عنوان: | کیا چندہ(ڈونیشن) واقعی ضروری ہے؟ |
---|---|
تحریر: | ام معاویہ عطاریہ |
موجودہ دور میں، بھاگتی دوڑتی دنیا میں، جہاں ہم روزانہ نہ جانے کتنے ہی پیسے اپنی شوق و ضرورت کو پورا کرنے کے لیے لگا دیتے ہیں، لیکن جب کسی دینی ادارے یا دینی تنظیم یا مساجد و مدرسے سے ضروریات کو پورا کرنے کے لیے چندے مانگنے کے لیے آواز لگائی جاتی ہے تو ایک تعداد ہے جو ناپسندیدگی کا اظہار کرتی نظر آتی ہے۔
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ انہوں نے چندے کو اپنا کاروبار بنا لیا ہے، وغیرہ وغیرہ۔ اب سوال یہ ہوتا ہے کہ کیا واقعی چندہ ضروری ہے؟
موجودہ دور کے حالات کسی سے چھپے ہوئے نہیں ہیں۔ مسلمانوں کے بچوں کے لیے صحیح اسکولوں تک کا انتظام نہیں، مجبوراً ہم اپنے بچوں کو غیر اسلامی کلچر والے اسکولوں میں ڈالنے پر مجبور ہو جاتے ہیں، جہاں ہمارے بچوں کو کبھی کفریہ باتیں پڑھائی جاتی ہیں۔
یہاں تک کہ یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ پوجا میں پڑھے جانے والے کلمات تک یاد کروائے جاتے ہیں۔ اور جب بچے ان اسکولوں سے تعلیم مکمل کر کے نکلتے ہیں تو اپنا ایمان وہیں کہیں برباد کر چکے ہوتے ہیں یا نام نہاد مسلمان بن کر رہ جاتے ہیں، اور بعد میں یہی بچے اسلامی معاملات میں طرح طرح کے سوالات اٹھاتے ہیں۔
دوسری طرف اگر اسلامی اسکولوں کی طرف جائیں تو بد مذہب کے اسکول و مدرسے ہوتے ہیں، جہاں سے ہمارے بچے گمراہ ہو کر نکلتے ہیں۔ بعد میں ہم ہی اپنی قسمت کو برا بھلا کہتے ہیں کہ ہمارے بچے معاذ اللہ مرتد ہوگئے، ہمارے بچے گمراہ ہو گئے، بد دین ہو گئے۔
کتنے ہی والدین پریشان رہتے ہیں کہ اپنے بچوں کو کس اسکول میں داخل کروائیں کہ میرا بچہ کفر کے لپیٹوں سے محفوظ رہے۔ آئے دن ایسی خبریں سننے میں آتی ہیں کہ مسلم بچوں پر اسکولوں میں تشدد کیا جارہا ہے وغیرہ وغیرہ۔ یہ باتیں کسی سے چھپی نہیں ہیں، لیکن ان سب میں ہم نے اپنا قصور تلاش نہیں کیا۔
ہم نے کبھی علمائے اہلسنت کی اس طرح مدد نہیں کی کہ وہ کھل کر دین کا کام کر سکیں۔
اگر علماء روزگار میں پریشان رہیں گے تو دین کی خدمت کون کرے گا؟ ہم نے کبھی دینی اداروں یا دینی تنظیموں (اہلسنت) کو اس طرح تعاون کیا ہوتا تو آج ہر جگہ مضبوط تعلیمی نظام ہوتا اور ہمارے بچے ایمان کو سلامت رکھتے ہوئے دینی و دنیاوی تعلیم حاصل کرتے۔
بچے کچی مٹی کی طرح ہوتے ہیں، اور افسوس! صد کڑوڑ افسوس کہ ان کچی مٹیوں کو ہم اپنے ہی ہاتھوں سے غیر اسلامی کلچر کے حوالے کر دیتے ہیں، اور پھر بعد میں روتے ہیں، پچھتاتے ہیں کہ یہ ہمارے بچوں کو کیا ہوگیا؟ دین کی باتیں ہی کوئی نہیں سمجھتے۔
