عنوان: | داستان خوں چکاں |
---|---|
تحریر: | مفتیہ رضیؔ امجدی غفر لھا |
ہم ترے غم کو بھلائیں تو بھلائیں کیسے؟
یہی سرزمینِ ہند و پاک، جسے بیش تر علماء، صلحاء و اولیاء کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے شرفِ اقدام سے نوازا، جو کبھی عدل و انصاف کا مرکز تھی، آج ظلم و تشدد کا گہوارہ بنی ہوئی ہے۔
عدل و انصاف کے مقابلے میں ظلم اپنے پَر پھیلائے دم توڑتے انسان کی ہچکیاں نگل رہا ہے، جرم رواج بن گیا ہے، غارت گری روایت میں شامل ہو رہی ہے، سچ سرِ عام مصلوب اور جھوٹ برملا مسند آراء ہے۔
اور آج کی تاریخ میں سب سے بڑا جھوٹ اہلِ ہنود کا ہے۔ انہوں نے جھوٹا دعویٰ کیا کہ بابری مسجد کی تعمیر رام چندر مندر کی تخریب کے بعد کی گئی، لہٰذا ہم اپنا حق وصول کریں گے۔ پھر انہوں نے بابری مسجد کی زمین کو رام چندر کی پیدائش گاہ قرار دے کر اسے ہتھیانے کا پروپیگنڈہ بنانا شروع کر دیا۔
22 یا 23 دسمبر 1949ء کی ایک شب کو کچھ لوگوں نے بابری مسجد کے اندر گھس کر رام چندر کی مورتی رکھ دی اور صبح صبح شور مچانا شروع کر دیا کہ رام جی پرکٹ ہوئے اور یہ جھوٹا افسانہ حقیقت بنتا چلا گیا۔ آخرکار یہ معاملہ عدالت کو پہنچا اور منصف نے اندیشۂ فساد کی آڑ میں مورتیوں کو پوجنے کی اجازت دے دی۔ کئی سالوں تک یہ مقدمہ معلق رہا۔
بالآخر 6 دسمبر 1992ء کو لکھنؤ کی حکومت نے عدل و انصاف اور آئین و قانون کو روندتے ہوئے بابری مسجد کی تخریب کا فیصلہ سنا دیا اور بابری مسجد کو شہید کر دیا گیا۔ اللہ اکبر!
مگر معاملہ یہاں پر ختم نہیں ہوا، ابھی آخری فیصلہ باقی تھا۔ مسلمانوں نے عدالت میں بھرپور انداز میں دفاع کیا، دلیلیں قائم کیں، تاریخی حقائق پیش کیے اور ادھر یہ فضا بنائی جانے لگی کہ عدالت جو بھی فیصلہ دے گی، اسے دونوں فریق من و عن قبول کریں گے۔ اس پر سادہ لوح مسلمان راضی ہوگئے کیونکہ سارے ثبوت، ساری دلیلیں، تمام تاریخی حقائق ان کے حق میں تھے۔
اور جب 9 نومبر کو فیصلہ سنانے کی تاریخ آئی تو دہلی کے منصفِ اعظم نے اوّلاً مسلمانوں کی خوب ستائشیں کیں، وہ تمام دلیلیں دہرائیں جو مسلمانوں کے حق میں تھیں اور اس نے اہلِ ہنود کی تردید کی کہ اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ کوئی مندر توڑ کر مسجد بنا لی گئی ہو، بلکہ یہ حق گوئی بھی کی کہ بابری مسجد کا انہدام ایک غیر قانونی عمل تھا۔
ان سب باتوں کو سننے کے بعد مسلمانوں کی امیدیں یقین میں تبدیل ہو چکی تھیں کہ فیصلہ ہمارے حق میں ہی ہوگا۔
مگر آخر میں منصفِ اعظم نے ہندوؤں کے حق میں فیصلہ سنا دیا اور دلیل یہ پیش کی کہ اگر اکثریت کی منشا کے مطابق فیصلہ نہیں کیا گیا تو فساد برپا ہوگا۔ مگر حقیقت تو یہ ہے کہ سدِّ فساد کی آڑ میں فسادِ عظیم بپا کر دیا گیا تھا۔
مسلمانوں نے اپنی امیدوں کو دم توڑتے ہوئے دیکھا، وہ خیرہ و ششدر رہ گئے کہ آخر یہ کیا ہوا؟
آج کی تاریخ میں یہ روز شب کی طرح سیاہ تھا جس کی سیاہی نے مسلمانوں کے دل و دماغ کو بہت متأثر کیا۔ اور اس ظلم کی کرچیوں نے ان کے وجود کو ریزہ ریزہ کر کے رکھ دیا۔ اپنے حق کو بچانے کے لیے بہت کوششیں کیں، بہت ہاتھ پیر مارے، کتنوں نے اپنی جانیں قربان کر دیں، بالآخر خاموشی کی چادر اوڑھ لی۔
مگر یاد رہے، مظلوم کی خاموشی ظالم کی عبرت کی ابتدا ہے، خاموش مظلوم، خاموش طوفان کی طرح ہے اور آج بظاہر عالمِ اسلام خاموش ہے، مگر اس کے سینوں میں شور بپا ہے۔
بابری مسجد کی شہادت کا شور، اس کے فرض کا قرض ادا کرنے کا شور، ظلم کے گھپ اندھیرے میں عدل و انصاف کی شمع روشن کرنے کا شور، اور یہی شور جب عمل کی صورت اختیار کرے گا تو اس کی موجیں ظلم کی گندگی کو بہا لے جائیں گی اور پھر صرف عدل و انصاف کی فضا قائم ہوگی۔ اِن شاء اللہ العزیز۔
امید رکھیں یہ سیاہ رات ایک دن کٹ جائے گی اور عدل و انصاف کا سورج اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ ایک دن ضرور نکلے گا۔
صبر کریں! آج نہیں تو کل ضرور۔۔۔ اِن شاء اللہ الرحمن
اک روز مرے خواب کی تعبیر تو ہوگی
اے بابری مسجد تری تعمیر تو ہوگی