✍️ رائٹرز کے لیے نایاب موقع! جن رائٹر کے 313 مضامین لباب ویب سائٹ پر شائع ہوں گے، ان کو سرٹیفکیٹ سے نوازا جائے گا، اور ان کے مضامین کے مجموعہ کو صراط پبلیکیشنز سے شائع بھی کیا جائے گا!

تکلیف کا ایک نام لوگوں سے توقعات بھی ہے

عنوان: تکلیف کا ایک نام ”لوگوں سے توقعات“ بھی ہے
تحریر: محمد سہیل خان

دکھ، تکلیف، پیڑا اور درد ایک دوسرے کے مترادف ہیں، حالانکہ انہیں الگ الگ زاویوں سے دیکھنا بالکل بجا ہے۔

انسانی زندگی کے لیے جتنا پانی، ہوا، غذا ضروری ہے، ایسے ہی سکون، چین، اور اطمینان کے لیے زندگی کا ہر اُس شے سے پاک رہنا لازم ہے جو مذکورہ اشیاء کو ہلکی سی بھی جرح پہنچانے والی ہو۔

ضروری نہیں کہ وہ جرح ہمیں کسی کے کسی قول یا فعل سے ملے، نہیں، بلکہ کئی مرتبہ اس زخم کو آپ ہی مسلط کر لیتے ہیں۔ وہ کیسے؟ تو وہ ایسے کہ ہم مخلوق سے ایسی ایسی امیدیں وابستہ کر لیتے ہیں کہ خالق و مخلوق میں بظاہر کوئی فرق ہی نہ بچے۔

مثلاً کسی پر آنکھ بندھ کر کے بھروسہ کرنا، ہر چیز کے وقوع پذیر ہونے میں اسے مستلزم جاننا، تم سے بات کر لیتا ہوں تو دل قرار پا جاتا ہے، تمہاری ناراضگی میرے لیے مثلِ موت ہے وغیرہ وغیرہ۔

اب بتائیں، کیا یہ وہ توقعات ہیں جو کسی مخلوق کو مخلوق سے رکھنی چاہئیں؟ آپ کا دل یکدم بول اٹھے گا، نہیں، ہرگز نہیں۔ تو بھلا ہم یہ امیدیں لوگوں سے رکھ کر خود پیر میں کلہاڑی نہیں مار رہے؟ نہیں، بلکہ پیر لے جا کر خود کلہاڑی میں مار رہے ہیں!۔

حالانکہ یہ وہ مخلوق ہے جو کسی اپنے کا بھی کوئی عیب دیکھے تو خود فنا نہ کر پائے۔ اس کی درجنوں مثالیں کہیں نہ کہیں، کبھی نہ کبھی آپ کی نظروں کا مرکز بنی ہوں گی۔

وہ جو محبت کا دم بھرتے تھکتے نہ تھے، ذرا سی کمزوری پر اطلاع پاتے ہی روپ بدل بیٹھے، اور ایسا وار کیا کہ روح چھلنی کر دی۔ اگرچہ اس کارستانی کو وہ دن میں کئی کئی بار انجام دیتے ہوں، مگر انہیں فرق نہیں پڑتا، اور پارسائی کا لبادہ وہ الگ اوڑھتے ہیں۔

ہاں، لیکن بیچارے کی کوئی لغزش انہیں برداشت نہیں ہوتی، خود بھلے ہی جنگل جلائے بیٹھے ہوں۔ کسی کی پھلتی پھولتی زندگی کو ایک جھٹکے میں برباد کر دیا۔

کوئی سمجھدار انسان تو کسی مخلوق سے کوئی امید رکھنے سے پہلے ان تمام باتوں کو کم از کم مد نظر رکھتا ہے تاکہ وہ دو پاؤں والی مخلوق سے ایک حد تک بچا رہے۔

اُمید رکھنے والے کو تشنگی، سوزش، بےچینی، بیتابی، اور بے سکونی کے علاوہ حاصل ہی کیا ہوتا ہے!

اس پر مجھے امام غزالی علیہ الرحمہ کا کلام یاد آ گیا کہ انسان کے اندر فرشتوں والی صفات تو ہیں، مگر ساتھ ساتھ کتے، بھیڑیے، حتیٰ کہ سور کی صفات بھی موجود ہیں۔

عبادت گزاری کی تشبیہ اوصافِ ملائکہ سے دی، مگر غصے کو کتے پن یا بھیڑیے پن سے اور خواہشِ نفس کو سور پن سے تشبیہ دی۔ اور آگے فرمایا کہ اگر خواہشاتِ نفسانی میں ملوث شخص اپنی حقیقت خود دیکھے تو خود کو کسی سور کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑا پائے گا۔

اور کیا کی جائے توقع ایسے بیٹے یا بیٹی سے جو اپنے والدین کو ہی کوئی نظر نہ لیتے؟ کیا کی جائے امید ایسے بھائی سے جس کی بہن بھائی ترس گئے چند میٹھے بول سننے کو؟ اور کیا آشا کی جائے ایسے شوہر یا بیوی سے جو ایک دوسرے کے ہی نہیں؟

ایسا نہیں کہ میں جذبات کے دریا میں غوطہ زن ہو کر ان الفاظ کو مرتب کر رہا ہوں، بلکہ یہ تو وہ حقیقت ہے جو مثلِ آفتاب روشن اور روزِ واضح ہے۔

اللہ پاک بس اپنی محتاجی میں زندگی اور موت دے!

3 تبصرے

جدید تر اس سے پرانی
WhatsApp Profile
لباب-مستند مضامین و مقالات Online
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مرحبا، خوش آمدید!
اپنے مضامین بھیجیں