✍️ رائٹرز کے لیے نایاب موقع! جن رائٹر کے 313 مضامین لباب ویب سائٹ پر شائع ہوں گے، ان کو سرٹیفکیٹ سے نوازا جائے گا، اور ان کے مضامین کے مجموعہ کو صراط پبلیکیشنز سے شائع بھی کیا جائے گا!

کیا ہر شخص خود قرآن و حدیث سے مسئلہ سمجھ سکتا ہے؟

عنوان: کیا ہر شخص خود قرآن و حدیث سے مسئلہ سمجھ سکتا ہے؟
تحریر: ابو تراب سرفراز احمد عطاری مصباحی

قرآن و حدیث سے مسئلہ سمجھنے کے لیے بہت زیادہ علم چاہیے، جو علماء اس قدر علم رکھتے ہیں انہیں مجتہد کہتے ہیں، جیسے امام اعظم، امام شافعی، امام احمد بن حنبل، امام مالک علیہم الرحمہ وغیرہ۔

دنیا میں دو طرح کے لوگ ہیں: مجتہد: جو قرآن و حدیث سے مسئلہ سمجھ سکتے ہیں۔ اور دوسرے غیر مجتھد: جن کے پاس اتنا علم نہیں کہ قرآن و حدیث سے ہر مسئلہ سمجھ سکیں۔ اس طرح کے لوگوں کے بارے میں قرآن فرماتا ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ اگر تمہیں نہیں معلوم تو علم والوں سے پوچھ لو۔

اس آیت کی بنیاد پر تیسری صدی ہجری میں اس وقت کے تمام علماء نے اس بات پر اتفاق کیا کہ وہ لوگ جو خود سے قرآن و حدیث سے ہر مسئلہ نہیں سمجھ سکتے وہ مجتہد علماء کی پیروی کریں۔ اس پیروی کو تقلید اور پیروی کرنے والے کو مقلد کہتے ہیں۔

اس زمانے سے لے کر 18ویں صدی عیسوی تک لوگ اسی طرح عمل کرتے رہے۔ اس کے بعد باقاعدہ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت ہمفرے نامی انگریزی جاسوس کو ایک شخص یعنی ابن عبد الوہاب نجدی کے ساتھ رکھا گیا، جس نے اس کے ساتھ کلاس فیلو کا کردار ادا کیا اور کچھ عیسائیوں کی طرف سے دیے گئے منصوبوں کے لیے اسے تیار کیا۔

ان منصوبوں میں سے ایک منصوبہ عوام کو علماء سے دور کرنا تھا تاکہ وہ محبتِ رسول کو بآسانی دل سے نکال سکیں۔ اسی بنیاد پر ابن عبد الوہاب نجدی نے فتویٰ دیا کہ جو کسی عالم کی تقلید کرتا ہے وہ کافر ہے۔ اس طرح اس نے حکومت کی مدد سے ہزاروں لوگوں کا قتل عام کرایا اور ایک کتاب التوحید کے نام سے لکھی، جس میں تقلید کو شرک کہا گیا اور یہ کہا کہ بس قرآن و حدیث کی بات مانو اور کسی کی بات نہ مانو (حالانکہ علماء قرآن و حدیث کی بات ہی بیان کرتے تھے)۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مدد مانگنے کو شرک، مزاروں کی حاضری کو شرک کہا گیا اور اس طرح وہابی فرقہ کی بنیاد پڑی۔ ابن عبد الوہاب نجدی کے یہ معاملات دیکھ کر اس کے بھائی نے بھی اس کی مخالفت کی اور بہت سمجھایا کہ تم غلط کر رہے ہو، مگر اسے حکومت اور پس پردہ انگریزوں کی حمایت حاصل تھی، اس لیے وہ نہیں مانا۔

خیر، 18ویں صدی عیسوی میں لوگ دو طرح کے ہوگئے: مقلد: جو انبیاء کے وارثین، علماء کی پیروی کرتے ہیں۔ غیر مقلد: جن کا یہ ماننا ہے کہ ہم کسی عالم کی بات نہیں مانیں گے، بس قرآن و حدیث کی مانیں گے، حالانکہ ان کے پاس اتنا علم بھی نہیں ہوتا کہ ہر چیز کو قرآن و حدیث سے سمجھ سکیں۔

