عنوان: | میدان سیاست اور قوم مسلم! |
---|---|
تحریر: | محمد عارف ابن عبد اللہ حنفی سدھارتھ نگر |
وہ قوم نہیں لائقِ ہنگامۂ فردا
جس قوم کی تقدیر میں امروز نہیں ہے
نظامِ ملک ہی کا دوسرا نام سیاست ہے، جس سے انسانیت امن و امان کا مظاہرہ کرتی ہے۔ لوگوں کے تمام تر مسائل حل کیے جاتے ہیں، ملک کی فلاح و بہبود اور عروج و ارتقا پر گفت و شنید کی جاتی ہے، نیز اس کے زوال کے اسباب پر بھی غور و فکر کیا جاتا ہے۔
سیاست ایک بہترین سرمایہ ہے اور ایک زرخیز میدان ہے، جس کے ذریعے خدمتِ خلق کے مشن کو فروغ دیا جاتا ہے۔ مگر سیاست کے امور اور اس کے داؤ پیچ پر ہر کس و ناکس کو دسترس نہیں ہوتی، بلکہ یہ میدان دانشمند حضرات ہی کا متقاضی ہوتا ہے۔
اگر غلطی سے نااہلوں کے ہاتھوں اس کی باگ ڈور آ جائے تو میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ وہ اس خوبصورت عمارت کی بنیاد ہی منہدم کر دیں گے۔ لوٹ مار، فتنہ و فساد، ذات پات کو لے کر ایک نہ ختم ہونے والی جنگ چھیڑ دی جائے گی، اور حرص و ہوس کی ایسی عضلات سوز ہوا چلے گی کہ روح تک جھلس کر رہ جائے گی۔
اقتدار میں رہنے کی خاطر ایسی ایسی بھونڈی سیاست (Dirty Politics) کی جائے گی، جو بیان سے باہر ہے۔ حالیہ جمہوریہ اور اس کی سیاست کو دیکھ کر مذکورہ فسادات کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
سیاست کے مفہوم کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اس کے اصل حقدار وہی لوگ ہیں، جو قوم سے ہمدردی رکھتے ہیں اور اہلِ علم ہیں۔
اہلِ علم اس لیے کہ وہ اپنی تعلیم کو بنیاد بنا کر اس منصب کا استعمال بحسن و خوبی کر سکتے ہیں، اور قوم و ملت سے ہمدردی رکھنے والے تجربہ کار افراد اس لیے کہ وہ اپنے تجربات اور قوم کی ہمدردی کے پیشِ نظر سیاست کو صحیح رخ دے سکتے ہیں۔ وگرنہ دنیا کا جو حال ہے، وہ کسی پر مخفی نہیں۔ تعلیم یافتہ ہوں یا ہمدردانِ قوم و ملت، سب دکھاتے شہد ہیں اور پلاتے زہر۔
سابق زمانے میں علمائے کرام ہی اس کردار کو نبھاتے تھے اور سیاست جیسی شترِ بے مہار کی عنان کو قابو میں رکھ کر اپنے علم و دانشمندی کا ثبوت دیتے تھے اور خدمتِ خلق کا کام سرانجام دیتے تھے۔ مگر جوں ہی علما اور دانشورانِ ملت نے سیاست کو خیر باد کہا، جہلا نے بڑھ کر اس پر اپنا تسلط ایسے قائم کیا کہ سارے نظام کو ہی تہس نہس کر دیا۔ اقوام کے مابین انتشار کی آگ بھڑکا دی۔
کبھی مذہب و مسلک کے نام پر لوگوں کو ظلم و جبر کا نشانہ بنایا گیا، تو کبھی اقوام کے پیشواؤں پر انگشت نمائی کرکے ایسی آگ لگائی گئی، جس کی تپش میں آج بھی قومیں جل رہی ہیں۔ الامان والحفیظ!
اور پھر یوں ہوا کہ لوگوں کے اذہان میں لفظِ سیاست کی تفسیر غلط طور پر بس گئی۔ امروز پورا معاشرہ اسے حقارت کی نظر سے دیکھتا ہے۔ اگر کوئی اس کا قائل بھی ہوتا ہے تو اسے بےوقوف تصور کیا جاتا ہے۔
خصوصاً جب کوئی عالمِ دین اس جانب رخ کرنا چاہتا ہے تو قوم کے اکثر و بیشتر افراد یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ ”یہ آپ کا کام نہیں، آپ مسجد و مدرسہ کی ذمہ داریاں سنبھالیے۔“ کیا کسی عالم کا بس اتنا ہی کام رہ گیا ہے کہ وہ مسجد و مدرسہ کے درمیان ہی محدود رہ کر اپنی زندگی گزار دے؟ ایسی سوچ پر لعنت ہے! خود تو مینڈک کی زندگی جینے کی عادت پڑ گئی ہے، سو دوسروں کو بھی کنویں سے نکلنے پر ان کی ٹانگ کھینچی جا رہی ہے۔
قومِ مسلم کا اقتدار میں کردار نہ نبھانے کی بنا پر آج ملک میں جو حالات ہیں، ان کی تفصیل کی حاجت نہیں، ہر شخص باخبر ہے۔ کبھی ہمارے مدارس پر قفل لگانے کی بات ہوتی ہے، تو کبھی مساجد پر ناپاک جسارت کی جاتی ہے۔ کبھی ہمارے اسلاف کی توہین کی جاتی ہے، تو کبھی ہمارے علما کے خلاف ناپاک عزائم کے تحت انہیں سلاخوں کے پیچھے ڈالا جاتا ہے۔
ہماری قوم کے افراد کے سیاسی میدان سے باہر ہونے کی وجہ سے ہمارا احتجاج، ہماری نعرے بازی، ہماری آوازیں سب پس پشت ڈال دی جاتی ہیں۔ ہمارا کام بس احتجاج اور نعرے بازی تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ نتیجہ کیا نکلتا ہے؟ صفر!
ذمہ دارانِ اہلِ سنت سے میں دست بستہ عرض گزار ہوں کہ سیاسی میدان میں عملی قدم رکھ کر قوم کی بقا کی خاطر امورِ سیاست انجام دیں۔ ہند کے ہر صوبے سے علمائے کرام اس جانب اپنی گراں قدر توجہ مبذول کریں، خصوصاً خانقاہی حضرات اور وہ خطبا جو اسٹیج پر شب و روز خود کو ہمدردِ قوم و ملت ثابت کرتے ہوئے تھکتے نہیں ہیں۔
اگر ہند کے ہر صوبے سے چند حضرات بھی اس طرف متوجہ ہو جائیں تو قریب ہے کہ ہماری قوم کے اکثر و بیشتر مسائل حل ہو جائیں اور ہمیں بھی ہندوستان کی جمہوریہ میں حقِ مساوات حاصل ہو سکے۔
شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات
صحیح ۔
جواب دیںحذف کریںموجودہ دور میں بہتر سیاسی رہنماء کی سخت ضرورت ہے ۔