✍️ رائٹرز کے لیے نایاب موقع! جن رائٹر کے 313 مضامین لباب ویب سائٹ پر شائع ہوں گے، ان کو سرٹیفکیٹ سے نوازا جائے گا، اور ان کے مضامین کے مجموعہ کو صراط پبلیکیشنز سے شائع بھی کیا جائے گا!

حضور صدر الافاضل علیہ الرحمہ کی سیاسی بصیرت

عنوان: حضور صدر الافاضل علیہ الرحمہ کی سیاسی بصیرت
تحریر: محمد علاء الدین قادری مصباحی بلرام پور

اللہ کے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:

اتقوا فراسة المؤمن فإنه ينظر بنور الله. [الترمذي، جامع الترمذي، رقم الحديث: 3127]

ترجمہ: مومن کی فراست سے بچو اس لیے کہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے اپنے جن محبوب بندوں کو یہ نعمتِ عظمیٰ عطا فرمائی ہے، وہ جذباتی دور میں بھی مومنانہ فراست سے درست سمت کا انتخاب کر لیتے ہیں اور راہِ حق پر گامزن ہوتے ہوئے ہزاروں گم گشتہ راہ افراد کے لیے سببِ ہدایت بن جاتے ہیں۔

انیسویں صدی ہجری کی ایک عظیم عبقری شخصیت حضور صدر الافاضل علامہ سید نعیم الدین مرادآبادی علیہ الرحمہ کی ذات ایسے ہی صفات سے متصف ہے۔

جنھوں نے اپنی مومنانہ بصیرت و فراست سے بروقت معاملے کو پرکھا، درست سمت کا انتخاب فرمایا اور تاریک راہوں میں بھٹکنے والوں کو ہدایت کی روشنی فراہم کی۔

آپ کا دور اہل سنت وجماعت کے لیے انتہائی نازک اورسیاسی اعتبار سے ناگفتہ بہ تھا۔ شعائر اسلام کو مٹانے کی ناپاک کوشش کی جارہی تھی، مسلمانان ہند جوق در جوق مرتد ہو رہے تھے اور سب سے زیادہ صبر آزما بعض علماے اہل سنت کا دانستہ و نادانستہ طور پر دشمنانِ اسلام کی سازشوں کا حصہ بننا تھا۔

ایسے پرفتن اور پرخطر دور میں آپ نے دشمنانِ اسلام کی سازشوں کو عین موقع پر بھانپ لیا اور حضور اعلیٰ حضرت محدث بریلوی رضی اللہ تعالی عنہ کے فیضِ صحبت سے وابستہ رہتے ہوئے قرآن و حدیث کی روشنی میں دشمنانِ اسلام کی سازشوں کا انتہائی گہرائی کے ساتھ جائزہ لیا اور ان کے فریب اور دسیسہ کاریوں سے امت مسلمہ کو باخبر کیا اور بے شمار فریب خوردہ مسلمانوں کو فتنۂ ارتداد سے نجات دلائی۔

آپ کے سیاسی بصیرت کی چندجھلکیاں پیش خدمت ہیں۔

تحریکِ خلافت:

تحریکِ خلافت کا آغاز 1919/ء میں ہوا،اس تحریک کا مقصد سلطنت عثمانیہ اور مقاماتِ مقدسہ کی حفاظت تھا۔

علماے اہل سنت بالخصوص حضور اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور آپ کے خلفا حضرات جن میں حضور صدر الافاضل علیہ الرحمہ سر فہرست ہیں، ان مقدس ہستیوں کو اس تحریک سے قطعاً کوئی بھی اختلاف نہیں تھا بلکہ آپ حضرات نے اپنے جیب خاص سے بھرپور تعاون پیش کیا۔ لیکن مورد الزام ٹھہرائے گئے اور انگریزوں کے تنخواہ خور کہے گئے اور یہ سب کرنے والے دراصل خود ہی انگریزوں کے تنخواہ خور تھے۔

