عنوان: | اسلام کی ایک خوبی |
---|---|
تحریر: | حسین رضا اشرفی مدنی |
دینِ اسلام ہی دینِ فطرت ہے، اور یہی دین اللہ تعالیٰ کے نزدیک پسندیدہ بھی ہے، اسی لیے اس میں وہ تمام خوبیاں پائی جاتی ہیں جو دینِ حق کے لیے ضروری ہیں، اور یہ ادیانِ باطلہ کی تمام تر برائیوں سے منزہ و پاک ہے۔
دینِ اسلام کی بے شمار خوبیوں میں سے ایک خوبی اس کا نظامِ عدل بھی ہے۔ یہ دنیا کا واحد مذہب ہے جس میں ہر ایک کے حقوق بیان کیے گئے ہیں، خواہ وہ مرد ہو یا عورت، بڑا ہو یا چھوٹا، والدین ہوں یا اولاد، استاد ہو یا شاگرد، رشتہ دار ہو یا دوست احباب، غلام ہو یا آزاد، پڑوسی ہو یا عام مسلمان، حتیٰ کہ اسلام نے ہمیں جانوروں کے حقوق بھی بتائے ہیں اور ہر ایک کے حقوق پورا کرنے کی تاکید فرمائی ہے۔
چنانچہ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
اِنَّ اللّٰهَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ الْاِحْسَانِ وَ اِیْتَآئِ ذِی الْقُرْبٰى (النحل: 98)
ترجمہ کنز الایمان: بیشک اللہ حکم فرماتا ہے انصاف اور نیکی اور رشتہ داروں کے دینے کا۔
عدل اور انصاف کا عام فہم معنی یہ ہے کہ ہر حق دار کو اس کا حق دیا جائے اور کسی پر ظلم نہ کیا جائے۔
ایک دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ عدل کا حکم دیتے ہوئے فرماتا ہے:
اِنَّ اللّٰهَ یَاْمُرُكُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰۤى اَهْلِهَاۙ-وَ اِذَا حَكَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْكُمُوْا بِالْعَدْلِؕ-اِنَّ اللّٰهَ نِعِمَّا یَعِظُكُمْ بِهٖؕ-اِنَّ اللّٰهَ كَانَ سَمِیْعًۢا بَصِیْرًا (النساء: 58)
ترجمہ کنز الایمان: بے شک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں جن کی ہیں، انھیں سپرد کرو اور یہ کہ جب تم لوگوں میں فیصلہ کرو تو انصاف کے ساتھ فیصلہ کرو۔ بے شک اللہ تمہیں کیا ہی خوب نصیحت فرماتا ہے، بے شک اللہ سنتا دیکھتا ہے۔
اس کے علاوہ بھی قرآنِ مجید میں کئی مقامات پر اللہ وحدہٗ لا شریک نے ظلم سے بچنے اور عدل و انصاف کرنے کا حکم ارشاد فرمایا ہے اور انصاف کرنے والوں کو اپنا محبوب قرار دیا ہے۔
اگر بات کی جائے کائنات کے سب سے بڑے عادل، رحمتِ عالم، شافعِ امم، مالکِ رقابِ امم صلی اللہ علیہ وسلم کی، تو آپ نے بھی جا بجا عدل و انصاف کرنے والوں کی تعریف فرمائی ہے۔
چنانچہ آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
إِنَّ الْمُقْسِطِينَ فِي الدُّنْيَا عَلَى مَنَابِرَ مِنْ لُؤْلُؤٍ يَوْمَ الْقِيَامَةِ (ابن أبي شيبة، المصنف لابن أبي شیبۃ، ج: 7، ص: 39، دار التاج)
ترجمہ: بے شک دنیا میں انصاف کرنے والے قیامت کے دن موتی کے منبروں پر ہوں گے۔
اپنے پیارے رب اور اس کے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر عمل کرتے ہوئے مسلمانوں نے عدل و انصاف کی وہ داستانیں رقم کیں، جن کی دنیا نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے۔
اس موقع پر ایک واقعہ ملاحظہ فرمائیے:
جنگِ صفین کے موقع پر حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم کی ایک زرہ گم ہو گئی۔ بعد میں جب آپ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم کوفہ تشریف لائے تو وہ زرہ ایک یہودی کے پاس پائی گئی۔
آپ نے فرمایا: یہ زرہ میری ہے، میں نے تمہیں بیچی ہے نہ تحفے میں دی ہے۔
یہودی نے کہا: یہ زرہ میری ہے، کیونکہ میرے قبضے میں ہے۔
آپ نے فرمایا: ہم قاضی صاحب سے فیصلہ کرواتے ہیں۔
چنانچہ یہ قاضی شریح رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عدالت میں پہنچے۔ حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم ان کے ساتھ تشریف فرما ہوئے۔
قاضی شریح رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: اے امیر المؤمنین! ارشاد فرمائیے۔
آپ نے فرمایا: اس یہودی کے قبضے میں جو زرہ ہے، وہ میری ہے، میں نے اسے نہ بیچا ہے، نہ تحفے میں دیا ہے۔
قاضی شریح رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہودی سے فرمایا: اے یہودی! تم کیا کہتے ہو؟
یہودی بولا: یہ زرہ میری ہے، کیونکہ میرے قبضے میں ہے۔
قاضی صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم سے کہا: اے امیر المؤمنین! کیا آپ کے پاس کوئی دلیل ہے؟
فرمایا: ہاں، قنبر اور حسن دونوں اس بات کے گواہ ہیں۔
قاضی صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: چونکہ امام حسن آپ کے بیٹے ہیں اور شرعی اصول یہ ہے کہ بیٹے کی گواہی باپ کے حق میں جائز نہیں۔
جب اس یہودی نے قاضی صاحب کا عادلانہ فیصلہ سنا تو حیرت زدہ ہو کر کہنے لگا: اے امیر المؤمنین! آپ مجھے قاضی صاحب کے پاس لے کر آئے، اور قاضی صاحب نے آپ ہی کے خلاف فیصلہ کر دیا! میں گواہی دیتا ہوں کہ یہی مذہبِ حق ہے، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ عزوجل کے سوا کوئی معبود نہیں، اور بے شک محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں۔ یہ زرہ آپ ہی کی ہے۔
حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم اس کے اسلام قبول کرنے سے بہت خوش ہوئے، اور وہ زرہ اور ایک گھوڑا اسے تحفے میں دے دیا۔ (مفتی قاسم عطاری، تفسیر صراط الجنان، تحت سورۃ النساء: 58)
پیارے اسلامی بھائیو! ہمیں بھی چاہیے کہ ہم اسلام کی اس منفرد و ممتاز خوبی سے مزین ہوں اور لوگوں کے سامنے اپنے قول و فعل، اخلاق و کردار کے ذریعے اسلام کی صحیح تعلیمات پیش کریں، تاکہ اغیار ہمارے دین سے دور ہونے کے بجائے اس سے قریب آئیں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں عدل و انصاف کرنے کی توفیق نصیب فرمائے۔ آمین یا رب العالمین
مضمون نگار ماڈل جامعۃ المدینہ دعوت اسلامی ناگپور کے استاد ہیں۔ {alertInfo}