عنوان: | ہندوستان کے موجودہ فرقے |
---|---|
تحریر: | مفتی شریف الحق امجدی رحمۃ اللہ علیہ |
پیش کردہ: | مولانا عظیم شیخ عطاری |
وہابی:
یہ فرقہ ہندوستان میں نجد سے آیا۔ اس کی بنیاد محمد بن عبدالوہاب نجدی کی کتاب التوحید پر ہے۔ اس فرقے کے بانی مولوی اسماعیل بن عبدالغنی بن ولی اللہ دہلوی ہیں۔
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی گیارہویں صدی کے آخر میں ہندوستان کے ایک بہت زبردست عالم اور بڑے پیر تھے۔ ان کا اثر پورے ہندوستان پر تھا بلکہ ہندوستان کے باہر بھی تھا۔ ان کے صاحبزادے شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی تھے، جو دہلی کے ایک بہت بڑے مرکزی عالم تھے۔
مولوی اسمعیل دہلوی، چونکہ شاہ ولی اللہ کا پوتا اور شاہ عبدالعزیز کا بھتیجا اور شاگرد بھی تھا، عوام میں بزرگ پرستی عام ہے، جس کے نتیجے میں اپنے استاد اور پیر کی اولاد کو پیروں کی طرح ماننے کا جزبہ موجود ہے۔
اس کی وجہ سے مولوی اسمعیل دہلوی کے ماننے والوں کی اچھی خاصی تعداد دہلی اور اس کے علاقوں میں موجود تھی چونکے ان کے والدین کا بچپن ہی میں انتقال ہو گیا تھا اس لئے ان کی کما حقہ تربیت نہیں ہو سکی۔ ساتھ ہی ساتھ فطری طور پر منچلے اور شوخ اور نئی نئی باتوں کے گرویدہ تھے۔
یہ دور وہ تھا کہ مغلیہ سلطنت دم توڑ رہی تھی ۔ انگریز پورے طور پر اس کو اپنی مٹھی میں لے چکے تھے۔ صرف دہلی پر مغل شہنشاہ کی حکومت رہ گئی تھی۔ وہ بھی برائے نام۔ ان کی حیثیت انگریزوں کی وظیفہ خوار کی کی تھی۔ پورے پنجاب پر سکھ قابض ہو چکے تھے۔
البتہ پشاور اور سرحد کے لوگ آزاد تھے۔ مولوی اسمعیل کے اندر بادشاہ بنے کا خبط پیدا ہوا انہوں نے پہلے ایک کتاب لکھی جس کا نام ”تقویۃ الایمان“ رکھا اس میں انہیں عقائد کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا جو ابن عبد الوہاب نجدی کی کتاب التوحید میں ہیں۔
ان عقائد کو پھیلانے کے لئے مسلمانوں میں دو تحریک چلائیں۔
ایک یہ کہ اللہ ہی کو مان۔ اوروں کو مت مان۔ اوروں کو ماننا خبط ہے۔ دوسرے یہ کہ قرآن مجید سمجھنے کے لئے بہت زیادہ علم کی ضرورت نہیں۔ عربی زبان جان لینا کافی ہے۔
اس لئے ان کو زیادہ دین کا علم حاصل کرنے کی ضرورت نہیں۔ اس سے وہ یہ فائدہ حاصل کرتا تھا کہ ہر عربی داں خود قرآن مجید کو سمجھے۔ قرآن مجید کے وہ معانی و مطالب جو صحابہ کرام اور ان کے بعد کے آنے والے مسلمانوں نے بتائیں ہیں ان کو ماننے کی ضرورت نہیں۔
تقویۃ الایمان میں مولوی اسمعیل دہلوی نے انبیاء کرام و اولیاء عظام کی شان میں بہت سے نازیبا الفاظ استعمال کئے۔
مثلا وہ ذرہ ناچیز سے کم تر ہیں۔ عاجز و نادان ہیں۔ زیادہ سے زیادہ ہمارے بڑے بھائی کی طرح ہیں بلکہ یہ بھی ایک جگہ لکھ دیا کہ ہر مخلوق بڑا ہو یا چھوٹا اللہ کی شان کے آگے چمار سے بھی ذلیل ہے۔ ایک جگہ لکھ دیا کہ جس کا نام محمد یا علی ہو وہ کسی چیز کا مالک و مختار نہیں۔ ایک جگہ رسول اللہ ﷺ کے بارے میں لکھا وہ مر کر مٹی میں مل گئے۔
