عنوان: | مغربی تہذیب کی یلغار (قسط اول) |
---|---|
تحریر: | مفتیہ رضیؔ امجدی غفر لھا |
عصرِ حاضر میں جدت پسندی کی وبا ہر شخص کی رگ و پے میں سرایت کر رہی ہے۔ ہر کس و ناکس جدت کا دلدادہ نظر آ رہا ہے، مگر اس کے طلسمِ فریب سے لوگ آگاہ نہیں۔ جدت کی اس خوبصورت قبا کے اندر کیا ہے، انہیں معلوم نہیں، اور اس کی ظاہری خوبصورتی کتنے فتنوں اور برائیوں کی پیداوار ہے، اس سے وہ بے خبر ہیں۔
جدت اور نئے پن کی چاہ ہماری زندگی کو پستیوں میں ڈھکیلتی جا رہی ہے، اور سب سے سنگین امر یہ کہ ہم شناختی بحران کا شکار ہو رہے ہیں۔ ہماری خارجی زندگی سے لے کر داخلی زندگی تک سب کچھ جدت کا نمونہ بنا ہوا ہے۔
ہماری عادات و حرکات میں جدت، افکار و تخیلات میں جدت، گفتار و رفتار میں جدت، وضع و قطع میں جدت، کھانے پینے سے لے کر پہننے اوڑھنے تک ہر چیز سے جدت پسندی کا رس ٹپک رہا ہے۔ ہم اپنی شناخت کھوتے جا رہے ہیں، اور ستم یہ ہے کہ ہمیں اس کا احساس بھی نہیں۔
یاد رکھیں! شناختی بحران کی اصل وجہ اسلامی اصولوں سے انحراف ہے، جس کے پیچھے خود ساختہ اصولوں پر مر مٹنے کا جذبہ کارفرما ہے۔
آئینِ اسلام سے بغاوت کا یہی اثر ہوتا ہے کہ پستی انسان کا مقدر بن جاتی ہے، اور اس کی آخرت مخدوش ہو کر رہ جاتی ہے۔
آپ اپنے دھڑکتے دل پر ہاتھ رکھ کر خود سے پوچھیں، کیا آپ کی ایمانی غیرت یہ تقاضا کرے گی کہ اسلام کے دشمنوں کی عادات و اطوار اور ان کی مصنوعات کو اپنی زندگی میں ذرہ برابر بھی جگہ دیں؟ وہ دشمن، جنہوں نے آئینِ اسلام کو روندا، قرآنِ مقدس کے اوراق کو گزرگاہوں کی نذر کیا، محسنِ انسانیت آقائے دو عالم ﷺ کی شان میں توہین آمیز جملے کہے، امہات المومنین کو ہدفِ تنقید بنایا، اور شعائرِ اسلام کو مٹانے کی کوشش کی۔ کون سا ایسا حربہ ہے جو انہوں نے اسلام کی مقبولیت کو ختم کرنے کے لیے استعمال نہ کیا ہو؟
اور ہم ہیں کہ انہی کی تہذیب و ثقافت پر مفتون ہوتے جا رہے ہیں! تف ہے ہم جیسے مسلمانوں پر! کیا ہم میں اتنی بھی غیرتِ ایمانی باقی نہیں رہ گئی کہ دشمنِ اسلام کا حتی المقدور، جس طرح بھی ممکن ہو، اجتماعی یا انفرادی علاج کر سکیں؟
مگر ہمارا حال یہ ہے کہ ایک طرف مسلمان ہونے کا دعویٰ بھی ہے، اور دوسری طرف آئینِ اسلام سے منحرف ہو کر دشمن کی ثقافت پر مرے جا رہے ہیں۔ آخر قول و عمل میں اتنا تضاد کیوں؟
بہرکیف! مغرب کی پیدا کردہ اس بیماری میں مبتلا ہمارے معاشرے کے بیشتر افراد ہیں، اور اس کے سنگین اثرات خصوصاً نوجوان نسل میں بکثرت دکھائی دے رہے ہیں۔
اگر اس وبا کے علاج کا تجزیہ نہ کیا گیا اور اسے بر وقت پروان چڑھنے سے روکنے کی تدبیر نہ کی گئی، تو ہمارے معاشرے کا مستقبل کلی طور پر مغربی تہذیب کی چوکھٹ پر سر خم کیے دکھائی دے گا۔
لہٰذا، اپنے معاشرے اور خصوصاً اپنی نسلوں کو اس بیماری سے محفوظ رکھنے کی فکر کریں، اور جن پر اس کے اثرات مرتب ہو چکے ہیں، ان کا علاج کریں۔ اگر آپ کی بھی طبیعت کا جھکاؤ اس طرف ہے اور آپ بھی جدت کے مفتون ہو رہے ہیں، تو آپ کا اولین فریضہ اپنا علاج ہے۔
اَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ (آلِ عمران: 139)
ترجمہ کنز الایمان: اور غم نہ کھاؤ تمہیں غالب آؤگے اگر ایمان رکھتے ہو۔
اللہ رب العزت ہمیں اس وبا سے نجات عطا فرمائے اور عمل کی توفیق بخشے۔ آمین!
بہتر تجزیہ پیش کیا گیا ہے دور حاضر کے کچھ مسلمانوں کی عکاسی ہے
جواب دیںحذف کریں