مثال کے طور پر: آپ ان سے پوچھیں کہ آپ نے جو لباس پہنا ہے اس کا صاف صاف قرآن میں یا حدیث میں ثبوت دکھائیے، یا آپ جو بریانی، قورمہ کھاتے ہیں وہ قرآن و حدیث میں کہاں لکھا ہے؟ تب یہ قرآن و حدیث کی رٹ لگانے والے یا تو بغلیں جھانکیں گے یا پھر اپنی الٹی پلٹی عقل چلائیں گے۔

ان سے ایک بات اور پوچھی جائے کہ قرآن تو آسان ہے، پھر کھیعص کا کیا مطلب ہے؟

بہرحال، ایک مقلد کے لیے اپنے علماء کی بات دلیل ہوتی ہے، کیونکہ وہ قرآن و حدیث سے سمجھ کر بیان کرتے ہیں۔ اور رہا غیر مقلد، وہ تو اپنے آپ کو اہلِ حدیث کہتا ہے مگر اپنا نام (اہلِ حدیث) قرآن کی کسی آیت میں نہیں دکھا سکتا اور نہ کسی حدیث میں۔ ارے کم از کم اپنا نام اہلِ قرآن و حدیث رکھ لیتے، پتہ نہیں قرآن سے کیا دشمنی تھی!

بہرحال، یہ جناب اپنا نام تک نہیں دکھا سکتے اور بھولے بھالے مسلمانوں کو یہ سوال (عورتوں کی نماز کا طریقہ حدیث میں دکھاؤ) یا اس طرح کے اور سوال کر کے پریشان کرتے ہیں جس طرح شیطان پریشان کرتا ہے۔

ایسا نہیں ہے کہ عورتوں کی نماز کا طریقہ حدیث سے ثابت نہیں، مگر ہم ثابت اس کے لیے کریں گے جو اپنا نام، اپنا نسب، اپنا خاندان، اپنا ہر کام قرآن و حدیث سے ثابت کرے۔ وہ پہلے ثابت کرے، پھر ہم ثابت کرتے ہیں۔

اگر وہ اپنا نام و نسب و خاندان اور ہر کام قرآن و حدیث سے ثابت نہیں کر سکتے تو انہیں چاہیے کہ کہیں ڈوب مریں، کیونکہ ایسی زندگی سے کوئی فائدہ نہیں۔

رہے ہم تو ہم تو قرآن و سنت اور صحابہ کے طریقے والے ہیں۔ سنن ابو داود کی ایک حدیث میں ہے کہ ایک بار عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس کچھ لوگ مسئلہ پوچھنے آئے تو انہوں نے نہ قرآن سے جواب دیا اور نہ حدیث سے، بلکہ اللہ کے عطا کردہ علم کی وجہ سے وہ مجتہد تھے تو انہوں نے خود اجتہاد کرکے مسئلہ بتایا، اور کثیر صحابہ کی موجودگی میں بتایا، کسی نے اعتراض نہیں کیا۔

ہاں اگر امام اعظم کوئی مسئلہ اجتہاد سے بیان کرتے ہیں تو 18ویں صدی عیسوی کے... پہلے کے نہیں... بلکہ بعد کے لوگوں کو مرچیں لگتی ہیں اور کہتے ہیں حدیث میں دکھاؤ۔

اگر اجتہاد سے مسئلہ بتانا ایک مجتہد کے لئے غلط ہے تو کیا حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بھی غلط کیا؟

یہ نام کے اہلِ حدیث اور حقیقت میں دین و علماء کے دشمن لوگ ان کو بھی غلط کہہ دیں گے۔ اللہ ہمیں ایسے فتنوں سے محفوظ رکھے۔

اللہ کا شکر ہے ہم تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان: البرکۃ مع اکابرکم۔ (یعنی برکت تمہارے بزرگوں کے ساتھ ہے) پر عمل کرتے ہیں اور اپنے دین کے بزرگوں کی پیروی کرکے ان کی برکت حاصل کرتے ہیں۔

اگر کوئی نہیں کرتا تو اسے چاہیے کہ وہ بھی کرے اور اگر اس کے مقدر میں ہی نہیں تو یہ اس کے نصیب کی بات ہے۔

مضمون نگار جامعۃ المدینہ فیضان مخدوم لاہوری، موڈاسا کے استاذ ہیں۔ {alertInfo}

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی
WhatsApp Profile
لباب-مستند مضامین و مقالات Online
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مرحبا، خوش آمدید!
اپنے مضامین بھیجیں