ہاں اگر اختلاف تھا، تو ان کے طریقۂ کار سے تھا اور کیوں نہ ہو آپ اور آپ کے خلفا بالخصوص حضور صدر الافاضل علیہ الرحمہ ہندوؤں کے مخفی عزائم سے خوب اچھی طرح باخبر تھے، اسی بنا پر ان سے شدید اختلاف کیا کیونکہ سیاست جدیدہ میں صرف مقاصد پر نظر ہوتی ہے، ذرائع کو اہمیت نہیں دی جاتی ہے، لیکن اگر اسلامی نقطۂ نظر سے سیاست کو دیکھا جائے تو اسلام میں مقاصد کے ساتھ ساتھ ذرائع پربھی نظر ہوتی ہے۔

قارئین خود ہی غور کریں! سلطنت عثمانیہ اورمقاماتِ مقدسہ کی حفاظت کی خاطر چلائی گئی تحریک اور مسٹر گاندھی کی قیادت، یہ دونوں خود ہی متضاد باتیں ہیں۔

اگر ہم قرانی نظریہ سے اس کو دیکھیں تو اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا بِطَانَةً مِّنْ دُوْنِكُمْ لَا یَاْلُوْنَكُمْ خَبَالًا وَدُّوْا مَا عَنِتُّمْ قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَآءُ مِنْ اَفْوَاهِهِمْ وَ مَا تُخْفِیْ صُدُوْرُهُمْ اَكْبَرُ قَدْ بَیَّنَّا لَكُمُ الْاٰیٰتِ اِنْ كُنْتُمْ تَعْقِلُوْنَ (النساء: 118)

ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو! غیروں کو اپنا راز دار نہ بناؤ وہ تمہاری برائی میں کمی نہیں کرتے ان کی آرزو ہے جتنی ایذا تمہیں پہنچے بیَر ان کی باتوں سے جھلک اٹھا اور وہ جو سینے میں چھپائے ہیں اور بڑا ہے ہم نے نشانیاں تمھیں کھول کر سنادیں اگر تمہیں عقل ہو۔

انہی اسباب کی بنیاد پر آپ (اعلیٰ حضرت) اور آپ کے خلفا بالخصوص حضور صدر الافاضل علیہ الرحمہ کو تحریک خلافت سے اختلاف تھا چوں کہ جذباتی طور پر مسلمانانِ ہند جوق در جوق تحریک میں شامل ہو رہے تھے اور مسٹر گاندھی کو اپنا حامی و ناصر سمجھ رہے تھے۔

موقع غنیمت سمجھ کر دشمن نے چال چلنی شروع کی؛اس تحریک کے ساتھ دو اور تحریکوں کا 1920ء میں مسٹر گاندھی نے آغاز کیا۔

تحریک ترکِ موالات:

جب مسٹر گاندھی مسلمانوں کی تحریکِ خلافت کے ذریعہ حمایت اور اعتبار حاصل کر کے ان کا لائقِ اعتبار اور حامی و ناصر لیڈر بن گیا؛تو اس نے اپنے خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنے کے لیے اس تحریک کو شروع کیا، تحریک کے شروع ہوتے ہی مسلمانانِ ہند کثرت سے اس میں شامل ہونے لگے اس طرح ایک جذباتی تحریک کے ذریعہ دشمن اپنے مقاصد کے حصول یابی میں کامیاب نظر آرہا تھا۔

حالات کے اس تناظر میں حضور صدر الافاضل علیہ الرحمہ نے بے باکانہ اور مجاہدانہ طور پر تاریخی اور سیاسی حیثیت سے نہایت ہی اہم پیغام جاری کیا۔ آپ فرماتے ہیں:

ہندو نادان نہیں؛ ان کی کوئی حرکت عبث و بےکار نہیں؛ وہ ہر کام کے لیے کوئی مقصد رکھتے ہیں، ان کا ہر عمل اسی کے محور پر گردش کرتا ہے۔ جب تم نے انھیں پیشوا بنایا، تو وہ اپنے مقصد کو مقدم رکھیں گے۔ (السواد الاعظم، شوال المکرم 1338/ھ، ص: 17، بحوالہ تحریک آزادی ہند اور السواد الاعظم، ص: 220)

مزید آگے چل کر یوں رقم طراز ہیں:

میں صرف یہ دکھانا چاہتا ہوں کہ ترک تعاون کا خیال مسٹر گاندھی کے دماغ میں مدت دراز سے مرکوز ہے، ان کے کارنامۂ زندگی سے اس کے دلائل ملیں گے، لیکن وہ اپنے اس مقصد میں اپنی خواہش کے موافق کامیابی سے محروم رہے ہیں۔ (السواد الاعظم، شوال المکرم 1338/ھ، ص: 19، بحوالہ تحریک آزادی ہند اور السواد الاعظم، ص: 221)

دشمن کے مزید چال بازیوں کی پردہ دری کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

ایک طرف تو مسٹر گاندھی مسلمانوں سے یہ خطاب کرتے ہیں کہ تمہارے مطالبات بالکل بجا ہیں اور تم حق بجانب ہو، میں تمہارے ساتھ ہوں۔

دوسری طرف مسٹر گاندھی لب و لہجہ بدل کر یہ فرما دیتے ہیں کہ دیکھو خبردار! قانون کی حدود سے باہر قدم نہ رکھنا امن عامہ میں خلل اندازی کرنے سے باز رہنا ورنہ میں تمہارے ساتھ نہیں۔

جس سے گورنمنٹ کو مسلمانوں کی شوریدہ سری اور قانون شکنی اور امن عامہ میں فساد انگیزی کا ثبوت دینا چاہتے ہیں اور اپنے آپ کو امن عامہ اور قانون کا حامیظاہر کرتے ہیں۔ (السواد الاعظم، شوال المکرم 1338/ھ، ص: 20، بحوالہ تحریک آزادی ہند اور السواد الاعظم، ص: 221)

قارئین حضرات ذرا غور کریں!مسٹر گاندھی کس طرح مسلمانوں سے ایک طرف ہمدردی اور یکجہتی کا اظہار کر رہے ہیں۔ ”میں تمہارے ساتھ ہوں“ تم حق بجانب ہو، تمہارے مطالبات بالکل بجا ہیں“ اور دوسری طرف کہہ رہے ہیں دیکھو خبردار! قانون کی حدود سے باز رہنا ورنہ میں تمہارے ساتھ نہیں۔

جب کہ مسٹر گاندھی کو یہ بات بخوبی معلوم تھی کہ مسلمان فطرتاً جذباتی ہوتے ہیں اور جذباتی تحریکوں میں ان کا قانون کی حدبندی کا خیال رکھنا انتہائی مشکل ہے اگر یہ ایسا کچھ کرتے ہیں جو قانوناً جرم ہے تو ہم ان سے صاف صاف کہہ دیں گے کہ کیا ہم نے نہیں کہا تھا کہ قانون کی حدود سے باز رہنا ورنہ میں تمہارے ساتھ نہیں ہوں۔ اسے کہتے ہیں سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔

حضور صدر الافاضل علیہ الرحمہ جیسا فریب شناس کیسے ان کی فریب کاریوں کو سمجھتے ہوئے ان کا ساتھ دیتا اور ان کی ہاں میں ہاں ملاتا۔

آپ نے اس تحریک کی بھرپور مذمت کی اور پرزور اختلاف کیا، تحریک ترک موالات کے مضر اثرات و نقصانات قلم بند کیا اور کفار و مشرکین کے ساتھ میل جون موالات و تعلقات کا شرعی حکم بیان کرتے ہوئے مسلمانوں کو ان تحریکات سے دور رہنے کا سختی کے ساتھ حکم دیا۔ اس سلسلے میں آپ نے "ترك الموالات عن جمیع الكفرة وأه‍ل الضلالات" نامی کتاب تصنیف فرمائی ہے۔ چند اقتباسات ملاحظہ فرمائیں:

کفارکے ساتھ دوستی و موالات کی چند صورتیں ہیں۔

کافر میں دو حیثیتیں ہیں۔ (1) مذہبی (2) شخصی

(1)... مذہبی حیثیت سے کفار کے ساتھ محبت و وداد، ربط و اتحاد، دوستی و یکدلی تو مومن سے ممکن ہی نہیں۔ بالفرض کسی شخص کو کافر کے ساتھ اس کے دین کی وجہ سے محبت یا ادنی میل و رغبت ہو یعنی اس وجہ سےکہ یہ اس کے دین کو محبوب رکھتا ہے یا پسند کرتا ہے تو وہ مومن نہیں ۔“

