عنوان: | غیر ضروری طلاق سے بچاؤ |
---|---|
تحریر: | محمد اشرف رضا علیمی |
اسلام ایک مکمل نظامِ حیات ہے۔ زندگی کے ایک ایک گوشے کی رہنمائی دامنِ اسلام میں موجود ہے۔ مذہب اسلام نے چین وقرار کی حصول یابی اور توالد وتناسل کا سلسلہ بڑھانے کے لیے نکاح جیسا پاکیزہ عمل دیا، نیز ایک دوسرے کے ساتھ نباہ کی گنجائش ختم ہونے پر گھٹ گھٹ کر جینے یا مرنے سے نجات پانے کے لیے طلاق کا تصور بھی دیا۔
چوں کہ مذہب اسلام آپس میں ایک دوسرے سے رشتہ توڑنے پر نہیں بلکہ جوڑنے پر ابھارتا ہے، اس لیے طلاق کا تصور دینے کے ساتھ ساتھ ایسے رہ نما اصول وقوانین بھی فراہم کئے کہ جن کو بروئے کار لاکر ابن آدم حتی الامکان طلاق کی راہ اختیار کرنے سے بچ سکتا ہے۔ یوں معاشرے میں طلاق کا وقوع کم سے کم تر ہوگا۔
قارئین! اگر چاہتے ہو کہ بعدِ نکاح زندگی خوش گوار اور پرسکون ہو تو قبلِ نکاح انتخابِ زَن ارشادِ نبی ﷺ کے مطابق کرنا ہوگا:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: تُنْكَحُ الْمَرْأَةُ لِأَرْبَعٍ: لِمَالِهَا، وَلِحَسَبِهَا، وَلِجَمَالِهَا، وَلِدِينِهَا، فَاظْفَرْ بِذَاتِ الدِّينِ تَرِبَتْ يَدَاكَ۔ [البخاري، صحيح البخاري، رقم الحديث: 5090، مسلم صحيح مسلم، رقم الحديث: 1466]
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
عورت سے نکاح چار وجہوں سے کیا جاتا ہے: اس کے مال کی وجہ سے، اس کے خاندانی شرف کی وجہ سے، اس کی خوبصورتی کی وجہ سے، اس کے دین کی وجہ سے تَو تم دیندار عورت سے نکاح کر کے کامیابی حاصل کرو، تیرے ہاتھ خاک آلود ہوں۔ (اگر ایسا نہ کرے تو)
دوسری حدیث میں ہے:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا أَتَاكُمْ مَنْ تَرْضَوْنَ خُلُقَهُ وَدِينَهُ فَزَوِّجُوهُ، إِلَّا تَفْعَلُوا تَكُنْ فِتْنَةٌ فِي الْأَرْضِ وَفَسَادٌ عَرِيضٌ۔ [ابن ماجة، سنن ابن ماجة، رقم الحديث: 1967]
نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
جب تمہارے پاس ایسا شخص آئے جس کا اخلاق اور دین تمہیں پسند ہو تو اس سے شادی کر لو، اگر اس طرح نہ کرو گے تو زمین میں فتنہ و فساد پھیل جائے گا۔
مذکورہ بالا احادیث میں دین وایمان، اخلاق وکردار والی خاتون سے نکاح کرنے کی ترغیب ہے، لہذا وقتِ نکاح اگر ان چیزوں کا اہتمام کیا جائے تو بفضلہ تعالیٰ میاں بیوی کی زندگی پرسکون ہوگی۔
اس لیے کہ جو عورت دیندار ہوگی وہ ہمیشہ اپنے شوہر کی اطاعت گزار اور فرماں بردار ہوگی۔ مزید برآں اس کے ذہن ودماغ میں طلاق کے مطالبے کا تصور نہیں آئے گا۔ خدا نخواستہ اگر آ بھی جائے تو ایسی عورت کو نبی کریم ﷺ کا یہ ارشاد ہی جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہوگا:
عَنْ ثَوْبَانَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَيُّمَا امْرَأَةٍ سَأَلَتْ زَوْجَهَا طَلَاقًا فِي غَيْرِ مَا بَأْسٍ، فَحَرَامٌ عَلَيْهَا رَائِحَةُ الْجَنَّةِ۔ [الترمذي جامع الترمذي، رقم الحديث: 1187]
