✍️ رائٹرز کے لیے نایاب موقع! جن رائٹر کے 313 مضامین لباب ویب سائٹ پر شائع ہوں گے، ان کو سرٹیفکیٹ سے نوازا جائے گا، اور ان کے مضامین کے مجموعہ کو صراط پبلیکیشنز سے شائع بھی کیا جائے گا!

غربت کے اسباب اور ان کا خاتمہ

عنوان: غربت کے اسباب اور ان کا خاتمہ
تحریر: راغب حسین رضوی

دنیا میں ہر انسان سکون و راحت کا متلاشی ہے، مگر معاشی پریشانی اور فقر و فاقہ کی حالت میں زندگی گزارنا کسی بھی انسان کے لیے سخت ترین آزمائش ہے۔

غربت نہ صرف ایک فرد کی زندگی کو متاثر کرتی ہے بلکہ پورے معاشرے پر اس کے مہلک اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ جہاں غربت عام ہو، وہاں اخلاقی برائیاں، جرائم، ناانصافی اور محرومی بھی بڑھ جاتی ہیں۔ ایک ایسا سماج، جہاں لوگوں کو دو وقت کی روٹی بھی میسر نہ ہو، ترقی اور خوشحالی کا خواب کیسے دیکھ سکتا ہے؟

اسلام (جو ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے) نے غربت کے اسباب کو واضح کیا اور اس کے خاتمے کے لیے بہترین اصول عطا کیے، جن پر عمل کر کے معاشرتی توازن پیدا کیا جا سکتا ہے۔

غربت کے بنیادی اسباب:

غربت کے کئی اسباب ہیں، جو فرد اور معاشرے دونوں کی کوتاہیوں کی وجہ سے وجود میں آتے ہیں۔ ان میں سے چند اہم درج ذیل ہیں:

(1)۔۔۔ معاشی ناانصافی:

غربت کی سب سے بڑی وجہ معاشی ناہمواری اور دولت کی غیر منصفانہ تقسیم ہے۔ جب وسائل اور سرمایہ چند افراد کے ہاتھوں میں سمٹ کر رہ جائے اور غریبوں کے لیے ترقی کے مواقع میسر نہ ہوں، تو سماجی تفاوت بڑھ جاتا ہے۔ نتیجتاً امیر مزید امیر اور غریب مزید پسماندہ ہو جاتا ہے۔ اسلام نے دولت کی منصفانہ تقسیم پر زور دیا اور زکوٰۃ، صدقات، فدیہ، کفارہ اور عطیات جیسے معاشی اصول متعین فرمائے، تاکہ کوئی فرد بنیادی ضروریات سے محروم نہ رہے۔

(2)۔۔۔ سودی نظام اور حرام ذرائع سے کمائی:

سود ایک ایسا حرام فعل ہے جو معاشی تباہی کا سبب بنتا ہے۔ جب سرمایہ دار طبقہ غریبوں کو بھاری قیمت سود پر قرض دیتا ہے، تو وہ قرض کے بوجھ تلے دب کر مزید بدحالی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ سودی معیشت صرف چند افراد کو فائدہ پہنچاتی ہے، جبکہ عام آدمی کے لیے یہ تباہی کا ذریعہ بنتی ہے۔ اسلام نے سود کو قطعی حرام قرار دیا اور حلال روزی کے لیے تجارت، محنت اور قرضِ حسنہ کو فروغ دیا، تاکہ دولت کا بہاؤ متوازن رہے اور ہر فرد اپنی ضروریات پوری کر سکے۔

(3)۔۔۔ بے روزگاری اور کاہلی:

جب معاشرے میں روزگار کے مواقع کم ہوں، تو لوگ بنیادی ضروریات پوری کرنے سے بھی عاجز ہو جاتے ہیں۔ بے روزگاری کے باعث نہ صرف غربت میں اضافہ ہوتا ہے، بلکہ چوری، ڈاکہ زنی، دھوکہ دہی اور دیگر سماجی برائیاں بھی جنم لیتی ہیں۔ اسی طرح کاہلی اور سستی بھی غربت کا ایک بڑا سبب ہے۔ جو قومیں محنت اور جدوجہد سے گریز کرتی ہیں، وہ ہمیشہ دوسروں کی محتاج رہتی ہیں۔ اسلام نے ہمیشہ محنت اور دیانت داری کی تعلیم دی ہے، تاکہ ہر فرد اپنی روزی خود کمائے اور دوسروں پر بوجھ نہ بنے۔

(4)۔۔۔ تعلیم کی کمی:

تعلیم کسی بھی قوم کی ترقی اور خوشحالی کا ضامن ہے۔ جو قومیں تعلیم سے محروم رہتی ہیں، وہ ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جاتی ہیں۔ جب کسی فرد کے پاس علم اور ہنر نہ ہو، تو وہ اچھے مواقع سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا اور ہمیشہ دوسروں پر انحصار کرتا ہے۔ اسلام نے علم حاصل کرنے پر زور دیا، کیونکہ تعلیم وہ ذریعہ ہے، جو انسان کو خود مختار بناتا ہے اور غربت سے نجات دلاتا ہے۔

