عنوان: | حجاب ہماری ذمہ داری |
---|---|
تحریر: | سلمیٰ شاھین امجدی کردار فاطمی |
ہمارے ملک ہندوستان میں حجاب کا مسئلہ وقتاً فوقتاً زیرِ بحث آتا رہتا ہے۔ بعض لوگ حجاب کو غیر ضروری سمجھتے ہیں اور اسے عورت کے لیے قید خانہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ حجاب عورت کی عزت و عصمت کا محافظ ہے۔
افسوس کا مقام یہ ہے کہ حجاب کو سب سے زیادہ خطرہ کسی اور سے نہیں، بلکہ ہماری اپنی جہالت، بے توجہی، بے عملی اور ناقدری سے ہے۔ اگر ہم نے اپنے گھروں میں شرعی پردے کو نافذ نہ کیا تو معاشرتی بگاڑ کا راستہ ہم خود ہموار کریں گے۔
حجاب کو خطرہ کہاں سے ہے؟
حجاب کو خطرہ حکومت یا فرقہ پرست جماعتوں سے نہیں، بلکہ ہماری بے عملی سے ہے۔ قوانین تب بنتے ہیں جب ہماری بداعمالیاں سامنے آتی ہیں۔
اس لیے ہمیں سوچنا ہوگا کہ کیا ہم نے اپنے گھروں میں شرعی پردے کا نظام قائم کیا ہے؟ اگر ہم اپنی بیٹیوں کو نامناسب لباس پہنا کر مخلوط تعلیمی اداروں میں بھیجتے ہیں تو اس کے ذمہ دار ہم خود ہیں۔
اس پر آواز اٹھانے والوں سے مطالبہ بعد میں کریں، پہلے اپنے گھروں میں اسلامی احکام کو زندہ کریں۔
معاشرتی بگاڑ کی اصل وجہ:
ڈاؤری کیس اور ٹرپل طلاق جیسے قوانین ہماری بداعمالیوں کی وجہ سے بنے۔
جب ہم اپنی بیٹیوں کو بے پردہ رکھتے ہیں، غیر محرموں کے سامنے پیش کرتے ہیں، اور معاشرتی تقریبات میں حسن و جمال کی نمائش کرواتے ہیں، تو اس کا انجام یہی ہوگا کہ بے حیائی عام ہوگی اور معاشرتی بگاڑ بڑھتا جائے گا۔
اس لیے وقت آگیا ہے کہ: اپنے گھروں میں شرعی ماحول پیدا کریں۔ نوجوان بیٹیوں اور بیویوں کو چچا زاد یا خالہ زاد بھائیوں سے پردہ کروائیں۔
ہمارے معاشرتی رویے ہی اس بگاڑ کی اصل وجہ ہیں، ہمیں اپنی اصلاح کرنی ہوگی۔
ترکی کے مدارس میں جب کوئی لڑکی بلوغت کو پہنچتی ہے تو وہ اپنے جیب خرچ سے برقع خریدتی ہے۔
مدرسے میں اس کے لیے خصوصی تقریب منعقد ہوتی ہے، جس میں وہ عہد کرتی ہے کہ وہ برقعے کو کبھی بدنام نہیں کرے گی اور ہر حال میں شرعی پردے کی پابندی کرے گی۔
ترکی کا یہ عظیم نمونہ ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ اگر ہم اپنی نسلوں میں دینی شعور پیدا کریں تو کوئی قوت انہیں اسلامی اقدار سے محروم نہیں کر سکتی۔
لیکن افسوس! ہمارے معاشرے کا حال تو یہ ہے کہ: کالی چادر اوڑھ لینا یا چند قریبی نامحرموں سے پردہ کر لینا ہی پردہ سمجھ لیا جاتا ہے، جبکہ اصل پردہ وہ ہے جو دل و دماغ میں راسخ ہو جائے۔
مردوں کی ذمہ داری:
پردے کی ذمہ داری صرف عورتوں پر نہیں بلکہ مردوں پر بھی ہے۔ مردوں کو ہمیشہ یہ سوچنا چاہیے کہ: ہم میں سے کتنے ایسے ہیں جو بازار میں اپنی نگاہیں نیچی رکھتے ہیں؟
اگر ہماری بہن کے ساتھ کوئی غلط حرکت کرے تو یہ جرم ہے، لیکن اگر ہم کریں تو کوئی مسئلہ نہیں؟
اس لیے ہمیں سب سے پہلے اپنی اصلاح کرنی ہوگی، کیونکہ: ”جو قوم اپنے اندر کے فرعون کو ختم نہیں کر سکتی، وہ باہر کے فرعون کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔“
عملی اقدامات:
مسئلۂ حجاب کا حل شکایات کرنے میں نہیں، بلکہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے اور ان پر عمل کرنے میں ہے۔
اگر ہم نے اپنے گھروں میں پردے کو زندہ نہ کیا تو باہر کے حالات کبھی نہیں بدلیں گے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ امتِ مسلمہ کو شرعی پردے کی عظمت کو سمجھنے اور اسے اپنی زندگیوں میں نافذ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
ما شاء اللہ تعالیٰ
جواب دیںحذف کریںبہترین