✍️ رائٹرز کے لیے نایاب موقع! جن رائٹر کے 313 مضامین لباب ویب سائٹ پر شائع ہوں گے، ان کو سرٹیفکیٹ سے نوازا جائے گا، اور ان کے مضامین کے مجموعہ کو صراط پبلیکیشنز سے شائع بھی کیا جائے گا!

حاصل و لاحاصل

عنوان: حاصل و لا حاصل
تحریر: مفتیہ رضؔی امجدی غفر لھا

وقت کے ساتھ ساتھ خواہشات کا بڑھتا تسلسل انسان کی ذہنی تنزلی میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ حق کو قبول کرنے والی ذہنیت ماند پڑ چکی ہے۔ حاصل کی ناقدری اور لا حاصل پہ رونا انسان کی سرشت میں شامل ہو چکا ہے۔ لا حاصل خواہشوں نے اس کا سکون تباہ کر ڈالا ہے اور بے سکونی اس کا مقدر بن چکی ہے، بلکہ آج کا عصری کرب یہی ہے کہ انسان کثیر القاصد ہو کر رہ گیا ہے۔

یاد رکھیں! حرص کا ایک سرا ہمارے ہاتھ میں ہے، دوسرے کی خبر نہیں۔ اگر تمام کائنات بھی ہمارے قدموں میں لا کر رکھ دی جائے، تب بھی خواہشات کا تسلسل جوں کا توں باقی رہے گا۔ اس لیے لا حاصل کی فہرست بناتے بناتے حاصل پر بھی ایک نظر ضرور ڈالیں۔

اللہ رب العزت نے بے شمار نعمتیں عطا فرمائی ہیں۔ چشم بینا ہو تو نظر آئے۔ اس کائنات میں جتنی نعمتیں ہیں، جتنی رعنائیاں ہیں، وہ سب انسان کے وجود کے دم سے ہیں، تو اپنے ہونے کا شکر ادا کرے۔ اس عالم کے حسن کا دوسرا نام انسان کی آنکھیں ہیں، اپنی آنکھوں کا شکر ادا کیا کرے۔ اس دل کا شکر ادا کیا کرے جو ہمہ وقت متحرک رہ کر اسے زندگی بخشتا ہے۔

کیا اللہ نے کم نعمتوں سے نوازا ہے؟ انسان اگر بصیرت کی نظر سے دیکھے تو ذرے میں صحرا کی وسعتیں جلوہ گر ہیں، قطروں میں قلزم کی پہنائی ہے، کرنوں میں آفتاب کی دریافت ہے، حباب میں دریا مقدر ہے۔ کوئی دیکھے تو سہی! چشم وا ہو تو معلوم ہو۔ مگر آج کا انسان اللہ کی تقسیم پر راضی نہیں، وہ گلے شکوے کر رہا ہوتا ہے کہ فلاں کے پاس گاڑی ہے، بنگلہ ہے، گھر ہے، میرے پاس تو کچھ بھی نہیں۔

یاد رہے! اللہ کی تقسیم پر گلہ ہی زوال نعمت کی ابتدا ہے۔ میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

انظروا الی من ھو اسفل منکم و لا تنظروا الی من ھو فوقکم۔ (بلوغ المرام/كتاب الجامع/باب الأدب: 1237)

ترجمہ: ہمیشہ اس شخص کو دیکھو جو تم سے کم درجے کا ہے اور اس شخص کی طرف نہ دیکھو جو تم سے اعلی درجے پر فائز ہے۔

پرسکون اور خوشیوں سے لبریز زندگی گزارنے کا یہی نسخۂ کیمیا ہے۔ مگر!

انسان کا غم انگیز سانحہ یہی ہے کہ وہ صرف منفی کو ہائی لائٹ کرتا ہے، مثبت کو ہائی لائٹ نہیں کرتا۔ لا حاصل آرزوئیں اس کا مرکزِ نظر بن چکی ہیں۔ لا حاصل کی تلاش میں ایسے سرگرداں ہے کہ آبلہ پائی کا شکار ہو چکا ہے اور حاصل سے مطمئن نہیں۔ عموماً کثرتِ نعمت کا حصول شوقِ خود نمائی کی تکمیل کے لیے ہوتا ہے، اور اسی خود نمائی کے زہر نے انسان کے ذہن و فکر کو مسموم کر کے رکھ دیا ہے کہ وہ اب نعمتوں کے ادراک سے محروم ہو چکا ہے۔

بلکہ! لا حاصل کا رونا رونے کے بجائے انسان کو چاہیے کہ اگر کوئی ایک نعمت کمزور پڑ جائے تو دوسری نعمتوں کا شکر ادا کرنا شروع کر دے۔

اللہ رب العزت فرماتا ہے:

لَىٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّكُمْ وَ لَىٕنْ كَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ (ابراھیم:8)

