزین وتبکیت کو صرف دس آیتوں اور سو حدیثوں پر اقتصار مطلوب۔ (رسائل رضویہ ج: ٣٢ ص: ٤٧، امام احمد رضا اکیڈمی)

سینکڑوں دلائل دینے کے بعد رسالے کے آخر میں آپ نے فرمایا: الحمدللہ کہ کلام اپنے منتہىٰ کو پہنچا، اور دس آیتوں سو حدیثوں کا وعدہ بہ نہایت آسانی بہت زیادہ ہو کر پورا ہوا اس رسالہ میں قصدا استیعاب نہ ہونے پر خود یہی رسالہ گواہی دے گا کہ تیس سے زائد حدیثیں مفید مقصد ایسی ملیں گی جن کا شمار ان سو میں نہ کیا۔ تعلیقات تو اصلا تعداد میں نہ آئیں۔ اور ہیکل اول میں بھی زیر آیات بہت حدیثیں مثبت مراد گزریں، انہیں بھی حساب سے زیادہ رکھا۔ (رسائل رضویہ ج: ٣٢ ص: ١٩٣، امام احمد رضا اکیڈمی)

126 صفحات پر مشتمل رسالہ ”الأحلىٰ من السكر لطلبة سكر روسر“ تحریر فرمایا جس میں 10 ایسے مقدمات بیان فرمائے کہ ہزاروں مسائل حل ہو جائیں۔

مقدمہ ثانیہ میں خود فرماتے ہیں:

یہ شرع شریف کا ضابطہ عظیمہ ہے جس پر ہزارہا احکام متفرع، یہاں تک کہ کہتے ہیں تین چوتھائی فقہ سے زائد اس پر مبتنی، اور فی الواقع جس نے اس قاعدہ کو سمجھ لیا وہ صدہا وساوسِ ہائلہ وفتنہ پردازئی اوہامِ باطلہ ودست اندازئی ظنونِ عاطلہ سے امان میں رہا۔ (رسائل رضویہ ج: ٩ ص: ١٣٠، امام احمد رضا اکیڈمی)

ایسا تحقیقی رسالہ لکھنے کے بعد آخر میں فرمایا:

حرمت والے ذی قعدہ کے آخر میں تین دن کے اندر قلم اس کی تحریر سے فارغ ہوگیا۔ باوجود یکہ میں گمراہ لوگوں کے رد اور دوسرے امور میں قلبی طور پر مشغول تھا، اللہ بزرگ و برتر کے لئے حمد ہے۔ (رسائل رضویہ ج: ٩ ص: ٢٥٠، امام احمد رضا اکیڈمی)

حضور اکرم ﷺ کا سایہ نہ تھا، اس پر کثیر دلائل نقل کرتے ہوئے 48 صفحات کا رسالہ ”هدي الحيران في نفي الفيء عن سيد الأكوان“ تحریر فرمایا۔

جس کے آخر میں آپ فرماتے ہیں:

یہ چند سطریں جس طرح خدا نے چاہا، غم و اندوہ کے اجتماع اور امراض و عوارض کے ازدحام کے باوجود دو جلسوں میں تحریر کی گئیں، دل چاہتا ہے کہ زلف سخن دوسری کنگھی سے سنواروں، مگر کیا کروں اس اندھی بستی میں وطن سے دور ہوں، کتابیں پاس نہیں، یہاں سوائے ”شفاء نسیم الریاض“، ”مطالع المسرات“ اور بعض کتب فقہ کے کوئی کتاب موجود نہیں، ورنہ آنکھ والے دیکھتے جو دیکھتے۔ (رسائل رضویہ ج:٣٣ ص: ٢٣٠، امام احمد رضا اکیڈمی)

اسی طرح تصویر کے متعلق 101 صفحات کا تحقیقی رسالہ ”عطايا القدير في حكم التصوير“ تحریر فرمانے کے بعد آخر میں فرماتے ہیں:

