✍️ رائٹرز کے لیے نایاب موقع! جن رائٹر کے 313 مضامین لباب ویب سائٹ پر شائع ہوں گے، ان کو سرٹیفکیٹ سے نوازا جائے گا، اور ان کے مضامین کے مجموعہ کو صراط پبلیکیشنز سے شائع بھی کیا جائے گا!

کاش میرے والدین میرے نکاح میں دیر نہ کرتے!

عنوان: کاش میرے والدین میرے نکاح میں دیر نہ کرتے!
تحریر: ابو تراب سرفراز احمد عطاری مصباحی

اب سے کچھ ماہ پہلے کی بات ہے، تقریباً دس دن کے اندر مجھے دو کال آئیں۔ دونوں کال میں ایک ہی بات تھی، پوچھا یہ گیا تھا کہ ’’فلاں لڑکی سے میرا رشتہ طے ہوچکا ہے، بس شادی ہونا باقی ہے۔‘‘

میں نے معلومات لی تو پتہ چلا کہ دونوں رشتوں میں وہ لڑکی لڑکے پر ہمیشہ کے لیے حرام ہے، وجہ یہ کہ لڑکے کے اس لڑکی کی والدہ کے ساتھ ناجائز تعلقات ہوچکے تھے۔

الحمد للہ رب العٰلمین! شرعی مسئلہ بتانے پر دونوں فریق کا اس رشتے کو ختم کرنے کا ذہن بن گیا، لیکن کال کے آخر میں ایک فرد نے ایسی بات کہی جس نے مجھے جھنجوڑ کر رکھ دیا۔

اس نے کہا: ’’حضرت! یہ بتائیے کہ والدین اولاد کے نکاح میں کیوں دیر کرتے ہیں؟ وہ لوگ کیا کہیں گے؟ لوگوں کو دکھانے اور مہنگی مہنگی شادی کرنے کے چکر میں کیوں تاخیر کرتے ہیں؟ جس کے نتیجے میں ایک بڑی تعداد بڑے بڑے گناہوں میں مبتلا ہوتی جارہی ہے۔ اگر اولاد کا نکاح جلدی ہو جائے تو وہ گناہوں سے بچ سکتی ہے۔‘‘

’’کاش میرا نکاح بھی میرے والدین نے جلدی کیا ہوتا تو آج میں اس آفت میں نہ پھنستا!‘‘

قارئین! یہ میں نے صرف دو کال کا تذکرہ کیا ہے، حالات اس سے کئی گنا زیادہ خراب ہیں۔ شادیوں کے بڑھتے اخراجات نے زنا کو سستا کردیا ہے، اور نہ جانے کتنی لڑکیاں اور لڑکے اس آفت کے شکار ہوتے جارہے ہیں۔

آخر اس کا ذمہ دار کون؟

ذرا ٹھنڈے دماغ کے ساتھ غور کریں: کیا آپ میں ہی تو اس کے ذمہ دار نہیں؟

اللہ کے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

خير النكاح ايسره۔ (مسند الشھاب:1226)

ترجمہ: بہترین نکاح وہ ہے جو آسان تر ہو۔

کیا خود میں نے نکاح کو سستے اور سادے انداز میں کرنے کی کوشش کی؟ کیا میں نے اپنے گھر میں اس سنت کو زندہ کرنے کی کوشش کی؟ اگر میں اور آپ ہی اس طرف قدم نہیں بڑھائیں گے تو اور کوئی کیسے بڑھائے گا؟

آئیے! ہم مل کر اس سنت کو زندہ کرتے ہیں۔

قربان جاؤں مرشدی ’’امیر اہل سنت حکیم الامت علامہ مولانا محمد الیاس عطار قادری رضوی‘‘ دامت برکاتہم العالیہ پر، جنھوں نے اس سنت کو زندہ کیا، اور آپ کی اتباع میں متعدد افراد نے بھی اس سنت کو زندہ کیا۔

اور اسی طرح بڑے ہی لائق مبارک باد ہیں مولانا اکرم مدنی (علی گڑھ) اور ان کے والدین کہ جنھوں نے اس سنت کو زندہ کرنے میں حصہ لیا۔ کل 11 افراد پر مشتمل برات، مسجد میں اجتماعِ ذکر و نعت کے ساتھ تقریبِ نکاح، اور گھر گھر ہی مکمل پردے کے اہتمام کے ساتھ رخصتی۔ نہ شادی ہال کا خرچ، نہ جہیز کی رسم۔

انھوں نے اللہ اور اس کے رسول کی رضا کا خیال کیا۔ اور ہے بھی ایسا! اگر آپ لوگوں کی باتوں پر جائیں گے تو کبھی خوش نہیں رہ سکیں گے، اور اگر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا کی کوشش کریں گے تو دنیا و آخرت ہر جگہ خوشیاں اور کامیابیاں آپ کے قدم چومیں گی۔

اور رحمت للعالمین آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا بڑا ہی پیارا فرمان ہے:

’’مَنْ تَمَسَّکَ بِسُنَّتِی عِنْدَ فَسَادِ اُمَّتِی فَلَہُ اَجرُ مِائَۃِ شَہِیْدٍ۔‘‘ (مشکاۃ المصابیح،ج1،ص55، حدیث: 176)

ترجمہ: ’’جو فسادِ امّت کے وقت میری سنّت پر عمل کرے گا، اسے سو شہیدوں کا ثواب ملے گا۔‘‘

آئیے! اور اٹھیے۔ اس سنت کو آپ بھی زندہ کیجیے اور سو شہیدوں کا ثواب حاصل کیجیے۔

مضمون نگار کئی کتابوں کے مصنف اورجامعۃ المدینہ فیضان مخدوم لاہوری، موڈاسا کے استاذ ہیں۔ {alertInfo}

1 تبصرے

جدید تر اس سے پرانی
WhatsApp Profile
لباب-مستند مضامین و مقالات Online
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مرحبا، خوش آمدید!
اپنے مضامین بھیجیں