تمام اہل سنت و جماعت کا عقیدہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ دوسرے انبیاے کرام و اولیا عظام قیامت کے دن اللہ عزوجل کی بارگاہ میں شفاعت فرمائیں گے انہوں نے جگہ جگہ اس کا بھی انکار کیا۔
تقویۃ الایمان کے بارے میں خود ان کا اپنا یہ خیال تھا اس سے شورش ہوگی۔ لڑائی اور جھگڑا ہوگا۔
چنانچہ ان کے اس گمان کے مطابق تقویۃ الایمان کے شائع ہونے کے بعد لڑائی جھگڑا اور شورش شروع ہوئی اس وقت کے تمام علمائے اہل سنت نے اس کا رد لکھا۔
خودان کے بھتیجے مولانا موسیٰ، مولانا مخصوص اللہ نے تقویت الایمان کا رد لکھا، جس کا نام معید الایمان ہے اس زمانے میں دہلی کے سب سے بڑے عالم علامہ فضل حق خیر آبادی نے بھی اس کا رد لکھا جس کا نام تحقیق الفتوی ہے۔
علامہ فضل حق خیر آبادی وہ بزرگ ہیں جنہوں نے 1857ء کے حادثے میں دہلی اور لکھنؤ دونوں جگہ انگریزوں سے با قاعدہ جنگ کی، جس کی سزا میں جزیرہ انڈمان جلا وطن کر دیئے گئے۔ وہیں ان کا انتقال بھی ہوا، وہیں ان کا مزار بھی ہے اس وقت کے علمائے اہل سنت کی متحدہ مخالفت کے نتیجے میں مولوی اسماعیل دہلوی کا مذہب وہابیت پنپ نہ سکا محدود دائرے میں رہ گیا۔
پھر کچھ دنوں کے بعد انگریزوں سے اجازت لے کر سکھوں کے خلاف جہاد کی تحریک میں چلائی، اس کے لیے پورے ملک کا دورہ کیا، جہاد کے نام پر مولوی اسماعیل کے ساتھ ایک بھیڑ جمع ہوگئی اور یہ اس بھیڑ کو لے کر صوبہ سرحد پہنچے، وہاں اس وقت مختلف سرداروں کی منتشر حکومتیں تھیں۔
سرحد کے جن سرداروں نے ان کا مذہب قبول کیا، ان کو اپنے ساتھ لیا، ور نہ انہیں تباہ و برباد کر دیا، یہاں تک کہ وہاں کے کچھ سردار جن کی سکھوں سے مسلسل جنگ چلی آرہی تھی، صلح کر لی اور مولوی اسماعیل سے بچنے کے لیے سکھوں کے ساتھ مل گئے، جن کے نتیجے میں مولوی اسماعیل بالا کوٹ میں قتل کر دیئے گئے۔
غیر مقلد:
دہلی میں کچھ لوگوں نے ان کی تحریک کو قبول کر لیا تھا، جن میں ایک مشہور عالم نذیر حسین دہلوی ہیں۔ یہ بہت قابل ذہین عالم تھے، انہوں نے اپنے طور پر فری (بلا معاوضہ) حدیث پڑھانا شروع کیا، اور اپنے شاگردوں کو وہابیت کی تلقین کی جو عقائد نجدی وہابیوں کے تھے ، وہی عقائد ان کے بھی تھے۔
بنیادی طور پر انہوں نے اپنے شاگردوں کو یہ سمجھایا کہ امام ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی وغیرہ نے قرآن واحادیث سے جو مسائل نکال کر فقہ کی کتابوں میں لکھے ہیں، وہ اکثر غلط ہیں۔