قرآن و تفسیر سے آیات و عبارت نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:

خلاصہ یہ ہے کہ کسی کافر سے اس کے دین کی وجہ سے دوستی کرنا، یا اس کے دین کو پسند کرنا، یا اس کے ساتھ راضی ہونا کفر ہے۔ اور کسی مومن سے بحالت ایمان ممکن نہیں کہ ایسی دوستی کر سکے۔ اور اگر بالفرض کسی نے ایسا کیا تووہ مومن نہ رہا۔

(2)... حیثیت شخصی وذاتی ہے۔ یعنی کافر کے ساتھ اس کے دین وملت کی وجہ سے تو دوستی نہیں ہے مگر اس کی ذات کے ساتھ انس و محبت ہے، یہ محبت بھی اگر اس درجہ پر پہنچ جائے کہ کافر دوست کے دین اور شعار دین کی نفرت قلب سے نکل جائے، یاکم ہو جائے، یا وہ دین اسلام کی مخالفت اور اس کے ساتھ استہزا کرے اور یہ اپنی محبت کی وجہ سے اس پر راضی رہے، یا صبر کرے تو یہ محبت بھی منافی ایمان ہے۔ اور آیت مذکورہ بالا کے عموم میں داخل ہے۔“ (سوانح صدر الافاضل، ج: 2، ص: 72)

تحریک ہندو مسلم اتحاد:

تحریکِ ہندو مسلم اتحاد کا نقطۂ آغاز مسٹر گاندھی کا تحریکِ خلافت کی حمایت سے ہی ہو چکا تھا؛ اس حمایت کو اس قدر پذیرائی حاصل ہوئی، جس کا وہم و گمان بھی نہ تھا ،لیکن علماے اہل سنت نےاس اتحاد سے مجموعی طور پر اختلاف کیا، اس کی وجوہات مذہبی اور سیاسی دونوں تھی، وہ اس اتحاد کو فی نفسہ ناممکن سمجھتے تھے۔

اس اتحاد پر حضور صدرالافاضل علیہ الرحمہ نےجن تاثرات کا اظہار فرمایا ہے؛ وہ بصیرت افروز اور حقیقت پسندانہ ہیں۔ آپ یوں فرماتے ہیں:

مسلمانوں نے ان مساعی میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے لئے ضروری سمجھا کہ ہندؤں کو اپنے ساتھ شریک کریں اور اپنا ہم آواز بنائیں تاکہ ان کی صدا میں زور آئے اور سلطنت ان کی درخواست کان لگا کر سنے، مذہب کا فتویٰ اس کو ممنوع اور نا جائز نہیں قرار دیتا اور اس قدر جد وجہد جواز میں رہتی،لیکن صورتِ حال کچھ اور ہے؛ ہندو امام بنے ہوئے آگے آگے ہیں اور مسلمان ” آمین “ کہنے والے کی طرح ان کی ہر صدا کے ساتھ موفقت کر رہے ہیں، پہلے مسٹر گاندھی کا حکم ہوتا ہے،اس کے پیچھے مولوی عبدالباری کا فتویٰ مقلد کی طرح سر نیاز خم کرتاچلاجاتا ہے۔ پہلے تو ہندوؤں نے سود کے پھندوں میں مسلمانوں کی دولتیں اور جاگیریں لےلیں ،اب وہ مفلس ہو گئے اور کچھ پاس نہ رہا تو مقامات مقدسہ اور سلطنت اسلامیہ کی حمایت کی آڑ میں مذہب سے بھی بے دخل کر نا شروع کر دیا۔ (السواد الاعظم، شوال المکرم 1338/ھ، ص: 15، 16، بحوالہ تحریک آزادی ہند اور السواد الاعظم، ص: 224، 225)

