عنوان: | عہود ثلاثہ میں جمع قرآن کا تحقیقی جائزہ |
---|---|
تحریر: | سرور رضا احسنی |
قرآن کریم دین اسلام کا سرچشمہ، علم و عرفان کا خزانہ، اپنے بے مثال کمالات و محاسن کے ساتھ اعداء اسلام اور مخالفین قرآن کے لیے چیلنج ہے۔
اہل اسلام نے قرآن اور علوم قرآن کی خدمت میں بے مثال کارنامے انجام دیے ہیں، وہیں اعداء اسلام اور مخالفین قرآن نے بھی اس کتاب لافانی اور نور ہدایت سے کسب فیض کے بجائے اس کی تنقیص، اس پر بے جا اعتراضات اور اس کے اندر شک میں اپنی پوری صلاحیتیں صرف کر دیں۔
مگر زمانہ نزول سے لے کر آج تک ہر طرح کی مخالف کوششیں ناکام رہیں اور مخالفین اسلام کے مفسدانہ خواب کبھی بھی شرمندہ تعبیر نہ ہوئے اور نہ ہی کبھی ہو سکیں گے، کیونکہ اللہ رب العزت نے خود قرآن مقدس کی حفاظت و صیانت کی ذمہ داری اپنے ذمے کرم پر لے لی۔
اللہ رب العزت ارشاد فرماتا ہے:
اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ [ الحجر: 9]
ترجمۂ کنز الایمان: بیشک ہم نے اتارا ہے یہ قرآن اور بیشک ہم خود اس کے نگہبان ہیں۔
انواع جمع القرآن
قرآن کریم تین طریقے پر جمع ہوا:
پہلا طریقہ: حفظ کے طور پر سینوں میں جمع ہوا جیسا کہ حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے اپنے سینہ اقدس میں جمع فرمایا اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین میں سے بہت سے صحابہ نے اپنے سینوں میں جمع فرمایا جیسے کہ حضرت ابی بن کعب، زید بن ثابت، سالم بن معقل مولی ابو حذیفہ، ثابت بن قیس، معاذ بن جبل، عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین۔
دوسرا طریقہ: قرآن مقدس کا ایک مصحف میں جمع ہونا اور یہ وہ جمع ہے جس کو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کے مشورے سے جنگ یمامہ میں حفاظ صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کے شہید ہو جانے سے کروایا تھا۔
تیسرا طریقہ: قرآن کریم کا ایک رسم اور ایک لغت، لغت قریش میں جمع ہونا۔
اور یہ وہ جمع ہے کہ جس کو حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ نے جمع فرمایا جب قرات میں لوگوں کا اختلاف ہوا اور یہ خوف لاحق ہوا کہ اس اختلاف کی وجہ سے کوئی فتنہ نہ پیدا ہو۔ تینوں جمع قرآن تین عہد میں ہوئے۔
پہلا عہد
عہد رسالت میں جمع قرآن
جیسے جیسے قرآن کریم نازل ہوتا حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اسے یاد فرما لیا کرتے تھے اور اس میں سے کچھ بھی نسیان نہ ہو پاتا تھا مگر جو اللہ رب العزت چاہتا جیسا کہ خود باری تعالی نے ارشاد فرمایا:
سَنُقْرِئُكَ فَلَا تَنْسٰۤى اِلَّا مَا شَآءَ اللّٰہُ [الأعلی: 7]
ترجمۂ کنز الایمان: اب ہم تمہیں پڑھائیں گے کہ تم نہ بھولو گے مگر جو اللہ چاہے۔
اس استثناء کے بارے میں مفسرین کے مختلف اقوال ہیں ان میں سے دو قول درج ذیل ہیں:
(١)- استثنا تبرک کے لیے ہے جو حقیقت میں حاصل نہیں ہوا اور وہ یہ کہ جب اللہ تعالی نے پڑھا دیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تو کوئی چیز نہیں بھولے۔
(٢)- یہ ہے کہ حبیب صلی اللہ تعالی علیہ وسلم آپ قرآن مجید میں سے جو کچھ پڑھیں گے اس میں سے کچھ نہیں بھولیں گے البتہ جس آیت کے بارے میں اللہ تعالی خود چاہے گا وہ آپ کو بھلا دے گا اور اس کی صورت یہ ہوگی کہ اللہ تعالی اس آیت کی تلاوت اور حکم دونوں منسوخ فرما دے گا۔