حدیث کی کتابیں موجود ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم براہ راست قرآن واحادیث سے مسائل نکالیں۔ یہ لوگ اپنے آپ کو اہل حدیث کہتے ہیں اور عرف عام میں انہیں ”غیر مقلد“ کہا جاتا ہے۔ ان سے اہل سنت کا سیکڑوں مسائل میں اختلاف ہے، جس کی تفصیل بہت طویل ہے۔
دیو بندی:
مولوی اسماعیل ہی سے متاثر ہو کر کچھ لوگ عقیدے میں ان کے ساتھ تھے۔ لیکن عملی طور پر وہ اپنے آپ کو حنفی کہتےتھے۔ یعنی عملیات میں حضرت امام اعظم ابو حنیفہ کے مقلد تھے اور تقلید کو واجب جانتے تھے۔
ایسی ہی لوگوں سے نانو تہ ضلع سہارن پور کے مولوی قاسم بانی مدرسہ دیو بند نے تعلیم حاصل کی۔ فراغت کے بعد دیو بند میں ایک مدرسہ کو دارالعلوم بنانے کی تحریک چلی جو وہاں کے مقامی لوگوں نے قائم کیا تھا۔
یہ مدرسہ دیوبند کی ایک مسجد میں (جس کا نام چھتہ کی مسجد ہے) قائم ہوا تھا۔
جب مدرسہ جم گیا تو مولوی محمد قاسم دیو بند پہنچ گئے اور مدرسے کو اپنے ہاتھ میں لے لیا اور اس مدرسے میں مولوی اسمعیل دہلوی اور عبدالوہاب نجدی کے عقائد کی تعلیم دینے لگے۔ ادھر مولوی رشید احمد گنگوہی نے اپنے وطن گنگوہ میں خانقاہ قائم کر لی اور پیری مریدی کا سلسلہ شروع کر دیا۔
اس طرح وہابیت کی دوسری شاخ وجود میں آئی۔ یہ لوگ تمام عقائد میں وہابیوں کے ہمنوا ہیں۔
دیو بندی اور غیر مقلدین میں عقیدے کے اعتبار سے کوئی اختلاف نہیں۔ اختلاف ہے تو صرف یہ کہ غیر مقلد کسی امام کی تقلید کو شرک سمجھتے ہیں اور دیو بندی تقلید کو واجب جانتے ہیں اور اپنے آپ کو حنفی کہتے ہیں۔
غیر مقلد پیری مریدی کو حرام اور بدعت کہتے ہیں اور دیو بندی بہت دھوم سے پیری مریدی کرتے ہیں۔ ان لوگوں کا اہل سنت سے عقیدے کا اختلاف یہ ہے:
تمام اہل سنت کا عقیدہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انبیا کو خصوصاً محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو علم غیب عطا فرمایا اور دیو بندی یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی کے لیے علم غیب ثابت کرنا شرک ہے۔
تمام اہل سنت میلاد، نیاز، عرس، فاتحہ کرتے ہیں اور دیو بندی اس کو حرام و بدعت کہتے ہیں۔ اور بھی چھوٹے چھوٹے بہت سے اختلافات ہیں۔ خاص دیوبندیوں کے مزید عقائد یہ ہیں۔
(1)...
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس معنی کر خاتم الانبیا نہیں کہ آپ سب میں آخر نبی ہیں اگر آپ کے زمانے میں یا آپ کے زمانے کے بعد کوئی نبی پیدا ہو جائے تو خاتمیت نبی میں کچھ فرق نہیں آئے گا۔ آپ بدستور خاتم الانبیاء ہیں۔ (تحذیر الناس)
(2)...
شیطان کا علم رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم سے زیادہ ہے۔ (براہین قاطعہ)
(3)...
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا علم غیب ہر زید، عمر، بکر بلکہ ہر صبی (بچہ، ومجنون (پاگل) جمیع حیوانات (جانوروں) بہائم (چوپایوں) کو بھی حاصل ہے۔
(حفظ الایمان)
(4)...