سلطنت اسلامیہ کی اعانت اور مقامات مقدسہ کی حمایت و حفاظت کے لئے مسلمان ہر ممکن تدبیر عمل میں لائیں لیکن اپنے دین و مذہب کومحفوظ رکھیں، اپنے آپ کو ہندؤوں کے ہاتھوں میں نہ دے ڈالیں ،اپنے پاؤں پر کھڑے ہوں ، اپنے عقل و حواس کو معطل نہ کریں، اپنے ہوش وخردکو کام میں لائیں، نہایت فرزانگی کے ساتھ اپنے نیک وبد، اپنے انجام ومآل پر نظر ڈالیں۔

ایسی بے رائی کہ ہر بات میں گاندھی پر نظر ہے، کچھ کام نہیں آسکتی۔ فرض کرو آج گاندھی موافق ہیں اور تم ہر مشورے میں ان کی رائے کےمحتاج ہو، کل اگر گاندھی کا رنگ بدل جائے، تم کیا کر دو گے؟

یہ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ تم میں کوئی ایک بھی مدبر نہیں، اگر ایسا ہے تو خاموش رہنا چاہیے۔ (السواد الاعظم، شوال المکرم 1338/ھ، ص: 21، بحوالہ تحریک آزادی ہند اور السواد الاعظم، ص: 226)

مسلمانوں کی اس بے راہ روی اورناقبت اندیشی نے جو گل کھلائے اس کا نقشہ حضورصدر الافاضل علیہ الرحمہ نے ان الفاظ میں کھینچا ہے:

”کہیں ہندؤوں کی خاطر سے قربانی اور گائے کے ذبیحہ ترک کرنے کی تجاویز پاس ہوتی ہیں، ان پر عمل کرنے کی صورتیں سوچی جاتی ہیں، اسلامی شعائر کو مٹانے کی کوششیں عمل میں لائی جا تی ہے، کہیں پیشانی پر قشقہ کھینچ کر کفر کا شعار نمایاں کیا جاتا ہے، کہیں بتوں پر پھولوں اور ریوڑیاں چڑھاکر توحید کی دولت برباد کی جاتی ہے۔ معاذ اللہ! کروڑوں سلطنتیں ہوں تو دین پر فدا کی جائیں، مذہب کسی سلطنت کی طمع میں برباد نہیں کیا جاسکتا۔ مولانا سلیمان اشرف صاحب نے خوب فرمایا: کہ لعنت اس سلطنت پر جو دین بیچ کر حاصل کی جائے،ترکی کی سلطنت کی بقا کے لئے مسلمان کفر کرنے لگیں، شعائر اسلام کو مٹادیں۔ لاحول ولا قوة الا بالله: اسلام ہی کے صدقہ میں اس سلطنت کی حمایت کی جاتی ہے ورنہ ہم سے اور ترکوں سے واسطہ؟ مطلب جو کوشش کی جائے اپنا دین محفوظ رکھ کر کی جائے“۔ (السواد الاعظم، شوال المکرم 1338/ھ، ص: 16، 17، بحوالہ تحریک آزادی ہند اور السواد الاعظم، ص: 226، 227۔)

مزید برآں جب آپ سےہندو مسلم اتحاد و غیرہ تحریکات کے حوالے سے محمد مشتاق حسین فاروقی مرادآبادی کی طرف سے 8/ صفحات پر مشتمل استفتا کیاگیا، تو آپ نے اس کے جواب میں 15/صفحات پر مشتمل ایک مفصل و مدلل فتوی تحریر فر مایا۔ جس پر 7/ صفحات میں علماے کرام کی تصدیقات و تائیدات ثبت ہیں، آپ کایہ فتویٰ بنام ”مسلمان اور کانگریس،اتحاد مسلم پر شریعت اسلام کاحکم مبین“ شائع ہوا۔

تحریک شدھی:

یہ تحریک پنڈت سوامی شردھا نند کی ناپاک نتیجۂ فکر میں باضابطہ 1923/ء میں معرض وجود میں آئی۔ اس کا بنیادی مقصد مسلمانوں کو مذہب اسلام سے منحرف کر کے ہندو مذہب میں شامل کرنا تھا۔

بدقسمتی سے دیکھتے ہی دیکھتے یہ تحریک ہندوستان کے طول و عرض میں آگ کی طرح پھیل گئی اور ہزاروں مسلمان اس کے دام تزویر میں پھنس گئے اور ایمان کی دولت سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ مسلمانوں کو اس طور پر ہندو مذہب کا حصہ بنانے کی کو شش کرتے کہ” پہلے یہ ہندو ہی تھے، اب ہم انھیں پاک و پوتر کریں گے“۔

