✍️ رائٹرز کے لیے نایاب موقع! جن رائٹر کے 313 مضامین لباب ویب سائٹ پر شائع ہوں گے، ان کو سرٹیفکیٹ سے نوازا جائے گا، اور ان کے مضامین کے مجموعہ کو صراط پبلیکیشنز سے شائع بھی کیا جائے گا!

کون ہیں احسان فراموش؟

عنوان: کون ہیں احسان فراموش؟
تحریر: محمد علاء الدین قادری مصباحی بلرام پور

دورِ حاضر میں جب جنگِ آزادی کے متعلق گفتگو ہوتی ہے تو مسلم مجاہدین کے کارنامے ہمارے حاشیۂ خیال میں کیوں نہیں آتے؟ حالانکہ تاریخ کی ورق گردانی کے بعد یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ جنگِ آزادی میں مسلمان اور بالخصوص علما کی جماعت پیش پیش تھی۔ اس کے باوجود، اس دور میں بعض لوگ سرے سے انکار کرتے ہیں کہ جنگِ آزادی میں مسلمانوں کا کوئی کردار نہیں تھا۔

حقیقتِ حال یہ ہے کہ کچھ شرپسند تاریخ نگاروں نے مسلمانوں کے مجاہدانہ اور قائدانہ کردار کو تاریخی اوراق میں ظلماً درج نہیں کیا۔ تعصب نے ان کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا۔

دوپہر میں چمکتے سورج کے انکار سے بھی گریز نہ کیا۔ بایں سبب، جہاں تعصب پرست تاریخ نگاروں نے تاریخ کو مسخ کرنے کی بے جا کوششیں کیں، وہیں حق پسند، منصف مزاج تاریخ نویسوں نے تاریخ کو صحیح انداز میں بیان کر کے اپنی عظیم ذمہ داری سے سبکدوشی حاصل کی۔

باوجود اس کے، ہماری غفلت، کوتاہی اور بے حسی کا عالم یہ ہے کہ ہم جنگِ آزادی 1857ء کے عظیم مجاہدوں کی قربانیوں کو فراموش کرچکے ہیں۔

آج المیہ یہ ہے کہ جب اسلاف سے محبت کا دم بھرنے والوں کے سامنے مولانا سید کفایت علی کافی مرادآبادی، سید مبارک شاہ رامپوری، مفتی عنایت احمد کاکوروی، مولانا فیض احمد عثمانی بدایونی، مولانا احمد اللہ شاہ مدراسی، مفتی مظہر کریم دریابادی، مولانا لیاقت الٰہ بادی، مولانا رضا علی بریلوی، مفتی صدرالدین آزردہ دہلوی، مولانا وہاج الدین مرادآبادی، مولانا امام بخش صہبائی دہلوی، مولانا ڈاکٹر وزیر خان اکبرآبادی، مولانا رحمت اللہ کیرانوی اور جنرل وزیر خاں کا تذکرہ کیا جائے تو کہتے ہیں: یہ کون ہیں؟ ان کے کارنامے کیا ہیں؟

افسوس صد افسوس! جنہوں نے ملک کی آزادی اور قوم و ملت کے تحفظ کی خاطر اپنا سارا اثاثہ قربان کردیا، یہاں تک کہ اپنی عزیز جان بھی نچھاور کر دی، جن کی بدولت آج ہم آزادانہ طور پر زندگی بسر کر رہے ہیں، جن سرفروشوں نے ہماری خاطر اپنا سب کچھ لٹا دیا حتیٰ کہ اپنی جان بھی قربان کر دی، آج ہم ان کے ناموں سے بھی ناواقف ہیں۔

ہم زیادہ سے زیادہ علامہ فضلِ حق خیرآبادی علیہ الرحمہ کا نام جانتے ہیں۔ آپ کے علاوہ بے شمار مجاہدینِ جنگِ آزادی کو فراموش کر بیٹھے ہیں۔ اگر کچھ معلوم ہے بھی تو دال میں نمک کے برابر۔

آئیے! ہم سب مل کر قائدینِ جنگِ آزادی اور مجاہدینِ آزادی کا اس قدر تذکرہ کریں کہ آنے والی نسلوں کو ان کے اسمائے مبارکہ ازبر ہو جائیں۔

انگریز صرف ہندوستان پر حکومت نہیں کر رہے تھے، بلکہ اسلام، احکامِ اسلام اور شعارِ اسلام کو مٹانے کی بے جا کوششیں بھی کر رہے تھے۔

ہاں! منظم طور پر مذہبِ عیسائیت کے راہب ہندوستان میں آکر اپنے مذہب و ملت کی نشر و اشاعت کر رہے تھے۔ آگرہ میں باقاعدہ عیسائیوں سے مناظرہ بھی ہوا، جس میں مولانا رحمت اللہ کیرانوی اہلِ سنت و جماعت کی جانب سے مناظر مقرر ہوئے اور مولانا فیض احمد عثمانی بدایونی، مولانا ڈاکٹر وزیر خان ان کے معاون و مددگار تھے۔

علمائے اہلِ سنت کو اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عنایت و عطا سے فتحِ مبین حاصل ہوئی اور عیسائیوں کو شکستِ فاش سے دوچار ہونا پڑا۔

گویا کہ آج ہم نہ صرف آزادی کی سانس لے رہے ہیں بلکہ اپنے مذہب و ملت (مذہبِ اسلام) پر بھی ثابت قدم ہیں، اور یہ سب ان مجاہدین کی قربانیوں کا ثمرہ ہے۔

26 جنوری اور 15 اگست کو سرکاری چھٹی ہوتی ہے۔ مدارس، کالجز، یونیورسٹیاں اور اسکولز بھی بند ہوتے ہیں۔ آخر کیوں؟ ہم ان دنوں میں بھی مجاہدین و قائدینِ جنگِ آزادی کا تذکرہ کیوں نہیں کرتے؟ ہاں! یہی تو ہے احسان فراموشی۔

عزیزو! تاریخ کا مطالعہ کرو اور اپنے اسلاف کی عظیم اور ناقابلِ فراموش قربانیوں کو اپنے ذہن کے دریچوں میں محفوظ رکھو کیونکہ:

اپنی تاریخ کو جو قوم بھلا دیتی ہے
صفحۂ دہر سے وہ خود کو مٹا دیتی ہے کھد

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی
WhatsApp Profile
لباب-مستند مضامین و مقالات Online
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مرحبا، خوش آمدید!
اپنے مضامین بھیجیں