یاد رہے کہ جن آیتوں کی تلاوت اور حکم دونوں منسوخ ہوئے ہیں وہ تمام آیتیں حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نہیں بھولے بلکہ ان میں سے جن آیتوں کے بارے میں اللہ تعالی نے چاہا انہیں آپ کے دل سے اٹھا لیا۔ [مفتی قاسم عطاری، تفسیر صراط الجنان، الأعلی: 7]
جیسے جیسے قرآن کریم نازل ہوتا تو حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم صحابہ کرام کو قرآن کریم کی تعلیم دیتے تھے اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین اس کو یاد فرما لیا کرتے تھے۔
چند حفاظ صحابہ کرام کے نام:
حضرت معاذ بن جبل، حضرت ابی بن کعب، زید بن ثابت، ابو زید، ابو دردہ، عبادہ بن صامت، سعید بن عبید، عبداللہ بن عمر بن عاص، عبداللہ بن مسعود، سالم بن معاقل مولی ابو حذیفہ، ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین۔
حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے زمانہ اقدس میں قرآن کریم کی جمع و ترتیب آیات، اور سورتوں کی تکمیل و تفصیل اللہ رب العزت کے حکم سے اور جبرئیل امین علیہ السلام کے بیان کے مطابق، حضور اکرم سید المرسلین صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے ارشاد و تعلیم کے مطابق ہو گئی تھی مگر ایک جگہ پورا قرآن مجید مجموع نہ تھا بلکہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین کے سینوں اور متفرق کاغذوں، پتھر کی تختیوں، بکری، دنبے کی پوستوں، شانوں، پسلیوں وغیرہ میں تھا۔ [اعلیٰ حضرت، فتاویٰ رضویہ، ج: 26 ص: 439، رضا فاؤنڈیشن لاہور]
اعتراض: جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جاہلیت کے زمانہ میں آشنائے کتابت کون تھا کہ ابتداء نزول سے کتابت بھی ہونے لگی؟
جواب: تو وہ سخت غلط فہمی کے شکار اور تاریخ سے بے خبر ہیں اور جاہلیت کے صحیح مفہوم سے نا آشنا ہیں۔ جاہلیت ایک خاص مفہوم رکھتا ہے جس سے ایک دور اور اس کے کردار و احوال کے تعبیر کی جاتی ہے اس کا یہ معنی نہیں کہ اس زمانے میں علم و فن سے کوئی آشنا ہی نہ تھا۔ [علامہ محمد احمد مصباحی، تدوین قرآن، ص: 40، ادارہ تصنیفات امام احمد رضا، کراچی]
دوسرا عہد
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے عہد میں جمع قرآن
یہ بات معلوم ہو چکی ہے کہ عہد رسالت ہی میں قرآن کی کتابت ہو چکی تھی مگر اس وقت قرآن کریم مختلف چیزوں اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہ کے سینوں میں محفوظ تھا مگر جب جنگ یمامہ کا واقعہ پیش آیا۔
جنگ یمامہ جو کہ مسلمانوں اور مسیلمہ کذاب کے مابین ہوئی جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے ہی میں دعوۂ نبوت کر دیا تھا، مگر جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو بہت سے قبائل عرب اسلام سے منحرف ہو گئے تو مسیلمہ بھی زور پکڑ گیا تو اس کے مدافعت کے لیے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالی عنہ کی قیادت میں کثیر جماعت صحابہ پر مشتمل ایک فوج بھیجی جس نے مسیلمہ اور اس کے حامیوں کے مابین سخت معرکہ آرائی کی، مسیلمہ خائب و خاسر ہوا اور مسلمانوں کو فتح ہوئی، مگر اس جنگ میں تقریبا (1200) صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم شہید ہوئے جن میں صرف حفاظ شہداء کی تعداد (700) تھی، حفاظِ صحابہ کرام کی شہادت کے بعد، قرآن کریم کی یکجا کتابت لازمی سمجھی گئی۔
