عنوان: | دل سوز حقیقت |
---|---|
تحریر: | مفتیہ رضیؔ امجدی غفر لھا |
ہماری طاقت عشقِ مصطفی ﷺ ہے
یہ میرے قلم کے شہہ رگ سے ٹپکنے والے لہو کے بے ترتیب قطرے ہی نہیں، بلکہ میرے زخمی دل کی آواز بھی ہیں اور ایک ادنیٰ سا احتجاج بھی۔
ہر کہ عشق مصطفی سامان اوست بحر و بر در گوشۂ دامان اوست
جس کسی کے پاس عشقِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا سامان موجود ہو، کائنات کی ہر خشک و تر شے سمٹ کر اس کے دامن میں آجاتی ہے۔
ہمارا دور ظلم و غارت گری کا دور ہے، جہاں ظلم و جبر دم توڑتے انسان کی ہچکیاں نگل رہا ہے۔ ہمارے ملک میں امن و تحفظ محض خواب بن کے رہ گیا ہے۔
اگر حالاتِ حاضرہ کے تئیں اس صورتِ حال کا جائزہ لیا جائے، تو معلوم ہوگا کہ اسلام دشمنی کے جذبے کا عملی مظاہرہ منظرِ عام پر آرہا ہے۔
طاقت و قوت کے زعم میں بد مست اور نشے میں چور اربابِ اقتدار عظمتِ اسلام کو مٹانے کے لیے حربوں پہ حربے استعمال کر رہے ہیں، بلکہ ستم در ستم تو یہ کہ صرف اسلام کو نہیں، بلکہ اہلِ اسلام کو مٹانے کی ناپاک سازشیں رچی جانے لگیں اور عملی مظاہرے بھی سامنے آرہے ہیں۔ اس وقت سر پیٹ لینے کو جی چاہتا ہے، جب ایسے ظالموں کو حکومتی سطح پر تحفظ فراہم کیا جاتا ہے۔
کیا یہ تحفظ اس بات کی ترجمانی نہیں کر رہا کہ حکومتی رضا مندی کی بھی اس میں شمولیت ہے؟ بلکہ یہ کہہ لیں تو بے جا نہ ہوگا کہ سازش گر کوئی اور نہیں، حکومت ہی ہے۔ ہر عام و خاص اسلام دشمنی کے عملی مظاہرے پر اتر آیا ہے، کیونکہ اسے ظلم و ستم پر آزادی کا پروانہ مل چکا ہے۔
اسے وقت کی آشفتہ حالی کہیے یا آئینِ اسلام سے ہماری روگردانی کا وبال۔
جب سے امجدیہ میں پڑھنے والے جماعتِ اعدادیہ کے دو طالب علم کی دل سوز و جانکاہ وفات کی خبر ملی ہے، افسردگی اور بے کیفی نے جکڑ لیا ہے۔ اس جاں گداز خبر نے دلوں کو چھلنی کر دیا ہے، جس سے نکلنے والی لہو کی بوندیں ظالم کے عذاب اور اس کے انتقام کی متلاشی ہیں، کیونکہ وہ موت ایک حادثہ نہیں، بلکہ سمجھی بوجھی ایک سازش تھی۔ اور سی سی ٹی وی کیمرہ میں نقش ہوئی تصویر پر جب نظر پڑی، تو اسلام دشمنی کے عملی مظاہرے کی صورت حقیقت میں اترتی نظر آئی، کیونکہ اس منظر کی منہ بولتی تصویر اس بات کی غمازی کر رہی ہے کہ یہ حادثہ نہیں، دانستہ انتقام ہے۔ ساری سڑک خالی تھی اور فٹ پاتھ پر چلنے والے دو شہزادے اس چار پہیے کی زد میں آگئے، آخر کیوں اور کیسے؟
کیا امتِ مسلمہ خود پر ہوتے ظلم و ستم کا صرف تماشہ دیکھنے کے لیے ہے؟ ہر چند کہ کفار صاحبِ اقتدار ہیں، مگر جو طاقت امتِ مسلمہ کے پاس ہے، اس کی مثال نہیں ملتی، کیونکہ امتِ مسلمہ کی قوت و توانائی کا اصل سرچشمہ عشقِ رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وسلم ہے، جو اس کے رگ و پے میں جاری و ساری ہے۔
اور جب تک عشقِ مصطفیٰ ﷺ کی چنگاری اور عظمتِ اسلام کا جذبہ دلوں میں موجود ہے، کوئی بھی طاقت مرعوب نہیں کر سکتی۔
عشقِ رسول ﷺ کی چنگاری کی قوت کا عالم یہ ہے کہ ایوانِ اہلِ باطل کو خاکستر کر دینے کی طاقت رکھتی ہے، اور اس میں ایسا شعلۂ جوالہ بننے کی استعداد بھی ہے، جو باطل پرستوں کی بیخ کنی کے لیے کافی ہو۔
اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ اس چنگاری کی حرارت و تپش «وَ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْ هٰۤؤُلَآء» کی تفسیر بننے والوں کو محسوس کروا دی جائے۔
مگر سوال یہ اٹھتا ہے کہ اس کے لیے عملی اقدام کون کرے؟ کیونکہ امتِ مسلمہ کے اکثر افراد کو اس قوت کا احساس ہی نہیں، بلکہ یہ کہہ لیں کہ ادراک نہیں ہے۔ اور جنہیں احساس و ادراک بھی ہے، وہ انفرادی اقدام کے لیے تیار نہیں، اجتماع کے منتظر ہیں۔
خدارا! اپنی طاقت کو سمجھیں اور باور کرا دیں کہ ہم غالب قوم ہیں، جس کے لیے مغلوبیت روا نہیں۔
اٹھیں اور ظلم و جبر کے اقتدار کو خاک میں ملا دیں اور بتا دیں کہ ہماری طاقت و قوت کا پیمانہ منفرد اور یکتا ہے، جس میں غیبی چارہ گری کی کارفرمائی ہوتی ہے۔ آئینِ اسلام کی حفاظت میں ہماری جانیں بھی قربان ہو جائیں، تو ہم اسے سعادت اور حیاتِ سرمدی کا پروانہ سمجھیں گے۔
طالبِ علمی کے دور میں شہادت پانے والے دو شہزادے، جن کا آغاز ہی اختتام ٹھہرا، اللہ رب العزت انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ سے اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور اہلِ خانہ کو صبرِ جمیل سے نوازے۔ آمین ثم آمین۔
زندگانی تھی تری مہتاب سے تابندہ تر خوب تر تھا صبح کے تارے سے بھی تیرا سفر مثلِ ایوانِ سحر مرقد فروزاں ہو ترا نور سے معمور یہ خاکی شبستاں ہو ترا آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے سبزۂ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
رب کریم اُمت مسلمہ کو عشقِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی شمع عطا فرمائے ۔
جواب دیںحذف کریں