اللہ تعالیٰ جھوٹ بول سکتا ہے۔ ہر کام جو بندے کر سکتے ہیں وہ بھی کر سکتا ہے۔
نیچری:
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے بانی سرسید احمد خاں انگریزوں سے بہت قریب تھے اور انگریزوں سے کافی متاثر بھی۔
انگریزوں نے اسلام پر جو اعتراضات کیے ہیں، ان سے متاثر ہو کر انہوں نے ایک نئے مذہب کی بنیاد ڈالی جس کا بنیادی عقیدہ یہ ہے کہ جو باتیں قرآن وحدیث میں مذکور ہیں، اگر ہمارا نیچر قبول کرے تو مانیں ورنہ ان کے ایسے معانی بیان کریں جسے ہمارا نیچر قبول کرے۔
مثلا فرشتوں کا کوئی وجود نہیں۔ چیزوں میں جو قدرتی خیر کی قوت ہوتی ہے، انہیں کا نام فرشتہ ہے۔ جنت کوئی گھر نہیں جو بطور انعام مسلمانوں کو ملے گا۔ بلکہ اپنی نیکیوں پر خوش ہونے کا نام ہے۔
دوزخ کسی جگہ کا نام نہیں بلکہ اپنی برائیوں پر کڑھنے کا نام دوزخ ہے۔ انہوں نے قرآن کی تفسیر لکھی جس میں ان سب باتوں کو تفصیل کے ساتھ لکھا ہے۔
یہی وجہ تھی کہ ان کے زمانے میں تمام مسلمانوں نے ان سے عقیدے کی بنیاد پر بیزاری ظاہر کی۔ جس کے نتیجے میں نیچری فرقہ منظم نہیں ہو سکا، پھر بھی ہزاروں مسلمان کہلانے والے انہیں کے مطابق اعتقاد رکھتے ہیں۔
قادیانی:
پنجاب ضلع گرداسپور میں ایک بستی قادیان ہے۔ وہاں ایک شخص مرزا غلام احمد قادیانی پیدا ہوا۔ اس نے مولوی محمد قاسم دیو بندی سرغنہ کی کتاب ”تحذیر الناس“ پڑھ کر یہ سوچا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی نبی کا پیدا ہونا خاتم الانبیا ہونے کے منائی نہیں۔
تو اس نے نبوت کا دعوی کر لیا کہ میں ظلمی اور بزوری نبی ہوں اور یہ کہا کہ حدیثوں میں جو آیا ہے کہ عیسی ابن مریم قیامت کے قریب آئیں گے، وہ میں ہوں اس کے علاوہ اور بھی مسلمانوں کے خلاق عقیدے ایجاد کیے۔
چوں کہ وہ آدمی بہت ذہین پڑھا لکھا اور چالاک تھا،اس لیے اس نے زیادہ تر انگریزی داں طبقہ کو اپنا ہمنوا بنایا۔ اور بڑی خوبصورتی کے ساتھ اس نے اپنی تحریک کو چلایا جس کے نتیجے میں ہندوستان کے ہزاروں آدمی قادیانی ہو گئے اور اب بھی موجود ہیں۔
اہل قرآن:
ایک شخص عبد اللہ نامی پیدا ہوا۔ یہ عربی اور انگریزی دونوں زبانوں کا بہت زبردست ماہر تھا۔ اس نے یہ کہا کہ احادیث معتبر نہیں۔
اس لیے کہ آج جو حدیث کی کتابیں ملتی ہیں وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے ایک صدی گزرنے کے بعد لکھی گئی ہیں اور یہ کتابیں لکھنے والے سب ایرانی ہیں جنہوں نے اپنے جی سے گڑھ کر حدیثوں کے دفتر تیار کیے۔ ہاں! قرآن مجید محفوظ ہے۔