اس لیے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قرآن کریم کو باقاعدہ تحریری شکل میں یکجا کرنے کا حکم دیا۔
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ جنگ یمامہ کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مجھے بلوانے کے لیے دو آدمی بھیجے۔ جب میں وہاں پہنچا تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی موجود تھے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:
جنگ یمامہ میں حفاظِ صحابہ کرام کی بڑی تعداد میں شہادت ہوئی ہے۔ اگر یہی سلسلہ دیگر معرکوں میں جاری رہا تو قرآن کریم ضائع ہونے کا خدشہ ہے۔ میری رائے یہ ہے کہ قرآن کو جمع کر دیا جائے۔
میں نے کہا: میں وہ کام کیسے کر سکتا ہوں جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا؟
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: بخدا، یہ کام بہتر ہی ہے۔ وہ بار بار یہی کہتے رہے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے میرے سینے کو بھی اس کے لیے کھول دیا اور اب میری بھی یہی رائے تھی جو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تھی۔
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ نے فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکر نے مجھ سے کہا:
تم عقلمند ہو، جوان ہو، اور زمانۂ رسالت میں وحی کے کاتب بھی تھے۔ لہٰذا تم قرآن کو تلاش کرکے جمع کرو۔
حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:
والله لو کلفوني نقل جبل من الجبال ما کان أثقل مما أمرني به من جمع القرآن۔ [ابن حجر، فتح الباري شرح صحیح البخاري، باب جمع القرآن، جلد: 9، ص: 14، دار السلام، الریاض]
خدا کی قسم! اگر مجھے کوئی پہاڑ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کا حکم دیا جاتا تو وہ مجھے اس ذمہ داری سے زیادہ بھاری محسوس نہ ہوتا جو قرآن کو جمع کرنے کی تھی۔
گفت و شنید جاری رہی، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے میرے سینے کو بھی اس کے لیے کھول دیا، اور میں نے کھجور کے پتوں، سنگی تختیوں اور صحابہ کرام کے سینوں سے قرآن کریم کو جمع کرنا شروع کیا۔ یہاں تک کہ سورہ توبہ کی آخری دو آیتیں:
لقد جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ [التوبة: 128]
مجھے حضرت ابوخزیمہ انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس ملیں۔
یوں تمام سورتوں کو یکجا کر کے صحیفے تیار کر لیے گئے۔ ہر سورہ الگ الگ صحیفے میں تھی، اور اس طرح پورا قرآن ایک جگہ جمع ہو گیا۔ یہ صحیفے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس رہے، پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس، اور ان کی شہادت کے بعد حضرت ام المؤمنین حفصہ بنت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس محفوظ رہے۔ [علامہ محمد احمد مصباحی، تدوین قرآن، ص: 76 تا 70، ادارہ تصنیفات امام احمد رضا، کراچی]
تیسرا عہد
خلافت عثمانی میں جمع قرآن:
عرب میں ہر قبیلہ کا لہجہ اور زبان ایک دوسرے سے مختلف تھی۔ مثلاً حرف تعریف کوئی ”الف لام“ کو کہتا تو کوئی ”الف میم“ کو، اسی لغت پر حدیث شریف میں وارد ہے: لیس من امبر الصیام فی امسفر۔ کوئی علامت مضارع، حروف: اتین، مفتوح پڑھتا تو کوئی مکسور۔ ما مشبہ بلیس، کی خبر کوئی منصوب پڑھتا تو کوئی مرفوع، غرض کہ بہت اختلاف تھا۔
چونکہ قرآن کریم لغتِ قریش میں نازل ہوا تھا، کیوں کہ صاحب قرآن صلی اللہ علیہ وسلم قریشی تھے، زمانہ اقدس ﷺ میں اور قوم و قبیلہ کا دفعتا اپنی زبان کو بدل دینا دشوار تھا۔
اس لیے ابتدا میں ہر قبیلہ کو اپنے لب و لہجے میں تلاوت کی اجازت دی گئی۔ لیکن بعد میں جب مختلف علاقوں میں لوگ اسلام قبول کرتے گئے تو ہر قوم اپنے مخصوص لہجے کو ہی اصل سمجھنے لگی اور اس پر سختی کرنے لگی۔
یہاں تک کہ بعض علاقوں میں اس مسئلے پر اختلاف شدت اختیار کر گیا اور جھگڑوں کی نوبت آ گئی۔ جب حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ خبر پہنچی تو آپ نے فرمایا: اگر آج ہی امت میں یہ اختلاف ہے تو آگے کیا ہوگا؟
چنانچہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے مشورے سے طے پایا کہ تمام لوگ اب صرف لغتِ قریش میں قرآن پڑھیں گے۔
حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے أم المؤمنین حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جمع کردہ صحیفے منگوائے اور حکم دیا کہ ان کی نقلیں لے کر ایک مصحف میں جمع کیا جائے، اور دوسرے ملکوں میں بھیجا جاۓ تاکہ تمام لوگ اسی لہجہ کے اتباع کریں، اور اس کے خلاف جو صحائف یا مصاحف بعض لوگوں نے لکھے دفع فتنہ کے لیے تلف کر دیا جاۓ۔
اسی راۓ صائب کی بنا پر امیر المؤمنین حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ نے ام المؤمنین حضرت حفصہ بنت عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کو کہلا بھیجا کہ صحیفۂ صدیقی بھیج دیجیے۔
حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت زید بن ثابت، حضرت عبداللہ بن زبیر، حضرت سعید بن عاص، اور حضرت عبدالرحمٰن بن حارث بن ہشام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو اس کام پر مامور کیا گیا۔ چنانچہ نقل شدہ مصاحف کو مختلف ممالک: یمن، بحرین، بصرہ، کوفہ، کو بھیجی گئی میں بھجوا دیا گیا، اور ایک صحیفہ مدینہ طیبہ میں رہا۔
اور صحیفۂ صدیقی کو نقل کے بعد دوبارہ أم المؤمنین حضرت حفصہ رضی اللہ تعالی عنہا کے پاس بھیج دیا گیا۔ [اعلیٰ حضرت، فتاویٰ رضویہ، ج:26، ص:441، رسالہ:5، رضا فاؤنڈیشن، لاہور،]
جیسا کہ حدیث پاک ہے:
حَدَّثَنَا مُوسَی حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ حَدَّثَنَا ابْنُ شِهَابٍ أَنَّ أَنَسَ بْنَ مَالِکٍ حَدَّثَهُ أَنَّ حُذَيْفَةَ بْنَ الْيَمَانِ قَدِمَ عَلَی عُثْمَانَ وَکَانَ يُغَازِي أَهْلَ الشَّأْمِ فِي فَتْحِ إِرْمِينِيَةَ وَأَذْرَبِيجَانَ مَعَ أَهْلِ الْعِرَاقِ فَأَفْزَعَ حُذَيْفَةَ اخْتِلَافُهُمْ فِي الْقِرَائَةِ فَقَالَ حُذَيْفَةُ لِعُثْمَانَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ أَدْرِکْ هَذِهِ الْأُمَّةَ قَبْلَ أَنْ يَخْتَلِفُوا فِي الْکِتَابِ اخْتِلَافَ الْيَهُودِ وَالنَّصَارَی فَأَرْسَلَ عُثْمَانُ إِلَی حَفْصَةَ أَنْ أَرْسِلِي إِلَيْنَا بِالصُّحُفِ نَنْسَخُهَا فِي الْمَصَاحِفِ ثُمَّ نَرُدُّهَا إِلَيْکِ فَأَرْسَلَتْ بِهَا حَفْصَةُ إِلَی عُثْمَانَ فَأَمَرَ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ وَعَبْدَ اللَّهِ بْنَ الزُّبَيْرِ وَسَعِيدَ بْنَ الْعَاصِ وَعَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الْحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ فَنَسَخُوهَا فِي الْمَصَاحِفِ وَقَالَ عُثْمَانُ لِلرَّهْطِ الْقُرَشِيِّينَ الثَّلَاثَةِ إِذَا اخْتَلَفْتُمْ أَنْتُمْ وَزَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ فِي شَيْئٍ مِنْ الْقُرْآنِ فَاکْتُبُوهُ بِلِسَانِ قُرَيْشٍ فَإِنَّمَا نَزَلَ بِلِسَانِهِمْ فَفَعَلُوا حَتَّی إِذَا نَسَخُوا الصُّحُفَ فِي الْمَصَاحِفِ رَدَّ عُثْمَانُ الصُّحُفَ إِلَی حَفْصَةَ وَأَرْسَلَ إِلَی کُلِّ أُفُقٍ بِمُصْحَفٍ مِمَّا نَسَخُوا وَأَمَرَ بِمَا سِوَاهُ مِنْ الْقُرْآنِ فِي کُلِّ صَحِيفَةٍ أَوْ مُصْحَفٍ أَنْ يُحْرَقَ۔ [البخاري، صحیح البخاري، باب جمع القرآن، رقم الحدیث:4987]
امام بخاری، موسی، ابراہیم، ابن شہاب، حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ:
حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس پہنچے اس وقت وہ اہل شام و عراق کو ملا کر فتح آرمینۃ و آذربائیجان میں جنگ کر رہے تھے قرأت میں اہل عراق و شام کے اختلاف نے حضرت خزیفہ کو بےچین کردیا، چنانچہ حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ سے کہا: کہ اے امیرالمومنین!
اس امت کی خبر لیجئے قبل اس کے کہ وہ یہود و نصاریٰ کی طرح کتاب میں اختلاف کرنے لگیں۔
حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت حفصہ کو کہلا بھیجا کہ تم وہ صحیفے میرے پاس بھیج دو، ہم اس کے چند صحیفوں میں نقل کرا کر پھر تمہیں واپس کردیں گے۔
حضرت حفصہ رضی اللہ تعالی عنہا نے یہ صحیفے حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کو بھیج دیے حضرت عثمان نے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ، عبداللہ بن زبیر رض اللہ تعالی عنہ، سعید بن عاص، عبدالرحمٰن بن حارث بن ہشام رضی اللہ تعالی عنہم کو حکم دیا تو ان لوگوں نے اس کو مصاحف میں نقل کیا اور حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے ان تینوں قریشیوں سے کہا کہ جب تم میں اور زید بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ میں کہیں (قراءت) قرآن میں اختلاف ہو تو اس کو قریش کی زبان میں لکھو اس لیے کہ قرآن انہیں کی زبان میں نازل ہوا ہے چنانچہ ان لوگوں نے ایسا ہی کیا یہاں تک کہ جب ان صحیفوں کو مصاحف میں نقل کرلیا گیا تو حضرت عثمان رض اللہ تعالی عنہ نے وہ صحیفے حضرت حفصہ رضی اللہ تعالی عنہا کے پاس بھجوا دیے اور نقل شدہ مصاحف میں سے ایک ایک تمام علاقوں میں بھیج دیئے اور حکم دے دیا کہ اس کے سوائے جو قرآن صحیفہ یا مصاحف میں ہے جلا دیا جائے۔
ان صحیفے کے متعلق معاذ اللہ دفن کرنے یا کسی طرح تلف کر دینے کی نسبت محض جھوٹ ہے۔
وہ صحیفے خلافت عثمانی پھر خلافت مرتضی پھر خلافت امام حسن پھر خلافت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہم تک بعینہ محفوظ تھا یہاں تک کہ مروان نے چاک کر دیا۔ [اعلی حضرت فتاویٰ رضویہ، ج:26، ص:441، رضا فاؤنڈیشن، لاہور ]
اس طرح عہود ثلاثہ میں قرآن کریم کی تدوین ہوئی۔
ما شاء اللہ تعالیٰ
جواب دیںحذف کریںاُنکے اصحاب و عترت پہ لاکھوں سلام
صلی اللہ علیہ وسلم