✍️ رائٹرز کے لیے نایاب موقع! جن رائٹر کے 313 مضامین لباب ویب سائٹ پر شائع ہوں گے، ان کو سرٹیفکیٹ سے نوازا جائے گا، اور ان کے مضامین کے مجموعہ کو صراط پبلیکیشنز سے شائع بھی کیا جائے گا!

حضور مرشد اعظم راجستھان ایک انقلاب آفریں شخصیت

عنوان: حضور مرشد اعظم راجستھان ایک انقلاب آفریں شخصیت
تحریر: معین الدین نقشبندی فیضانی

تاریخ اولوالعزم، بلند حوصلہ و بلند فکر انسانوں کے کارناموں سے ہے، جبکہ علم و فن کی دنیا میں جلیل القدر اہل فن کے کارنامے سدا بہار ہوتے ہیں اور آنے والی نسلیں راہِ مستقیم پر چلنے کے لیے ان ہی کو نمونہ عمل بناتی ہیں۔

انھیں اوصاف و کمالات کا ایک انسانی پیکر کی جس سرزمین لونی شریف (کچھ گجرات، 1379ھ 1960ء) میں ولادت ہوئی۔

تقویٰ و طہارت، توکل و شرم و حیاء، تواضع و انکساری، صبر و تحمل، اتباع شریعت، سادگی و کفایت شعاری، مرید نوازی اور ایثار و قربانی میں جہاں آپ کی انفرادیت نے مولانا حاجی عبد الحق ڈیمبائی علیہ الرحمہ جیسے باوقار زبردست عالم دین کی شاگردی کا حق ادا کیا، اسی طرح آپ مرشد بے مثال ہیں اور درس نظامیہ کے فنون تفسیر، فقہ، اصول فقہ، حدیث، اصول حدیث، منطق و فلسفہ، بلاغت، نحو، صرف میں بھی بے حد مہارت رکھتے ہیں۔

بلا شبہ آپ کی علمی، فکری و انسانی خدمات کو دیکھ کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اسلامی تاریخ میں چودھویں صدی ہجری نے جن عبقری شخصیات کو جنم دیا ہے، ان میں ایک روشن نام مرشد اعظم راجستھان باپو سید غلام حسین شاہ جیلانی نقشبندی مدظلہ العالی کا بھی ہے۔

آپ کی ذات محتاج تعارف نہیں، زمانہ جن کی خدمات دیکھ کر شیدائی ہوتا نظر آتا ہے، جن کی ہر اک ادا سنت مصطفیٰ ہے، جو پیر طریقت ہونے کے ساتھ رہبر شریعت بھی ہیں۔

دورِ حاضر میں جب ہر خاندانی پیر صاحب اپنی خلافتیں بانٹ رہے ہیں، آپ کی یہ خصوصیت ہے کہ آپ نے آج تک کسی کو بھی خلافت عطا نہیں کی۔

چونکہ دادا میاں کا باڑمیر کے سوجا شریف بھووار اور اطراف میں اکثر دورہ رہا کرتا تھا اور آپ کی آخری قیام گاہ (مزار شریف) بھی سوجا شریف ہی میں ہے، اسی سبب دارالعلوم فیض اکبری لونی شریف سے فراغت کے بعد چند سال تک وہیں درس نظامیہ کے فرائض انجام دیتے رہے، اسی دوران صدرالمدرسین کے اعلی منصب پر فائز بھی رہے۔

اس کے بعد ادارہ قائم کرنے کی نیت سے سوجا شریف تشریف لائے اور یہیں سے ان کی اصل انسانی خدمات کے حسین باب کا آغاز ہوتا ہے۔ آپ کی آمد سے قبل سوجا شریف و اطراف کا انسانی ماحول اس قدر پراگندہ اور شوریدہ تھا جو کہ قابل بیان نہیں۔

تاریخ شاہد ہے کہ آپ کی آمد سے قبل سوجا شریف و اطراف کی انسانی آبادی پر جہالت کا گھٹا ٹوپ اندھیرا تھا۔ ہر چہار جانب ظلم و بربریت کا طوفان کھڑا تھا اور زندگی کے روز و شب اور لیل و نہار اسلامی فکر سے کوسوں دور تھے۔