ہم صرف قرآن کو حق مانتے ہیں جو کچھ ہمیں قرآن سے سمجھ میں آئے وہی عقیدہ رکھیں گے۔ اور اسی پر عمل کریں گے۔ حدیثوں کا اور علمائے اسلام نے جو کچھ لکھا ہے اس کا کوئی اعتبار نہیں۔
چنانچہ یہ لوگ بجائے پانچ وقت کے صرف دو وقت نماز پڑھتے ہیں۔ ان کی نماز کا طریقہ بھی عام مسلمانوں سے الگ تھلگ ہے۔ اس فرقے کے لوگ بہت تھوڑے کہیں کہیں پائے جاتے ہیں۔
مودودی:
اس فرقے کے بانی ابو الاعلیٰ مودودی صاحب ہیں یہ لوگ اپنے آپ کو جماعت اسلامی کہتے ہیں۔
یہ فرقہ بھی حقیقت میں وہابیت ہی کی ایک شاخ ہے یہ لوگ بھی تمام دیو بندیوں کی طرح ابن عبد الوہاب نجدی اور اسماعیل دہلوی کو اپنا امام اور پیشوا مانتے ہیں اور ابن عبدالوہاب کی کتاب ”کتاب التوحید“ اور مولوی اسماعیل دہلوی کی کتاب ”تقویۃ الایمان“ کو اپنے مذہب کی بنیادی کتاب مانتے ہیں۔
مزید برآں ان کا اختلاف غیر مقلد اور دیوبندیوں سے بھی بہت باتوں میں ہے۔
ابو الاعلیٰ مودودی صاحب صحابہ کرام کی شان میں بہت گستاخ ہیں۔ اپنی کتاب خلافت و ملوکیت میں انہوں نے صحابہ کرام پر بے جا ناروا حملے کیے ہیں۔ نیز قرآن مجید کے بعض قوانین میں ترمیم کے بھی حامل ہیں۔
مثلا چور کی سزا میں ہاتھ کاٹنا، یا زنا کی سزا میں سنگساری کرنا اگر چہ وہ یہ ترمیم محدود دائرے میں چاہتے ہیں جس کی وجہ سے ان کا اختلاف دیو بندیوں سے بھی ہے اور غیر مقلدین سے بھی ہے۔
اہل سنت سے تو ہے ہی انہوں نے بھی انگریزی طبقہ کو زیادہ تر اپنا ہم نوا بنایا ہے۔ اس وجہ سے یہ جماعت بہت منتظم اور مضبوط ہے لیکن مسلمانوں کی اکثریت خواہ وہ عوام ہوں یا علما و مشائخ سب ان سے بے زار ہیں۔
نیازی:
ایک شخص شمع نیازی پیدا ہوا، جس کا رجحان شیعیت کی طرف زیادہ تھا۔ اس نے یہ کہا کہ کعبہ بیت اللہ نہیں بلکہ وہ حضرت آدم کی قبر ہے اس لیے اس کا طواف کیا جاتا ہے، اور حج کیا جاتا ہے یہ لوگ تعزیہ داری وغیرہ بہت دھوم سے کرتے ہیں۔
شیعوں سے کسی طرح پیچھے نہیں رہے، اور قبر پرستی میں بہت آگے ہیں، اس فرقے کے بہت تھوڑے اشخاص کہیں کہیں خال خال پائے جاتے ہیں۔
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے جو فرمایا ہے کہ میری امت میں تہتر فرقے ہوں گے، سوائے ایک کے سب جہنم میں جائیں گے، اس کا مطلب یہ ہے کہ قیامت تک اتنے فرقے ہوں گے اور اس سے مراد بنیادی فرقے ہیں۔
ورنہ بنیادی فرقوں کی شاخوں کو لیا جائے تو اب تک بہت سے زائد ہو چکے ہیں، جن میں اکثر فنا ہو گئے۔
یہ مضمون ”مقالات شارح بخاری،ص: 248 تا 254 مطبوعہ مکتبہ برکات المدینہ کراچی“ سے ماخوذ ہے {alertInfo}
اہل سنت کا ہے بیڑا پار اصحاب حضور
جواب دیںحذف کریںنجم ہیں اور ناؤ ہے عترت رسول اللہ کی
صلی اللہ علیہ وسلم