ترجمہ کنز الایمان: اگر تم میرا شکر ادا کرو گے تو میں تمہیں اور زیادہ عطا کروں گااور اگر تم ناشکری کرو گے تو میرا عذاب سخت ہے۔

کثرتِ نعمت کے حصول کا تقاضا یہی ہے کہ حاصل نعمتوں کا شکر ادا کیا جائے۔ مگر انسان سفر کیے بغیر منزل کی طلب میں جاں بلب ہے، بے معنی تگ و دو میں مصروف ہے، محض بے نام منزلوں کے لیے۔۔۔ جن کی مسافت لا محدود ہے۔۔۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ سرابِ نظر ہے، ہمیشہ آنکھیں بند کر کے احساسِ خود فریبی کی پرورش کرتا ہے، اور لا حاصل کے پیچھے بھاگتے بھاگتے بالآخر اپنا حاصل بھی خراب کر لیتا ہے۔

اس کی نظریں لا حاصل پر ٹک چکی ہیں، یہی وجہ ہے کہ انسان کا آنگن پھولوں سے بھرا ہے مگر وہ رنگوں اور خوشیوں کے طلسمات سے لطف اندوز ہونا بھول چکا ہے۔ اس کے پاس خوشیوں کے سارے ذرائع موجود ہیں، مگر وہ خوش نہیں۔ اس کے پاس سب کچھ ہو کر بھی کچھ نہیں ہے۔

یہ سوچ کے طلسمات ہیں، فکر کے کرشمے ہیں۔ اندازِ نظر بدل جائے تو نظارے بدل جاتے ہیں۔ جس طرح شبنم کے قطرے صبح کی مسکراہٹ بھی ہیں اور رات کے آنسو بھی، بس دیکھنے والی نظر چاہیے۔

لہذا! اندازِ نظر بدلیں، چشمِ بینا پیدا کریں، نعمتِ الٰہیہ کا ادراک کریں۔ اللہ کی عطا کردہ نعمتوں پر راضی رہیں اور اپنے گناہوں کو حلقۂ تاثیر میں سند نہ بنائیں، ورنہ ہماری سرکشی اور خود پسندی کی سزا یہی ہے کہ ہمیں اندر سے دبوچ لیا جائے۔ ہمارا ظاہر بے خراش ہونے کے باوجود ہمارا باطن قاش قاش ہو کر رہ جائے۔

گرچہ! اللہ رب العزت کی نعمتوں کا شمار ممکن نہیں ہے۔ وہ خود فرماتا ہے:

وَ اِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ لَا تُحْصُوْهَاؕ (النحل:18)

ترجمہ کنز الایمان: اور اگر تم اللہ کی نعمتیں گنو تو انہیں شمار نہیں کرسکو گے، بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔

مگر! انسان اس کی ثناء و شکر کے بیان سے اپنی عجز و خاکساری کا اظہار کرتا رہے اور یوں گویا ہو:

"یا رب لك الحمد حمداً نستلذ به ذکرا، و إن کنت لآ اُحصی ثناءً و لا شکرا۔"

اے مرے کبریا!

میرا حاصل؟ تری آگہی کی عطا!

میرے لفظوں کی سانسیں، ترا معجزہ!

میری سوچوں کی سطریں،

تری جستجو کی مسافت میں

گم راستوں کا پتا۔۔۔!

اے مرے کبریا!

اخیر میں حق جل مجدہ سے دعا گو ہوں کہ وہ اپنی نعمتوں کا ادراک کرنے والی عقل، اسے دیکھنے والی نظر، اور قبول کرنے والا دل نصیب فرمائے۔ اور ہمارے خرد کی کم مائیگی کو سرمایۂ جنون عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین بجاه سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم۔

2 تبصرے

  1. بہت بہترین
    نہایت ہی عمدہ
    لائق ستائش
    قابل داد و تحسین
    یہ ویب سائٹ وقت کی ضرورت ہے
    لوگوں کی محنتوں ان کی کاوشوں کو نئ روشنی بخشنے کا کام فراہم کر رہی ہے

    اللہ مزید ترقی عطا فرماۓ
    اور اس ٹیم کے مقاصد کو پورا فرمائے عزائم کو بلند فرمائے۔ تادم زیست دین کی خدمات خلوص و للہیت کے ساتھ سر انجام دینے کی سعادت نصیب فرمائے۔ آمین

    جواب دیںحذف کریں
  2. آمین ما شاء اللہ تعالیٰ
    رب کریم ہمیں اپنی رضا میں راضی رہنے کی توفیق عطا فرمائے اور حاصل شدا نعمتوں کا شکر گزار بنائے آمین

    جواب دیںحذف کریں
جدید تر اس سے پرانی
WhatsApp Profile
لباب-مستند مضامین و مقالات Online
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مرحبا، خوش آمدید!
اپنے مضامین بھیجیں