ان کی پیشانیوں پر عشقِ رسول کا نشان بھی نظر نہیں آتا تھا، قدم قدم پر اسلامی قانون کی خلاف ورزی زندگی کا معیار بن چکی تھی، تعلیمات کی شمع فروزاں گل ہو چکی تھی، پیروں میں شیطانی قانون اور غیر مہذب فکر کی زنجیریں پڑی تھیں۔

مختصر یہ کہ علاقہ تھر کی شوریدہ حرکات آج سے ساڑھے چودہ سو سال قبل پیغمبر اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل جاہلانہ سرگرمیوں اور داستانِ دلخراش کی یاد تازہ کر رہی تھیں۔

مگر قربان جائیے عزم و استقلال کے اس خاکی پیکر پر جو مصائب و آلام کے سامنے کوہِ گراں بن گیا، آندھی اور طوفان کے سامنے جبلِ مستقیم بن گیا اور مسلسل تن تنہا مقابلہ کرنے کے بعد وہ دن بھی آیا کہ اسلام کا بالائی پرچم نصب کر دیا اور ہمیشہ ہمیش کے لیے خود کو رہِ مستقیم کا راہی بنا دیا۔

ان تمام مشکلات کا خندہ پیشانی سے استقبال کرنا، انسانی خدمات کی راہوں کو ہموار کرنا، حائل رکاوٹوں کو دور کرنا تھا اور ساتھ ہی ساتھ دشمنانِ اسلام کی متحدہ محاذ آرائیوں میں الجھ کر انسانی خدمات کے اس عظیم الشان منصوبے سے دور نہیں ہونا تھا جس کا تصور نگاہوں میں بسا کر سوجا شریف تشریف لائے تھے۔

رفتہ رفتہ آپ کے علم و عرفان کی چمک، جلوؤں کی کشش، شخصیت کی دلربائی، کردار کا تقدس، سیرت کا جمال اور سچائیوں کا اجالا دلوں کے آفاق پر پھیلنے لگا اور انسانی آبادی میں حیرت انگیز طور پر انقلاب برپا ہونے لگا۔

اصلاح معاشرہ کا مزاج بدلنے لگا، جہالت و گمراہی اپنی بساط حیات سمیٹ کر فنا کی وادیوں کی طرف بھاگنے لگی اور تشنگانِ معرفتِ الہی بے ساختہ اپنے اپنے گھروں سے نکل پڑے۔ طالبان علوم نبویہ کا رواں دواں قافلہ سوجا شریف کی سرزمین پر اترنے لگا اور دیکھتے ہی دیکھتے الجامعہ الصدیقیہ کی مختصر عمارت اپنی تنگ دامنی کا شکوہ کرنے لگی اور کاروانِ شوق و طلب کی کثرت و اژدہام نے رہائشی و اخراجات کا حوصلہ شکن مسئلہ کھڑا کر دیا۔

چونکہ ہر قوم کو آزمائش و ابتلاء کے مراحل سے گزرنا پڑتا ہے، اس لئے ”اہلِ تھر“ کے لیے یہ آزمائش کی گھڑی تھی۔ عقیدتوں کے پھول نچھاور ہیں حضور مرشد اعظم راجستھان پر جن کی تعلیمات و خدمات نے چشم زدن میں صدیوں کے بگڑے ہوئے انسانوں کو ایسا بدل دیا کہ جو قوم آپ کی آمد سے قبل کفار مکہ کی جاہلانہ سرگرمیوں کی تاریخ دہرا رہی تھی، آج وہی قوم انصار مدینہ کی جانثاریوں کا عکسِ جمیل بن گئی۔

قوم نے آپ کی دعوت پر لبیک کہا اور آپ کو ہر حیثیت سے سراہا، بس پھر کیا تھا؟ حضور مرشد اعظم راجستھان کے جوان حوصلوں میں بے پناہ قوتیں بے پناہ انگڑائیاں لینے لگیں۔ جامعہ صدیقیہ کے لیے چندہ ہونے لگا اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک عمارت کھڑی کر دی گئی اور پھر چند سال بعد ہی ضرورت کے پیش نظر عالی شان عمارتیں کھڑی ہوئیں، جس کی نظیر آج تک راجستھان کا کوئی ادارہ پیش نہیں کر سکا۔