ایسے نازک وقت میں علماے اہل سنت نے قوم مسلم کی صحیح رہنما ئی فرمائی، انھیں اسلام کی حقانیت سمجھائی، دولت ایمان کی اہمیت بتائی، کفر و شرک کی تباہی سے آگاہ کیا۔ حضور صدر الافاضل علیہ الرحمہ نے اس بد نام زمانہ تحریک کے سد باب میں کلیدی کردار ادا کیا، مکمل تندہی کے ساتھ اس تحریک کی بیخ کنی میں مصروف عمل رہے۔

تحریکِ شدھی کے خلاف آپ کا خطاب:

8/جمادی الآخرہ 1341/ھ مطابق 26/جنوری 1923/ء بروز جمعہ بریلی شریف میں جماعت رضاےمصطفی کے زیر اہتمام علماے کرام اور مشائخ عظام کی ایک ہنگامی مجلس پر منعقد ہوئی، جس میں علماے مفکرین و مدبرین نے مل کر کےشد ھی کے سد باب اور مسلمانوں کو فتنۂ ارتداد سے بچانے کے لیے لائحہ عمل تیار کیا۔ علاوہ ازیں عوامی سطح پر بھی ایک جلسہ مذکورہ بالا تاریخ میں مغرب کی نماز سے رات دس بجے تک بی بی جی صاحبہ مسجد میں منعقد کیا گیا، جس میں اہل سنت کے مشاہیر علماے کرام کے خطابات ہوئے۔

آپ نے بھی مسلمانوں سے ایک ایسا بہترین، روح پرور اور رقت آمیز خطاب فرمایا جسے سن کر مسلمانوں کی آنکھیں اشک بار اور قلوب جذبہ ایمانی سے سرشار ہو گئے۔ (سوانح صدر الافاضل، ج: 2، ص: 90)

علاقۂ ارتداد میں آپ کی روا داری:

9/جمادی الآخرہ 1341/ھ مطابق 27/جنوری 1923ء بروز ہفتہ بوقت صبح جماعت رضاے مصطفی کے زیر اہتمام بریلی سے روانہ ہونے والے 10 علماے مشاہیر پر مشتمل پہلے وفد میں آپ نے بھی شرکت فرمائی۔ آپ نے ۲۷ جنوری سے 30/جنوری تک میرٹھ اور مضافات میرٹھ کے متاثرہ علاقوں میں تبلیغی دورے فرمائے۔ (سوانح صدرالافاضل، ج: 2، ص: 91)

آپ اپنی زندگی کے آخری ایام تک ان باطل تحریکات کے خلاف نبرد آزما رہے، اور ان کا استیصال کر کے ہی دم لیا۔

آپ نے بے شمار تبلیغی دورہ کیا،اسلام کی حقانیت سے لوگوں کو روشناس کرایا، جس وقت بہت سے علما دشمن کے ارادے سے غافل رہتے ہوئے ان کے دامن فریب میں آگئے تھے، اس وقت آپ نے اپنی خداداد صلاحیتوں سے دشمن کے ارادوں کو بھانپ لیا اور اس انتہائی نازک مرحلے میں مسلمانوں کی درست رہنمائی کی، یہ آپ کے سیاسی بصیرت کے چند نمونے تھے، حق تو یہ ہے کہ اگر آج ہمارے پاس اسلام اپنے صحیح شکل میں موجود ہے، تو یہ انھیں بزرگوں کی مساعی جمیلہ کا نتیجہ ہے۔

دعا گو ہوں کہ مولیٰ تعالیٰ ہمارے اس قائد کی تربت پر انوار و تجلیات کی بارش فرمائے اور ہمیں بھی اس مردِ میدان کے صدقے سیاسی شد بد عطا فرما، آمین۔

1 تبصرے

جدید تر اس سے پرانی
WhatsApp Profile
لباب-مستند مضامین و مقالات Online
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مرحبا، خوش آمدید!
اپنے مضامین بھیجیں