عنوان: | امتحان میں نقل |
---|---|
تحریر: | سلمیٰ شاھین امجدی کردار فاطمی |
ہمارے معاشرے میں ایک بڑی خرابی یہ پیدا ہو گئی ہے کہ ہم بعض برائیوں کو صرف مخصوص حالات میں برا سمجھتے ہیں، جبکہ دوسرے مواقع پر انہیں معمولی یا جائز قرار دے دیتے ہیں۔
ہم چوری کو صرف تب برا سمجھتے ہیں جب کوئی کسی کی جیب کاٹ لے یا کسی کا سامان چرا لے، مگر وقت اور وسائل کی چوری کو محسوس نہیں کرتے۔ جھوٹ کو ہم عدالت میں تو برا سمجھتے ہیں، مگر عام زندگی میں اسے معمولی بات تصور کرتے ہیں۔
یہی سوچ تعلیمی میدان میں بھی نظر آتی ہے، جہاں امتحان میں نقل کو کوئی بڑی برائی نہیں سمجھا جاتا۔ بعض لوگ تو دوسروں کو جوابات بتانے کو نیکی کا کام سمجھنے لگے ہیں!
یہ مسئلہ اس وقت اور زیادہ سنگین ہو جاتا ہے جب دینی تعلیم کے امتحانات میں بھی نقل کی جاتی ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو شخص دینی علوم حاصل کرتے ہوئے ہی خیانت کرنے لگے، وہ عملی زندگی میں دیانت داری کیسے اختیار کرے گا؟
نقل کے نقصانات:
امتحان میں نقل کر کے کامیابی حاصل کرنا بظاہر فائدہ مند لگتا ہے، مگر حقیقت میں یہ بہت بڑی کمزوری ہے۔ جو طالب علم نقل کا سہارا لیتا ہے، وہ محنت کی عادت نہیں سیکھ پاتا اور عملی زندگی میں بھی دیانت داری اور جدوجہد سے بچنے لگتا ہے۔
نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ یہی چھوٹی چھوٹی خیانتیں بعد میں بڑی خیانتوں میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
اَلَّذِیْنَ یَجْتَنِبُوْنَ كبٰٓىٕرَ الْاِثْمِ وَ الْفَوَاحِشَ اِلَّا اللَّمَمَ اِنَّ رَبَّكَ وَاسِعُ الْمَغْفِرَةِ هُوَ اَعْلَمُ بِكُمْ اِذْ اَنْشَاَكُمْ مِّنَ الْاَرْضِ وَ اِذْ اَنْتُمْ اَجِنَّةٌ فِیْ بُطُوْنِ اُمَّهٰتِكُمْ فَلَا تُزَكُّوْۤا اَنْفُسَكُمْ هُوَ اَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقٰى (النجم: 32)
ترجمۂ کنزالایمان: وہ جو بڑے گناہوں اور بے حیائیوں سے بچتے ہیں، مگر اتنا کہ گناہ کے قریب گئے اور رک گئے، بیشک تمہارے رب کی مغفرت وسیع ہے، وہ تمہیں خوب جانتا ہے، جب اس نے تمہیں زمین سے پیدا کیا اور جب تم اپنی ماؤں کے پیٹ میں حمل کی حالت میں تھے۔ پس تم اپنی جانوں کو پاکیزہ نہ جتاؤ، وہ خوب جانتا ہے جو پرہیزگار ہیں۔
ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَاللَّهُ يُزَكِّي مَن يَشَاءُ (النور: 21)
اور اللہ جسے چاہے پاکیزہ کر دیتا ہے۔
لہٰذا جو لوگ دینی مدارس سے وابستہ ہیں، انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ علم ایک امانت ہے۔ دینی تعلیم حاصل کرنے والوں کو نہایت ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔
اور اسے دیانت داری کے ساتھ قبول کرکے آگے منتقل کرنا چاہیے، کیوں کہ جو علم خیانت کے ساتھ حاصل کیا جائے، وہ کبھی برکت والا نہیں ہوتا۔
محنت کی راہ اختیار کریں:
نقل کی بجائے محنت کا راستہ اپنائیں، کیوں کہ بغیر محنت کے کامیابی کی خواہش صرف دھوکا ہے۔ اگر ہم نقل کے ذریعے وقتی کامیابی حاصل بھی کر لیں، تو یہ حقیقی کامیابی نہیں ہوگی۔
علم وہی فائدہ مند ہوتا ہے جو خلوص، محنت اور اللہ پر بھروسے کے ساتھ حاصل کیا جائے۔
نقل کا انجام:
جو نقل کے عادی ہو جاتے ہیں، وہ آگے چل کر زندگی کے بڑے فیصلوں میں بھی سچائی اور دیانت داری سے ہٹنے لگتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ آج کے دور میں سچائی اور ایمان داری کی قدریں کم ہوتی جا رہی ہیں۔
لہٰذا یہ ضروری ہے کہ ہم اپنے طلبہ و طالبات کی ایسی تربیت کریں کہ وہ محض نمبرات حاصل کرنے کے بجائے اپنی صلاحیتوں کو جانچنے اور بہتر بنانے کے لیے محنت کریں۔ نہیں یہ سکھایا جائے کہ نقل دھوکہ ہے، اور اگر کوئی خود کو دھوکہ دے گا، تو سب سے زیادہ نقصان اسی کا ہوگا۔
ہمیں کیا کرنا چاہیے؟
ہمیں یہ عہد کرنا چاہیے کہ ہم نقل کے بے غیر، ایمان داری کے ساتھ کامیابی حاصل کریں گے۔ ہم اپنی محنت اور اللہ رب العزت کی مدد پر بھروسا کریں گے اور کسی بھی غیر اخلاقی طریقے کو اختیار نہیں کریں گے۔
یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اس برائی کے خلاف شعور بیدار کریں اور نرمی و محبت کے ساتھ ایک دوسرے کو سمجھائیں کہ نقل کا انجام کبھی اچھا نہیں ہوتا۔
اللہ رب العزت ہمیں دیانت داری کے ساتھ زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارے علم میں برکت دے۔ آمین
صحیح فرمایا
جواب دیںحذف کریںرب کریم محفوظ فرمائے آمین