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
جو عورت بغیر کسی وجہ کے اپنے شوہر سے طلاق مانگتی ہے اس پر جنت کی خوشبو حرام ہے۔
اسی طرح بلا ضرورت شوہر بھی طلاق پر اقدام نہیں کرے گا۔ اگر کبھی اس کے ذہن میں اقدام کا خیال آتا ہے تو نبی کریم ﷺ کا یہ فرمان دیندار شوہر کو متنبہ کرنے کے لیے کافی ہوگا:
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَبْغَضُ الْحَلَالِ إِلَى اللَّهِ الطَّلَاقُ۔ [أبو داؤد، سنن أبي داؤد، رقم الحديث: 2178]
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ کے نزدیک حلال چیزوں میں سب سے زیادہ نا پسندیدہ طلاق ہے۔
پھر بھی اگر نکاح کے بعد کچھ نا اتفاقی کے مسائل پیدا ہوجائیں، بیوی کی کوئی عادت وخصلت شوہر کو اچھی نہ لگے تو فورا طلاق کے ذریعہ فیصلہ کردینے میں کوئی کمال نہیں ہے، اس لیے کہ ہوسکتا ہے بیوی کے اندر کچھ کمیاں اور برائیاں ہوں مگر خوبیاں اور اچھائیاں اس سے کئی گنا زیادہ ہوں تو ایسی صورت میں طلاق دینے کے بعد کفِ افسوس مَلنے اور پچھتاوا کے سوا کچھ ہاتھ نہ لگے گا۔
چنانچہ قرآن پاک میں ہے:
فَعَسٰۤى اَنْ تَكْرَهُوْا شَیْئاً وَّ یَجْعَلَ اللّٰهُ فِیْهِ خَیْرًا كَثِیْرًا (النساء:19)
ترجمہ: پھر اگر تم ان(عورتوں) کو ناپسند کرو تو ہو سکتا ہے کہ تم کسی چیز کو ناپسند کرو اور اللہ اس میں بہت بھلائی رکھ دے۔
تاہم اگر عورت کی نافرمانیاں اتنی زیادہ ہوں کہ اس کے ساتھ مزید ازدواجی زندگی گزارنا مشکل ہو، بریں بنا تم نے طلاق کا قصد وارادہ کرلیا ہے تو ٹھہرو! پہلے اس قرآنی ارشادات پر عمل کرو۔ شاید اب بھی حالات سنور جائیں۔
قرآن مقدس میں ہے:
وَالّٰتِیْ تَخَافُوْنَ نُشُوْزَهُنَّ فَعِظُوْهُنَّ وَ اهْجُرُوْهُنَّ فِی الْمَضَاجِـعِ وَ اضْرِبُوْهُنَّ (النساء، 34)
ترجمہ: اور جن عورتوں کی نافرمانی کا تمہیں اندیشہ ہو، تو انہیں سمجھاؤ اور ان سے الگ سوؤ اور انہیں مارو۔
اس آیت میں نافرمان عورت کو راہِ راست پر لانے کے لیے تین طریقے مذکور ہیں:
(١)- پہلا یہ ہے کہ وعظ ونصیحت سے کام لو: اپنی اطاعت کے فوائد اور نافرمانی کے نقصانات بیان کرو۔ اس کے دل میں خوف خدا ڈالو اور عذابِ آخرت سے ڈراؤ۔ اگر اس کا دل خوفِ خدا عزوجل اور عشقِ رسول ﷺ سے سرشار ہے تو یہی پہلا قدم حالات کو خوشگوار بنانے کے لیے کافی ہوگا۔
(٢)- اگر پہلے سے بات نہ بنے تو دوسرا قدم اٹھاؤ، وہ یہ کہ بستر الگ کرلو۔ اس اقدام سے اگر اس کے دل میں شوہر کی ذرا سی بھی محبت ہوگی تو وہ اطاعت کو قبول کر لےگی، اس لیے کہ دِل دادہ خاتون کے لیے یہ دشوار گزار ہے کہ اس کا شوہر اس کے ساتھ ہوتے ہوئے اس سے منہ موڑ کر سوئے۔
(٣)- اگر اس اقدام سے بھی کام نہ چلے تو تیسرا قدم اٹھاؤ اور ہلکی سی ضرب دو۔ ضرب کیسی ہونی چاہیے؟
مذکورہ آیت کے تحت تفسیر صراط الجنان میں ہے:
اس مار سے مراد ہے کہ ہاتھ یا مسواک جیسی چیز سے چہرے اور نازک اعضاء کے علاوہ دیگر بدن پر ایک دو ضربیں لگا دے۔ وہ مار مراد نہیں جو ہمارے ہاں جاہلوں میں رائج ہے کہ چہرے اور سارے بدن پر مارتے ہیں، مکوں، گھونسوں اور لاتوں سے پیٹتے ہیں، ڈنڈا یا جو کچھ ہاتھ میں آئے اس سے مارتے اور لہو لہان کردیتے ہیں یہ سب حرام و ناجائز ، گناہ کبیرہ اور پرلے درجے کی جہالت اور کمینگی ہے۔
لیکن اگر مذکورہ بالا تینوں طریقوں کو بروئے کار لانے کے بعد بھی عورت کی ہٹ دھرمی اور سرکشی برقرار ہے تو تھوڑا اور صبر کرو۔
نیز قرآن مجید کے اس فرمان پر عمل کرو:
وَ اِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَیْنِهِمَا فَابْعَثُوْا حَكَمًا مِّنْ اَهْلِهٖ وَ حَكَمًا مِّنْ اَهْلِهَا اِنْ یُّرِیْدَاۤ اِصْلَاحًا یُّوَفِّقِ اللّٰهُ بَیْنَهُمَا اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِیْمًا خَبِیْرًا (النساء: 35)
ترجمہ کنزالایمان: اور اگر تم کو میاں بی بی کے جھگڑے کا خوف ہو تو ایک پنچ مرد والوں کی طرف سے بھیجو اور ایک پنچ عورت والوں کی طرف سے، یہ دونوں اگر صلح کرانا چاہیں گے تو اللہ ان میں میل کردے گا، بیشک اللہ جاننے والا خبردار ہے۔
یعنی جب اندرونِ خانہ اصلاح کی تمام صورتیں فیل ہوجائیں تو میاں بیوی اپنے اپنے گھر اور رشتہ داروں میں سے ایک ایک حَکَم (پنچ) مقرر کرلیں، یہ دونوں طرف کے حکم میاں بیوی کے مسائل سن کر فقط صلح کرانے کی کوشش کریں، اللہ رب العزت کی ذات سے امید رکھو کہ ایسا کرنے کےبعد دونوں کے مابین اتفاق ومحبت کی راہ ہموار ہوگی۔ طلاق کی نوبت نہیں آئے گی۔
اگر میل وملاپ کے مذکورہ تمام طریقے ناکام ونامراد ہوجائیں، امید کی کرن کسی طرف سے نظر نہ آئے، محبت والفت، اتفاق واتحاد کے ساتھ زندگی گزارنے کی کوئی صورت نہ بچے تو ایسی نازک حالت میں مذہب اسلام وحشت ناک اور گھٹن والی زندگی اک دوجے کے ساتھ گزارنے پر مجبور نہیں کرتا، بلکہ اس سے نپٹنے کے لیے مذہب اسلام نے طلاق کا تصور دے رکھا ہے۔
تاکہ ایسا نہ ہو کہ شوہر بیوی کی وجہ سے یا بیوی شوہر کی وجہ سے اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالے یا خود کشی کرلے۔ ایسی خبریں اخبار کی سرخیاں بنیں اس سے بہتر ہے کہ شوہر طلاق دے دے اور دونوں تنہا تنہا یا کسی اور سے نکاح کرکے راحت وچین والی زندگی گزاریں۔
یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ طلاق حالت حیض میں نہیں دینا ہے، اس لیے کہ اس حالت میں رغبت وچاہت کا فقدان ہوتا ہے، نہ ہی اس طہر (پاکی) کے زمانے میں طلاق دے جس میں جماع کرچکا ہو اس لیے کہ وطی کے بعد عورت کی طرف رغبت ماند پڑ جاتی ہے، بلکہ ایسے طہر میں طلاق دے جس میں جماع نہ کیا ہو تاکہ بالکل یہ واضح ہوجائے کہ طلاق دینے والا نفرت و وحشت اور بے رغبتی کی وجہ سے نہیں، بلکہ ضرورت کی بنیاد پر طلاق دے رہا ہے۔ اور وہ بھی صرف ایک طلاق رجعی دے۔
اس لیے کہ فرمان باری تعالیٰ ہے:
لَا تَدْرِیْ لَعَلَّ اللّٰهَ یُحْدِثُ بَعْدَ ذٰلِكَ اَمْرًا (الطلاق: 1)
ترجمہ: تم کو معلوم نہیں شاید اس کے بعد اللہ کوئی نئی صورت پیدا کردے۔