اچانک جلدی میں کیا ہوا کام ایک رسالے کی صورت میں معرض وجود میں آگیا۔ (رسائل رضویہ ج: ٢٧ ص: ٣٧٣، امام احمد رضا اکیڈمی)

اللہ اکبر! یہ ہے آپ کا اچانک اور جلدی میں کیا گیا کام جو 100 صفحات کی تحقیقات پر پھیلا ہوا ہے، اگر اس پر اہتمام فرماتے تو ضرور کئی جلدیں تیار ہو جاتیں۔

مجدد اعظم اعلیٰ حضرت رحمۃ الله علیہ پر اللہ تعالیٰ کا خصوصی کرم تھا کہ کثیر دلائل آپ کو مستحضر تھے جب کبھی حاجت پڑتی تو بغیر کتاب دیکھے محض اپنی یاد داشت کی مدد سے حوالے نقل کر دیا کرتے، فتاویٰ رضویہ میں تین سوال پر مشتمل ایک فتویٰ طلب کیا گیا جس میں آپ نے بغیر کتاب دیکھے 6 جزئیات نقل فرما دیے۔

اسی فتوے کے آخر میں آپ فرماتے ہیں:

هذا كله ما قلته تفقها والفقير الآن متنزه علی جبل بعيد عن وطني وكتبي فإن أصبت فمن ربي وعنده العلم بالحق وهو حسبي۔

یہ جو کچھ میں نے کہا ہے محض فہم کی بنا پر کہا ہے اس وقت میں دور ایک پہاڑ پر تفریح میں ہوں، اپنی کتب اور وطن سے دور ہوں، لہذا اگر یہ درست ہو تو میرے رب کی طرف سے ہے اور اس کے پاس ہی حق کا علم ہے، وہی مجھے کافی ہے۔ (فتاویٰ رضویہ ج: ٩ ص: ٥٧١، امام احمد رضا اکیڈمی)

ایک مرتبہ علالت کے باعث جب آپ بریلی سے بھوالی تشریف لے گئے تو وہاں آپ کے پاس کتابیں موجود نہیں تھیں، لیکن اس کے باوجود جب وہاں آپ نے ایک فتوے کا جواب اپنی عادت شریفہ کے مطابق قرآن و حدیث و اقوال فقہاء سے مزین کر کے تحریر فرمایا تو لوگ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ اس میں بڑی بڑی کتابوں کے 31 حوالے موجود تھے جو سب کے سب بغیر دیکھے صرف اپنی یاد داشت پر آپ نے تحریر فرمائے تھے۔ (معارفِ رضا، ص: 87)

سگِ درِ اعلی حضرت نے یہ چند سطور لکھنے کی سعادت حاصل کی ہے، خوف طوالت کی وجہ سے اسی پر اکتفاء کرتا ہوں، اگر "فتاویٰ رضویہ" کا مطالعہ کیا جائے تو جگہ جگہ اس طرح کے نظاروں سے عقلوں کو حیران کرنے کا موقع ملے گا۔ الحمد للہ

کس طرح اتنے علم کے دریا بہا دیے

علماء حق کی عقل تو حیراں ہے آج بھی

الفاظ بہہ رہے ہیں دلیلوں کی دھار پر

چلتا ہوا قلم ہے کہ دھارا رضا کا ہے

اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں بھی مخزن علم و حکمت، اعلی حضرت رحمۃ الله علیہ کے علم و عمل کا صدقہ عطا فرمائے۔

آمین یا رب العالمین بجاہ سید المرسلین ﷺ۔

مضمون نگار دار الافتاء اہل سنت انڈیا میں فقہ و افتاء کی خدمت انجام دے رہے ہیں۔ {alertInfo}

1 تبصرے

  1. ما شاء اللہ تعالیٰ
    معلوماتی مضمون ہے۔
    ملک سخن کی شاہی تم کو رضا مسلّم 💞

    جواب دیںحذف کریں
جدید تر اس سے پرانی
WhatsApp Profile
لباب-مستند مضامین و مقالات Online
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مرحبا، خوش آمدید!
اپنے مضامین بھیجیں