اور اسی طرح آپ نے راجستھان بھر میں تبلیغ و اشاعتِ دین کے عظیم کارنامے انجام دیے۔ بدمذہبوں سے سنیت کو محفوظ کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش فرمائی، بالخصوص علاقہ پھلودی میں جہاں بدمذہبوں کا غلبہ ہے۔ ان کے جواب میں بالآخر آپ نے سرزمین کھیچن میں چند سال قبل ایک مرکز بنام جامعہ فیضان جیلاں و حافظ ملت قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔

اس کے لیے ایک پروگرام کا انعقاد کیا گیا جس میں تمام مریدین و محبین نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔ جب چندہ ہونے لگا تو خود حضور مرشد اعظم راجستھان نے اپنے اور صاحبزادوں کی طرف سے حال کا اعلان فرمایا۔ پھر کیا تھا؟ در و بام پر سیم و زر کی بارشیں ہونے لگیں، مال و دولت لٹائے جانے لگے اور عورتوں نے اپنے قیمتی زیورات سالارِ کارواں کے قدموں میں بجھا دیے۔

انسانی عقل و شعور اس سوال پر دم بخود ہے کہ اس قوم کو اس طرح کا ناقابلِ فراموش اسلامی فکر و نظر کس نے عطا کیا؟ جذبئہ ایثار و قربانی کا شعور کس نے بخشا؟ زندگی گزارنے کا اعلیٰ معیار کس نے دیا؟ دین و سنت پر قربان ہونے کی آرزو کس نے عطا کی؟ ان کو تنگ و تاریک دلوں میں صدیوں سے سوئی ہوئی سرفروشی کی روح کو کس نے جگایا؟ صدیق و عمر، عثمان و علی کی طرح راہِ حق میں جانبازی کی امنگ کس نے پیدا کی؟ زمانہ بول پڑا: حضور مرشد اعظم راجستھان کی انسانی خدمات اور ان کی سحر و تقریر نے تاریخ پکار اُٹھی۔

ان کی تعلیم و تربیت، تبلیغ و ترویج اور اخلاص و وفا کے سچے نقوش و اثرات نے عیادت و مزاج پرسی اور غم و اندوہ میں برابر کی شرکت کی۔

علاقہ پھلودی کی زندہ دل قوم اور حوصلہ مند آبادی اتنا سب کچھ لٹانے کے باوجود کارہائے نمایاں انجام دینے کے لیے بے محابا تیار کھڑی تھی۔ خوش آئندہ حالات کو محسوس کرتے ہی حضور مرشد اعظم راجستھان کو یہ سمجھنے میں ذرا بھی دیر نہ لگی کہ جس وقت کا صدیوں سے انتظار تھا، اب وہ وقت آ گیا ہے اور بالفور سنگِ بنیاد رکھ دی گئی، اور زمانہ یہ سب دیکھ کر حیرت زدہ رہ گیا۔

اور چند سال قبل بنات (بچیوں) کے لیے جامعہ میمونہ کی سنگِ بنیاد رکھی گئی اور اب وہ بھی پایہ تکمیل تک پہنچ چکا ہے۔

یہ عظیم کارنامے زمانہ رہتی دنیا تک یاد رکھے گی۔

اللہ تعالیٰ کا صد شکر کہ جس نے اس دورِ پرفتن جس میں ہم جیسے کم عقل و کم علم کا وجود ہے، اس عظیم الشان ہستی کو بھیج کر امت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم پر احسان عظیم فرمایا۔

اللہ تبارک و تعالیٰ ان کا سایہ ہم پر تادیر قائم و دائم فرمائے، ان کو شریروں کے شر و حاسدین کے لیے حسد سے محفوظ فرمائے، ہم مریدین و محبین کو ان کے ہمیشہ وفادار غلاموں میں رکھے۔

1 تبصرے

جدید تر اس سے پرانی
WhatsApp Profile
لباب-مستند مضامین و مقالات Online
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مرحبا، خوش آمدید!
اپنے مضامین بھیجیں