اس میں طلاق رجعی دینے پر ابھارا گیا ہے، اس لیے کہ ممکن ہے کہ طلاق دینے کے بعد شوہر کو اپنی غلطی کا احساس واعتراف ہو جائے، نتیجتاً اس کے دل میں پھر اسی عورت کے لیے چاہت ورغبت پیدا ہوجائے۔
ان دونوں کے دلوں میں پھر سے اک دوجے کے ساتھ ازدواجی زندگی کی خواہش بیدار ہوجائے تو اگر ایک طلاق رجعی دیا ہوگا تو شرعی نقطۂ نظر سے شوہر کو یہ اجازت حاصل ہوگی کہ زوجہ کی عدت کے دوران بغیر نکاح کئے قول وفعل کے ذریعہ رجعت کرلے اور دوبارہ اپنی منکوحہ بنا لے۔ اگر عدت مکمل ہوچکی ہے تو اب بھی واپسی کا راستہ کھلا ہے، ہاں! مگر اب نکاح کے ذریعہ واپسی ہوگی۔
اگر دوبارہ رجعت یا نکاح کرنے کے بعد بھی حالات سازگار نہ ہوئے، جس کی وجہ سے شوہر نے دوسری طلاق دے دیا تو اسے اب بھی ایک چانس اور ہوگا کہ مذکورہ بالا تفصیلات کے مطابق ایک بار پھر دونوں میاں بیوی بن کر زندگی گزار سکتے ہیں۔
لیکن اگر شوہر نے تیسری بار طلاق دے دیا ہے تو اب دونوں ایک دوسرے پر حرام ہوجائیں گے۔ نکاح کے ذریعہ بھی حلت ثابت نہ ہوگی۔ ورنہ بار بار طلاق دینے اور رجعت کرنے کی اجازت ہو تو زمانۂ جاہلیت کی طرح شوہر بار بار طلاق دےگا اور بار بار رجعت کرلے گا۔
اس طرح وہ عورت شوہر کے ہاتھوں کا کھیل بن کر رہ جائے گی۔ لہذا شریعت نے حد بندی کردی ہے کہ شوہر دو طلاق تک رجعت کرسکتا ہے۔ تیسری طلاق دی تو حرمت غلیظہ ثابت ہوجائے گی۔ عورت شوہر پر حرام ہوجائے گی۔
ہاں، اگر حرمت غلیظہ ثابت ہونے کے بعد وہ عورت اب بھی رفیقِ حیات کی تلاش میں ہے تو اس مرد یعنی شوہرِ اول کے علاوہ کسی سے بھی (جس سے نکاح کرنا جائز ہے) نکاح کرسکتی ہے۔ شوہر ثانی سے نکاح کرکے یہ عورت اور شوہر ثانی باہم رضا مندی کے ساتھ جب تک چاہیں ایک ساتھ رہیں۔
لیکن اگر شوہرِ ثانی بھی کسی وجہ سے طلاق دے دیتا ہے، اور وہ عورت شوہر ثانی سے طلاق کے ملنے کے بعد بھی شادی شدہ زندگی کی خواہش رکھتی ہے تو اس مطلقہ عورت کو شریعت کی جانب سے یہ حق حاصل ہے کہ شوہر ثانی کے بعد شوہر ثالث سے نکاح کرلے، بلکہ اس صورت میں وہ چاہے تو شوہر اول سے بھی نکاح کرسکتی ہے۔
اس لیے کہ وہ عورت شوہر ثانی سے نکاح، وطی، اور عدت مکمل ہونے کے بعد شوہر اول پر حلال ہوچکی ہے۔ اسی کو ”حلالہ“ کے نام سے بھی موسوم کیا جاتا ہے۔
جس لفظ کو بعض ناعاقبت اندیشوں نے بہت توڑ موڑ کر پیش کیا اور یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ حلالہ خالص عورتوں پر ظلم وزیادتی کا نام ہے۔ حالانکہ مذہب اسلام میں مرد و عورت کسی پر بھی ظلم وزیادتی کا کوئی تصور نہیں ہے۔ مذہب اسلام عدل وانصاف کا درس دیتا ہے۔ اسلام کی نظر میں امیر غریب، چھوٹا بڑا، گورا کالا، مرد عورت سب یکساں ہیں۔
باری تعالیٰ ہم سبھی کو مذہب اسلام کو صحیح طور پر سمجھنے اور اس کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔
ما شاء اللہ بہت بہترین انداز میں تحریر کی گئی ہے ۔ رب کریم عمل کی توفیق عطا فرمائے آمین
جواب دیںحذف کریں