✍️ رائٹرز کے لیے نایاب موقع! جن رائٹر کے 313 مضامین لباب ویب سائٹ پر شائع ہوں گے، ان کو سرٹیفکیٹ سے نوازا جائے گا، اور ان کے مضامین کے مجموعہ کو صراط پبلیکیشنز سے شائع بھی کیا جائے گا!

ایمان اور مزاحیہ لطیفے

عنوان: ایمان اور مزاحیہ لطیفے
تحریر: ام معاویہ عطاریہ

آج ہم جس دور میں جی رہے ہیں، اس میں زبان کی عدم حفاظت کا دَور دورہ ہوگیا ہے، یہ ہماری لاپرواہیوں اور علم کی کمی کا نتیجہ ہے۔

ہماری اکثریت کی حالت یہ ہوگئی ہے کہ جو منہ میں آیا، بَک دیا، جو دل کیا تحریر کیا اور فوراً شیئر پر شیئر۔ اس دور میں مزاح یا ہنسی مذاق کے نام پر ارتداد کا پھیلنا بھی بہت عام سی بات ہوگئی ہے۔

کئی ایسے لوگ ہیں جو سوشل میڈیا و دیگر پلیٹ فارمز پر آکر لوگوں کو ہنسانے کا کام کرتے ہیں، یعنی لوگوں کو ہنسانے کے لئے طرح طرح کی باتیں کی جاتی ہیں جن میں اکثر شریعت کے حدود کو پار کیا جاتا ہے اور کبھی تو کفریہ کلمات تک بول دیئے جاتے ہیں۔ اور ایک تعداد ہے جو انہیں سنتی ہے، دیکھتی ہے۔

کسی نے کفر بَکا، اس پر راضی ہونے والے پر بھی حکم کفر ہے، کیونکہ کفر کو پسند کرنا بھی کفر ہے۔ (الیاس عطار قادری، 28 کلمات کفر، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)

اس کے علاوہ، عام لوگ بھی بیٹھکوں میں، عورتیں آپس میں، بچے بچوں سے ایسی مذاقیہ گفتگو کرکے ہنستے ہیں جس میں شعائر اسلام یا اسلام سے وابستہ کسی دینی چیز کا مذاق بنایا جا رہا ہوتا ہے۔ کئی دفعہ اسٹیٹس پر بھی ایسی بے باک باتیں لکھی ہوتی ہیں جن سے ایمان کے زائل ہونے کا شدید خطرہ ہوتا ہے۔ الامان و الحفیظ۔

مزاح بذات خود ایک اچھا فعل ہے جس کا مقصد خوش طبعی ہے، اور مزاح ہمارے آخری نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی بسا اوقات فرمایا کرتے تھے۔ لیکن آج جو مزاح و مذاق کا ماحول بنا ہوا ہے، وہ بہت حد تک ہمارے ایمان کو نقصان پہنچا سکتا ہے اور پہنچاتا بھی ہے۔

آئے دن ایسی پوسٹیں شیئر کی جاتی ہیں جن میں کبھی نماز، کبھی علماء، کبھی فتوے، کبھی دینی مسائل، جنت و دوزخ، فرشتوں، جنتی حوروں، حد تو یہ ہوگئی کہ قرآنی آیتوں کو بھی لوگ مذاق کے طور پر استعمال کرنے لگے ہیں۔ نعوذ باللہ من ذالک۔

گویا ایمان جو سب سے قیمتی خزانہ ہے، اس کو کھونے کا خوف لوگوں کے دلوں سے جاتا رہا ہے۔ جبکہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ کا ارشاد ہے: علمائے کرام فرماتے ہیں، جس کو سلبِ ایمان (ایمان کے چھن جانے) کا خوف نہ ہو، نزع کے وقت اس کا ایمان سلب ہو جانے کا شدید خطرہ ہے۔

حدیث مبارکہ میں ہے، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ رَجُلًا تَكَلَّمَ بِكَلِمَةٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، لَا يُلْتَفَتُ إِلَيْهَا فَجَعَلَ اللَّهُ تَعَالَى بِهَا لَهُ جَنَّةً وَجَعَلَ رَجُلًا تَكَلَّمَ بِكَلِمَةٍ سَخَطَ اللَّهِ عَنْهُ فَحَفَرَ لَهُ حَفَرَتُهُ فِي النَّارِ. (البخاری:6478)

ترجمہ: حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بندہ کبھی اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کی بات کہتا ہے اور اُس کی طرف توجہ بھی نہیں کرتا (یعنی بعض باتیں انسان کے نزدیک نہایت معمولی ہوتی ہیں) اللہ تعالی اُس (بات) کی وجہ سے اُس کے بہت سے درجے بلند کرتا ہے۔ اور کبھی اللہ پاک کی ناراضگی کی بات کرتا ہے اور اُس کا خیال بھی نہیں کرتا، اس (بات) کی وجہ سے جہنم میں گرتا ہے۔

تفسیر صراط الجنان میں ہے:

دین کی کسی چیز کا مذاق اڑانا کفر ہے۔ ایسے ہی عالم، مسجد، خانہ کعبہ، نماز، روزہ وغیرہ میں سے کسی کا مذاق اڑانا کفر ہے۔ (مفتی قاسم عطاری، تفسیر صراط الجنان، سورۃ المائدہ، تحت الآیت ٥٨)

دینی چیزوں کا مذاق اڑانے والے احمق و بے عقل ہیں جو ایسے سَفِیہانہ اور جاہلانہ حرکات کرتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ لَيَقُولُنَّ إِنَّمَا كُنَّا نَخُوضُ وَنَلْعَبُؕ قُلْ أَبِاللّٰهِ وَآيَاتِهِ وَرَسُولِهِ كُنتُمْ تَسْتَهْزِؤُونَ لَا تَعْتَذِرُوا قَدْ كَفَرْتُمْ بَعْدَ إِيمَانِكُمْ (التوبہ: 65، 66)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اے محبوب! اگر تم ان سے پوچھو تو کہیں گے کہ ہم تو یونہی ہنسی کھیل میں تھے۔ تم فرماؤ، کیا اللہ اور اس کی آیتوں اور اس کے رسول سے ہنستے ہو؟ بہانے نہ بناؤ، تم کافر ہوچکے مسلمان ہوکر۔

اور فرماتا ہے:

وَذَرِ الَّذِينَ اتَّخَذُوا دِينَهِمْ لَعِبًا وَلَهْوًا وَغَرَّتْهُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا (الأنعام: 70)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور چھوڑ دے ان کو جنہوں نے اپنا دین ہنسی کھیل بنالیا اور انہیں دنیا کی زندگی نے فریب دیا۔

ان آیات پر ہمیں غور کرنا چاہیے۔ مولائے کریم ہمارے ایمان کو سلامت رکھے اور ہمیں عقل سلیم عطا فرمائے، اس عظیم دولت ایمان کی قدر و قیمت عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔

1 تبصرے

جدید تر اس سے پرانی
WhatsApp Profile
لباب-مستند مضامین و مقالات Online
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مرحبا، خوش آمدید!
اپنے مضامین بھیجیں