✍️ رائٹرز کے لیے نایاب موقع! جن رائٹر کے 313 مضامین لباب ویب سائٹ پر شائع ہوں گے، ان کو سرٹیفکیٹ سے نوازا جائے گا، اور ان کے مضامین کے مجموعہ کو صراط پبلیکیشنز سے شائع بھی کیا جائے گا!

جنگ آزادی کا ایک عظیم قائد

عنوان: جنگ آزادی کا ایک عظیم قائد
تحریر: محمد علاء الدین قادری مصباحی بلرام پور

اللہ تعالیٰ نے جب کائناتِ عالم کو وجود بخشا تو لاتعداد مخلوقات کو پیدا فرمایا؛ لیکن بے شمار مخلوقات میں عظمت و بزرگی کا سہرا صرف انسان کے سر پر رکھا۔

جب سے دنیا معرضِ وجود میں آئی، کروڑہا انسان اس فانی دنیا میں آئے اور اپنا سفرِ حیات طے کر کے رخصت ہوگئے۔ بہت سے خائب و خاسر اور مراد کو حاصل کیے بغیر ہی چلے گئے، جبکہ دیگر نیک بخت لوگ مراد و مقصود کو حاصل کر کے اللہ رب العزت کی بارگاہ میں سرخرو ہوئے۔

اسی مبارک و مسعود جماعت میں فخرِ ہندوستان، جامعِ معقولات و منقولات، قائدِ جنگِ آزادی، حضرت علامہ فضلِ حق خیرآبادی علیہ الرحمہ کی ذاتِ بابرکات بھی ہے۔ آپ نے تحریکِ جنگِ آزادی میں ایسا مجاہدانہ کردار انجام دیا ہے جو آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہے؛ بلکہ اس سے بھی فائق ہے۔

آپ کی ولادتِ مبارکہ 1212ھ (1797ء) کو یوپی کے ضلع سیتا پور کے ایک مردم خیز قصبہ ”خیرآباد“ میں ہوئی۔ آپ کے والدِ بزرگوار علامہ فضل امام خیرآبادی علیہ الرحمہ (صاحبِ مرقاۃ) علومِ عقلیہ میں یکتائے روزگار اور دہلی کے صدر الصدور تھے۔

والدہ محترمہ پاک طینت اور نیک سیرت خاتون تھیں۔ گھر کا پورا ماحول عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سرشار تھا۔ ایسے پاکیزہ اور پرنور ماحول میں آپ کی نشو و نما ہوئی۔

جب آپ کی عمر چار ماہ چار دن کی ہوئی تو خاندان کی روایت کے مطابق رسمِ بسم اللہ خوانی ادا کی گئی۔ ابتدائی تعلیم کے بعد اعلیٰ تعلیم (علومِ نقلیہ) کے لیے دہلی کا سفر کیا اور اکابر علما کی بارگاہ میں زانوے تلمذ تہہ کر کے 13 سال کی قلیل مدت میں رائج الوقت تمام علوم و فنون سے فراغت حاصل کی۔ آپ کی ذات علومِ عقلیہ و نقلیہ کا سنگم تھی۔

آپ طویل عرصے تک درس و تدریس سے منسلک رہے اور آپ کے علمی فیضان سے طالبانِ علومِ نبویہ فیض یاب ہوتے رہے۔ آپ کی ذاتِ گرامی صرف درس و تدریس تک محدود نہ تھی؛ بلکہ مخلوقِ خدا کے ساتھ حسنِ سلوک اور امدادِ رسانی کا جذبہ بھی آپ کے سینے میں موجزن تھا۔

یہی وجہ ہے کہ جب آپ کی نظر ملکِ عزیز ہندوستان میں انگریزوں کے بڑھتے ہوئے اقتدار پر پڑی اور حب الوطنی نے جوش مارا تو آپ نے انگریزوں کے خلاف جامع مسجد دہلی میں جمعہ کے دن فتویٰ جہاد دیا۔ اس فتویٰ پر اس وقت کے اکابر علما نے دستخط کیے اور مفتی صدرالدین آزردہ دہلوی علیہ الرحمہ نے خطیر رقم خرچ کر کے اس فتویٰ کی نشر و اشاعت فرمائی۔

اس فتویٰ کی اشاعت کے سبب دہلی میں 90 ہزار سپاہی جمع ہوگئے اور گھمسان کی جنگ ہوئی، لیکن بدقسمتی سے انگریزوں کو کامیابی ملی۔ برطانوی حکومت نے آپ کو فتویٰ جہاد دینے کے پاداش میں کالے پانی کی سزا سنائی۔ قید و بند کی صعوبتوں کو آپ خود ہی اپنے زبانِ حال سے یوں بیان فرماتے ہیں:

کچھ ہی دن گزرے کہ ایک انگریز حاکم نے مجھے گھر سے بلا کر قید کردیا اور رنج و غم میں مبتلا کر کے دارالسلطنت (لکھنؤ) بھیج دیا، جو دراصل خانۂ ہلاکت تھا۔ میرا معاملہ ایسے ظالم حاکم کے سپرد کردیا گیا جو مظلوم پر رحم کرنا جانتا ہی نہ تھا۔

اس نے میری جلاوطنی اور عمر قید کا فیصلہ صادر کیا اور میری کتابیں، جائیداد، مال و متاع اور اہل و عیال کے رہنے کا مکان، غرض کہ ہر چیز پر غاصبانہ قبضہ کرلیا۔ پھر ترش رو دشمن کے ظلم نے مجھے دریائے شور کے کنارے ایک بلند و مضبوط ناموافق آب و ہوا والے پہاڑ (جزیرۂ انڈمان) پر پہنچا دیا، جہاں سورج ہمیشہ سر پر رہتا تھا، اس میں دشوار گزار گھاٹیاں اور راہیں تھیں، جنھیں دریائے شور کی موجیں ڈھانپ لیتی تھیں۔

علامہ کے شب و روز انہی مصائب و آلام میں گزرتے رہے اور بالآخر 12 صفر المظفر 1278ھ (مطابق 1861ء) کو یہ علم و فضل کا امام، بطلِ حریت، مجاہدِ ملت اور مدبرِ قوم و ملت داعیٔ اجل کو لبیک کہہ گیا۔ آپ کی قبر جزیرۂ انڈمان کے ساؤتھ پوائنٹ (نمک بھٹہ) کے ایک بستی میں ہے۔

ابرِ رحمت تیری مرقد پہ گہر باری کرے
حشر تک شانِ کریمی ناز برداری کرے

1 تبصرے

جدید تر اس سے پرانی
WhatsApp Profile
لباب-مستند مضامین و مقالات Online
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مرحبا، خوش آمدید!
اپنے مضامین بھیجیں