عنوان: | ہر حدیث بیان کرنے والا قابل اعتماد نہیں |
---|---|
تحریر: | عمران رضا عطاری مدنی بنارسی |
ہر حدیث بیان کرنے والے کی بات قابلِ اعتبار نہیں ہوتی اور ضروری نہیں کہ وہ شخص بھی معتبر ہو۔ علما کا لبادہ اوڑھ کر بد مذہب اور گستاخ لوگ بھی علم بانٹنے آ جاتے ہیں۔
مرزا جیسے لوگ جب حدیث پڑھتے ہیں تو بعض نادان اور بھولے بھالے سنی (جنہیں خود علم نہیں ہوتا) یہ سمجھتے ہیں کہ اسے حدیث کا بڑا علم ہے۔ وہ بہت جلد اس سے متاثر ہو کر اپنے ایمان میں کمزوری کا شکار ہو جاتے ہیں۔
کسی بھی اسپیکر اور مقرر کا بیان سننے اور اس سے متاثر ہونے سے قبل ہمیں یہ چیک کرنا چاہیے کہ وہ اہلِ سنت سے ہے یا بدعتی شخص ہے، جس کے عقائد قرآن و حدیث کے مخالف ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ قال اللہ و قال رسول اللہ کہہ کر وہ لوگوں کو گمراہ کرنے کی روش میں مبتلا ہو؟
ہمارے اسلاف بھی ہر حدیث بیان کرنے والے کی بات کو قابلِ اعتبار اور قابلِ اعتماد نہیں جانتے تھے، بلکہ پہلے اس کے نظریات کو جانچتے تھے۔ چنانچہ امام حاکم نیشاپوری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
حضرت معاذ بن مثنی عنبری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
”میں نے علی بن مدینی رحمۃ اللہ علیہ سے ابو اسرائیل ملائی کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ اس کی حدیثوں پر نہ جانا، کیوں کہ وہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا برائی سے ذکر کرتا ہے۔“ (حاکم: معرفة علوم الحديث، ص: 126)
اسی طرح، ایک شخص نے ایسی حدیث بیان کی جس میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی گستاخی تھی، تو حضرت منصور بن معتمر رحمۃ اللہ علیہ بآواز بلند فرمانے لگے: ”تو نے جھوٹ بولا، تو نے جھوٹ بولا۔“ (حاکم: معرفة علوم الحديث، ص:135)
اسی لیے کسی کا بیان سننے سے پہلے سو مرتبہ غور کر لینا چاہیے کہ میں جس کا بیان سن رہا ہوں، جس سے احادیث اور مسائل سن رہا ہوں، کہیں وہ صحابہ کرام اور اسلاف کا گستاخ تو نہیں؟ کہیں وہ ان کے متعلق بے باک انداز اختیار کرنے والا تو نہیں؟
کہیں وہ ”بابے تے شئے کوئی نہیں“ جیسے مردود نعرے بازی کرنے والوں میں سے یا ان کا حامی تو نہیں؟ آج کل ہر دوسرا شخص قرآن و حدیث کھول کر درسِ حدیث دینا شروع کر دیتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ مجھ سے زیادہ تو احادیث کا علم امام بخاری کو بھی نہ تھا! حالانکہ ان لوگوں کو عقائد تک کا صحیح علم نہیں ہوتا۔
پینٹ شرٹ میں آ کر وہ لونڈے، جو کل تک بازاروں میں آوارہ گردی کرتے تھے، آج سوشل میڈیا پر احادیث سنا رہے ہیں۔ یاد رکھیے! بیان اور درس اسی کا سنیں جو عقائد و اعمال میں مضبوط ہو، نہ کہ اس کا جو درس کے نام پر خرافات پیش کرتا ہو۔
حضرت حسین بن واقد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
”ایک مرتبہ میں کوفہ میں سدی (مشہور مفسر) کے پاس گیا اور کتاب اللہ کی ستر (70) آیتوں کی تفسیر کے متعلق سوال کیا۔ وہ مجھ سے بیان کرنے لگا، اسی دوران اس نے حضرت ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہما کو گالی دی، تو اس کے بعد میں نے اس کے پاس جانا ہی چھوڑ دیا۔“ (حاکم: معرفة علوم الحديث، ص: 134)
ہمیں بھی چاہیے کہ جب کسی شخص کو صحابہ کرام اور اسلاف کی گستاخی کرتے، ان کی شان میں نازیبا کلمات استعمال کرتے ہوئے پائیں، تو فوراً اس سے الگ ہو جائیں۔ نہ اس کا سنگ ساتھ ہو، نہ اس کی محفلوں میں جائیں اور نہ ہی سوشل میڈیا پر اس سے کسی قسم کے تعلقات رکھیں۔
اسی میں عافیت اور ہمارے ایمان کی حفاظت ہے۔ اللہ ہمارے ایمان کی حفاظت فرمائے۔ آمین!