عنوان: | حضرت عزیز ملت کا ناصحانہ خطاب |
---|---|
تحریر: | محمد عارف مصباحی الخیرآبادی |
جامعہ اشرفیہ، مبارک پور میں آج صبح سے ہی طلبہ کے درمیان یہ خبر گردش کر رہی تھی کہ حضرت عزیز ملت، حضور حافظِ ملت کے فرزندِ ارجمند، جامعہ میں طلبہ کو نصیحت آموز خطاب فرمائیں گے۔
یہ خبر اس وقت تصدیق کی منزل کو پہنچی جب چھٹی گھنٹی، یعنی تقریباً گیارہ بجے، کلاس کی اختتامی گھنٹی بجی اور طلبہ کو مسجد جانے کے لیے مؤذن خانے سے اعلان ہوا۔
اعلان سنتے ہی طلبہ اِدھر اُدھر جانے لگے، لیکن اسی دوران ماسٹر فیاض اپنی گرجدار آواز کے ساتھ عزیزی ہاسٹل میں داخل ہوئے اور طلبہ کو مسجد جانے کی تاکید کی۔
ان کی آمد پر طلبہ تیزی سے مسجد کی جانب روانہ ہوئے۔
محفل کا آغاز تلاوتِ قرآنِ پاک سے ہوا۔ قاری صاحب نے اپنی لحنِ داؤدی سے محفل کو سماع کی کیفیت سے معمور کر دیا۔
بعد ازاں نعتِ رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وسلم اور قصیدۂ بردہ شریف پیش کیا گیا، جس سے یوں محسوس ہو رہا تھا کہ پوری محفل رحمتِ انوار کے سائے میں آ گئی ہے۔ محفل کا ماحول انتہائی نورانی اور محبت بھرا تھا۔
ترجمانِ جامعہ اشرفیہ و اساتذۂ جامعہ اشرفیہ میں سے استاذِ محترم مولانا مسعود احمد برکاتی صاحب مائیک پر تشریف لائے اور اپنے نصیحت آموز اور تربیتی بیان کا آغاز فرمایا۔ حضرت نے مختصر وقت میں جامعہ کی تمام خوبیوں کا احاطہ کیا اور اساتذہ کی علمی لیاقت اور صلاحیت پر روشنی ڈالی۔
انہوں نے بتایا کہ یہاں علماء کرام کا ایک نورانی قافلہ موجود ہے، جو ہر وقت آپ کی خیر خواہی کے لیے کوشاں رہتا ہے۔ تعلیم کے لیے عمدہ ماحول کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے انہوں نے جامعہ کی وسیع و عریض مسجد "عزیز المساجد" کا ذکر کیا، جہاں آپ نماز کے ساتھ ساتھ تکرار اور اسباق کی یاد دہانی بھی کر سکتے ہیں۔
ڈائننگ ہال کی پُرشکوہ عمارت، جہاں آپ کی سہولت کے تمام لوازمات مہیا کیے گئے ہیں، اور عمدہ ماحول کے لیے پارک، درخت اور فلک بوس عمارات کا ذکر بھی کیا، جن کے دیدار سے آنکھیں ٹھنڈی ہو جاتی ہیں۔
آخر میں حضرت نے طلبہ کے بہترین مستقبل کے لیے دعا کی اور تعلیم کے لیے تین ضروری امور پر روشنی ڈالی:
مطالعہ کرنا، استاد کی تقریر کو غور سے سننا اور اس پر عمل پیرا ہونا۔
پھر وہ لمحہ آیا جس کے لیے اس محفل کا خصوصی اہتمام کیا گیا تھا۔ حضور حافظِ ملت کے فرزند، سربراہِ اعلیٰ الجامعۃ الاشرفیہ، حضرت علامہ مولانا عبدالحفیظ صاحب مسندِ خطابت پر جلوہ افروز ہوئے اور اپنے نصیحت آموز کلمات سے طلبہ کو نوازنا شروع کیا۔
دورانِ خطاب حضرت نے فرمایا:
عزیز طلبہ! آپ کے والدین نے آپ کو بہترین تعلیم و تربیت کے لیے جامعہ اشرفیہ میں داخل کرایا ہے تاکہ آپ ایک باعمل عالمِ دین بن کر یہاں سے فارغ ہوں۔
لہٰذا والدین کی خواہشات کا احترام کریں اور ان کی محنت کی قدر کریں تاکہ وہ آپ سے مایوس نہ ہوں۔ مدرسے کا ماحول آپ کو بے حد متاثر کرے گا؛ اس کی سیرت و کردار کو اپنے لیے قابلِ تقلید سمجھیں۔ یہاں آپ کی سیرت اور شخصیت پر جو نقوش ثبت ہوتے ہیں، وہ زندگی بھر قائم رہتے ہیں۔
ہم یہ جامعہ اسی لیے چلا رہے ہیں تاکہ آپ محنتِ شاقہ کر کے ایک بہترین عالمِ دین بنیں اور دینِ حنیف، مسلکِ اہلِ سنت و الجماعت اور مسلکِ اعلیٰ حضرت کی آبیاری کے لیے اپنی زندگی کو وقف کریں۔ تعلیماتِ حافظِ ملت کو دنیا بھر میں عام کریں۔
حضرت نے امتحان میں ناکامی کے اسباب کی بھی نشاندہی کی، جن میں موبائل کے بے جا استعمال اور انٹرنیٹ کے نقصانات پر تفصیلی گفتگو کی۔
انہوں نے مطالعۂ کتب کی اہمیت و افادیت پر مفید باتیں بتائیں اور فرمایا کہ صاحبِ مطالعہ، صاحبِ کتب کے فیضان سے بھی بہرہ ور ہوتا ہے
نماز کی اہمیت و فرضیت پر بھی سیر حاصل گفتگو فرمائی۔ طلبہ کو گروپ بندی اور علاقائی تعصبات سے منع کرتے ہوئے سختی سے کہا کہ;
اگر ہمارے پاس کسی کی کوئی شکایت آئی تو معافی نہیں ملے گی سخت سے سخت کارروائی ہوگی۔ آپ حضرات یہاں پڑھنے آئے ہیں تو دل جمعی کے ساتھ اپنی تعلیم و تربیت میں تسلسل کے ساتھ منہمک ہو جائیں۔ اِن شاء اللہ تعالیٰ محنت رنگ لائے گی۔
بعد ازاں حضرت عزیز ملت کی دعا پر اس نصیحت آموز محفل کا اختتام ہوا۔
حضرت نے طلبہ کے روشن مستقبل کے لیے دعائیں کیں۔
اللہ پاک حضرت عزیز ملت کا سایۂ عاطفت ہمارے سروں پر دراز فرمائے اور ہمیں ان کے راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین صلی اللہ علیہ وسلم۔