عنوان: | دوسروں کا سونا بنانے والے خود پتھر نہ بنیں |
---|---|
تحریر: | سلمیٰ شاھین امجدی کردار فاطمی |
دینی ادارے وہ مقامات ہیں جہاں قرآن، حدیث اور اسلامی تعلیمات کا نور بکھرتا ہے، جہاں سے امت کی رہنمائی ہوتی ہے اور علم کی شمعیں جلتی ہیں۔
لیکن ایک اہم سوال یہ ہے کہ کیا ان اداروں میں کام کرنے والے افراد خود بھی اس روشنی سے فیض یاب ہو رہے ہیں؟
یا وہ محض دوسروں تک پہنچانے کا ذریعہ بنے ہوئے ہیں، جبکہ خود اپنی اصلاح سے غافل ہیں؟
کہتے ہیں کہ پارس کا پتھر لوہے کو سونا بنا دیتا ہے، مگر خود پتھر ہی رہتا ہے۔
کیا ہم بھی کہیں انہی پتھروں کی طرح تو نہیں بن گئے؟
دوسروں کو ذکر و عبادت، تقویٰ اور پرہیزگاری کا درس تو دیتے ہیں مگر خود ان صفات سے محروم رہتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کے بارے میں قرآن مجید میں فرمایا:
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللّٰهِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا لَا تَفْعَلُوْنَ (الصف: 2-3)
ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو کیوں کہتے ہو وہ جو نہیں کرتے کتنی سخت ناپسند ہے اللہ کو وہ بات کہ وہ کہو جو نہ کرو.
یہی حال اُس چھلنی کا ہے جو خالص پانی کو دوسروں کے لیے بہا دیتی ہے، مگر خود کو خشک رکھتی ہے۔ اگر ہم دوسروں کو دین سکھا رہے ہیں مگر خود عمل سے خالی ہیں، تو ہم بھی اسی چھلنی کی مانند ہیں۔
علم وہ نہیں جو زبان پر ہو، بلکہ علم وہ ہے جو دل کی گہرائیوں میں اتر کر عمل میں ڈھل جائے۔
اپنی اصلاح کو اولین ترجیح بنائیں
دینی اداروں کے اساتذہ اور انتظامیہ کو چاہیے کہ وہ دوسروں کی اصلاح کے ساتھ اپنی دینی، اخلاقی اور روحانی ترقی پر بھی توجہ دیں۔ اگر کسی ادارے میں کام کرتے ہوئے ہماری عبادات، معاملات اور تعلق باللہ میں بہتری نہیں آ رہی، تو ہمیں ضرور غور کرنا چاہیے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
لَا تَزُولُ قَدَمَا عَبْدٍ يَوْمَ الْقِيَامَةِ حَتَّى يُسْأَلَ عَنْ أَرْبَعٍ: عَنْ عُمْرِهِ فِيمَا أَفْنَاهُ، وَعَنْ عِلْمِهِ فِيمَا فَعَلَ بِهِ... (سنن الترمذی: 2417)
ترجمہ: قیامت کے دن بندے کے قدم اس وقت تک نہیں ہٹیں گے جب تک اس سے چار چیزوں کے بارے میں سوال نہ کر لیا جائے.
(1) عمر کہاں گزاری؟ (2) علم پر کتنا عمل کیا؟ (3) مال کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا؟ (4) جسم کو کہاں کھپایا؟
وقت کے گزرنے سے نہیں، قابلیت کے بڑھنے سے ترقی ملتی ہے
بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جتنا زیادہ وقت کسی ادارے میں گزاریں گے، وہ اتنے ہی سینئر اور قابلِ احترام ہوں گے۔ حالانکہ اصل معیار وقت نہیں، بلکہ استعداد اور قابلیت ہے۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
مَنْ يَتَصَبَّرْ يُصَبِّرْهُ اللَّهُ، وَمَا أُعْطِيَ أَحَدٌ عَطَاءً خَيْرًا وَأَوْسَعَ مِنَ الصَّبْرِ۔ (صحیح بخاری: 1469)
ترجمہ: جو صبر کرتا ہے، اللہ اسے صبر کی طاقت عطا فرماتا ہے، اور صبر سے بہتر اور وسیع کوئی نعمت نہیں۔
یہ حدیث بتاتی ہے کہ مستقل کوشش اور صبر سے ہی حقیقی ترقی ملتی ہے، نہ کہ محض وقت گزارنے سے۔
دینی کام کو نوکری نہ سمجھیں، خدمت سمجھیں
دینی خدمات کسی پر احسان نہیں بلکہ اپنی آخرت کے لیے ایک سرمایہ ہیں۔ اگر ہم نماز پڑھاتے ہیں یا دین سکھاتے ہیں تو یہ ہمارے لیے نجات کا ذریعہ ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا:
وَمَا تُقَدِّمُوا لِأَنْفُسِكُمْ مِنْ خَيْرٍ تَجِدُوهُ عِنْدَ اللَّهِ (البقرہ: 110)
ترجمہ کنزالایمان: اور جو نیکی بھی تم اپنے لیے آگے بھیجو گے، اسے اللہ کے ہاں موجود پاؤ گے۔
اخلاص کے بغیر دینی خدمات بے اثر رہتی ہیں
اگر کسی ادارے میں اخلاص نہ ہو تو وہ صرف ظاہری ڈھانچہ بن کر رہ جاتا ہے۔ اخلاص ہی وہ بنیاد ہے جس پر دین کا کام پھلتا پھولتا ہے۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ، وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى (صحیح بخاری: 1)
ترجمہ: اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے اور ہر شخص کو وہی ملے گا جس کی اس نے نیت کی۔
اپنے آپ سے یہ سوال کریں
کیا ہم دینی ماحول میں رہ کر بھی دین سے غافل ہیں؟
کیا ہم دوسروں کو سونا بنا رہے ہیں مگر خود پتھر بنے ہوئے ہیں؟
کیا ہماری خدمات صرف نوکری ہیں یا اخلاص کے ساتھ دین کی خدمت ہے؟
اگر ہم ان سوالات کے جواب اخلاص کے ساتھ تلاش کریں، تو ہم اپنی اصلاح بھی کر سکیں گے اور دین کی حقیقی خدمت بھی انجام دے سکیں گے۔
یا اللہ! ہمیں دین اسلام کی سچی محبت عطا فرما، ہماری نیتوں کو خالص کر دے، اور ہمیں دوسروں کو سونا بناتے ہوئے خود بھی نفع اٹھانے والا بنا۔ آمین یا رب العالمین!
ما شاء بہتر تجزیہ پیش کیا گیا ہے
جواب دیںحذف کریں