جب ہم نے تعاون کیا تو اس کے نتائج بھی سامنے آئے ہیں، الحمدللہ! کئی اہلسنت کے ادارے، جامعہ اسی چندے کے ہی نتائج ہوتے ہیں۔
دعوت اسلامی کے دارالمدینہ بھی اپنی مثال آپ ہے، جہاں بچوں کو انگریزی میڈیم میں دینی و دنیاوی بہترین تعلیم دی جا رہی ہے، وہ بھی جدید ٹکنالوجی کے مطابق۔
جن جن علاقوں میں یہ اسکول ہیں، واقعی وہاں کے لوگ اطمینان محسوس کرتے ہوں گے کہ اب ہمارے بچوں کے عقائد و نظریات محفوظ رہیں گے، ان شاء اللہ۔ اسی طرح دعوت اسلامی کے کئی جامعۃ المدینہ، مدرسۃ المدینہ وغیرہ ہیں، یہ تمام چندے کے ہی نتائج ہیں۔
دعوت اسلامی ہر میدان میں بہترین کام سرانجام دے رہی ہے، اللہ کی رحمت سے اور نہ جانے کتنے مسلمانوں کے عقائد و نظریات کو محفوظ کر رہی ہے۔ ان تمام امور میں چندے کا بہت اہم کردار ہے۔ جی ہاں، وہی چندہ جسے ہم آج اہمیت نہیں دیتے۔
چندہ صرف کچھ معمولی رقم جمع نہیں کرنا نہیں ہے بلکہ یہ دین کی فلاح میں آپ کا تعاون ہے، دین کی حفاظت کا ایک ذریعہ ہے، دینی نظام کو مضبوط کرنے کا ایک سبب ہے، مختلف فتنوں سے اس امت کو بچانے کی طرف ایک قدم ہے، اور اللہ تعالیٰ اس کا بہترین اجر عطا فرماتا ہے۔
مولائے کریم ہمیں علمائے اہلسنت و دینی اداروں کی تعاون کی سعادت عطا کرے۔ یاد رکھیں، یہ ہمارے پیسوں کا نصیب ہی ہوگا جو کسی نیک کام میں خرچ ہو جائے، ورنہ روزانہ کتنے ہی پیسے ہم بلا ضرورت خرچ کر دیتے ہیں۔
چاہتے ہم سب ہیں کہ ہمیں ہر نظام بہترین ملے، اپنے لیے بھی، اپنی نسلوں کے لیے بھی، لیکن صرف چاہنے سے کچھ نہیں ہوتا جب تک کہ ہم اس کے لیے کوششیں نہ کریں۔
کوشش اس طرح کر سکتے ہیں کہ جن کے پاس علم اور وقت ہے وہ علم و وقت کو صَرف کریں، جن کے پاس رقم ہے وہ رقم لگائیں۔ غرض جو جیسی کوشش کر سکتے ہیں، کریں۔ اخلاص کے ساتھ دیا ہوا چند روپیہ بھی آپ کی بخشش و نجات کا ذریعہ بن سکتا ہے۔
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:
لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّىٰ تُنْفِقُوا مِّمَّا تُحِبُّونَ وَمَا تُنفِقُوا مِنْ شَيْءٍ فَإِنَّ اللَّـهَ بِهِ عَلِيمٌ (آل عمران: 92)
ترجمہ کنزالایمان: تم ہرگز بھلائی کو نہ پہنچو گےجب تک راہِ خدا میں اپنی پیاری چیز خرچ نہ کرو، اور تم جو کچھ خرچ کرو اللہ کو معلوم ہے۔
لہذا ہمیں چاہیے کہ اخلاص کے ساتھ علمائے اہل سنت و دیگر دینی ادارے و دینی تنظیم کی جتنا ممکن ہو امداد کریں، اللہ کریم سے دعا ہے کہ وہ ہم سے دین کے بہترین کام لے۔ آمین۔