(5)۔۔۔ غیر ضروری اخراجات اور اسراف:

بہت سے لوگ اپنی آمدنی کو صحیح طریقے سے خرچ نہیں کرتے۔ فضول خرچی، غیر ضروری اخراجات اور نام و نمود کی خواہش انہیں قرض میں جکڑ دیتی ہے اور وہ غربت کے دائرے میں پھنس جاتے ہیں۔ اسلام اعتدال اور میانہ روی کی تعلیم دیتا ہے اور اسراف کو ناپسند فرماتا ہے، کیونکہ فضول خرچی انسان کو محتاجی اور تنگ دستی کی طرف لے جاتی ہے۔

غربت کے خاتمے کے اسلامی اصول:

اسلام نے غربت کے خاتمے کے لیے بہترین اصول وضع کیے ہیں، جن پر عمل کر کے نہ صرف ایک فرد بلکہ پورے معاشرے کو خوشحالی کی راہ پر گامزن کیا جا سکتا ہے۔

(1)۔۔۔ زکوٰۃ اور صدقات کی ادائیگی:

اسلام میں زکوٰۃ ایک ایسا فریضہ ہے، جو دولت کو گردش میں رکھتا ہے اور اسے چند افراد کے ہاتھوں میں محدود ہونے سے بچاتا ہے۔ اگر ہر صاحبِ نصاب مسلمان ایمانداری سے زکوٰۃ ادا کرے اور صدقات دے، تو معاشرے میں کوئی غریب بھوکا نہ رہے۔

قرآن میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَفِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ (الذاریات: 19)

ترجمہ کنزالایمان: اور ان کے مالوں میں حق تھا منگتا اور بے نصیب کا۔

(2)۔۔۔ حلال روزی اور تجارت کو فروغ دینا:

اسلام نے حلال کمائی پر زور دیا اور تجارت کو پسند فرمایا۔ اگر معاشرے میں تجارت، زراعت اور صنعت کو فروغ دیا جائے، تو بے روزگاری اور غربت میں نمایاں کمی ہو سکتی ہے۔ اسی طرح اسلامی اصولوں کے مطابق مالی معاملات کو شفاف بنایا جائے، تاکہ ہر فرد معاشی ترقی میں برابر کا شریک ہو سکے۔

(3)۔۔۔ سودی نظام کا خاتمہ:

اسلام نے سود کو سختی سے ممنوع قرار دیا، کیونکہ یہ استحصال اور غربت کا سبب بنتا ہے۔ اگر حکومتیں اور سماج سودی معیشت کو ختم کر کے حلال ذرائع کو فروغ دیں، تو غربت کا خاتمہ ممکن ہے۔

(4)۔۔۔ تعلیم اور ہنر عام کرنا:

تعلیم ہر انسان کا بنیادی حق ہے، جو اسے غربت سے نکال کر ترقی کی راہ پر گامزن کر سکتا ہے۔ اگر ہر فرد کو مناسب تعلیم اور ہنر سکھایا جائے، تو وہ اپنے پیروں پر کھڑا ہو سکتا ہے اور دوسروں پر انحصار کرنے کے بجائے خود کفیل بن سکتا ہے۔

(5)۔۔۔ میانہ روی اور کفایت شعاری:

اسلام نے فضول خرچی سے منع فرمایا اور میانہ روی کو بہترین طریقہ قرار دیا۔ اگر ہم اپنی آمدنی کو سوچ سمجھ کر خرچ کریں، تو نہ صرف مالی مشکلات سے بچ سکتے ہیں بلکہ دوسروں کی مدد بھی کر سکتے ہیں۔

غربت ایک ایسی حقیقت ہے، جس کا خاتمہ محض نعرے بازی سے ممکن نہیں بلکہ اس کے لیے عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ اگر ہم اسلامی تعلیمات پر عمل کریں، دولت کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنائیں، زکوٰۃ اور صدقات کا نظام مضبوط کریں، سودی معیشت سے نجات حاصل کریں، تعلیم کو عام کریں اور محنت و دیانت داری کو اپنا شعار بنائیں، تو ایک ایسا سماج تشکیل دیا جا سکتا ہے، جہاں کوئی بھی شخص فقر و فاقہ کا شکار نہ ہو۔

اسلام نے جو اصول دیے ہیں، وہ نہ صرف غربت کے خاتمے کا ذریعہ ہیں بلکہ ایک فلاحی اور ترقی یافتہ معاشرے کی بنیاد بھی فراہم کرتے ہیں۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ ہم ان تعلیمات کو عملی جامہ پہنائیں، خود بھی عمل کریں اور دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دیں، تاکہ ہمارا معاشرہ حقیقی معنوں میں خوشحال اور خود کفیل بن سکے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی
WhatsApp Profile
لباب-مستند مضامین و مقالات Online
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مرحبا، خوش آمدید!
اپنے مضامین بھیجیں