عنوان: | منبر پاک پر برپا چیخ و پکار |
---|---|
تحریر: | مفتی ضمیم احمد مصباحی |
جلسہ و جلوس اور کانفرنسوں میں خطبا، شعرا، مشائخ اور تن من دھن قربان کرنے والے قریبی علما، حفاظ اور ائمہ کے بیٹھنے کے لیے جو اونچی اور بلند و بالا اور دور سے نظر آنے والی جگہ ہوتی ہے، اسے کچھ لوگ اسٹیج کہتے ہیں، کچھ لوگ ادب سے منبر رسول کہتے ہیں اور کچھ لوگ تبدیل لفظ کے ساتھ منبر نور کہتے ہیں۔
خیر! نام جو بھی ہو، بہر صورت اس کا مقصود و مطلوب یہی ہوتا ہے کہ اس بلند و بالا اور قابل دید جگہ سے قوم کے لیے کچھ اچھا اور سچا پیغام نشر ہو اور ٹوٹے اور بکھرے لوگوں کا رشتہ اللہ عزوجل اور اس کے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلّم سے مضبوط، مستحکم اور پائیدار کیا جائے۔
قانونِ زندگی اور دستورِ بندگی سے روشناس کرایا جائے اور آنے والا خالی دامن آئے، لیکن جب جائے تو دامن گوہرِ مراد سے بھرا ہو۔ لیکن یہ کیا! یہاں تو یہ پوری طاقت سے ان کو ڈانٹ رہا ہے، یہ پوری توانائی ان کو جھڑکنے میں لگا رہا ہے، وہ شاعر کی فہمائش میں لگا ہے، یہ ناظم جلسہ کی اصلاح کے درپے ہے، وہ اس کی دھنائی میں لگا ہے اور یہ ان کی مرمت کرنے میں لگا ہے۔
اور پھر جب یہ سلسلہ چل پڑتا ہے تو پھر تھمنے کا نام نہیں لیتا۔ اب یہاں اس خطیب صاحب کا رد ہو رہا ہے، وہاں شاعر صاحب نشانے پر ہیں، کہیں ناظم جلسہ برس رہے ہیں اور کہیں ناظم جلسہ کی درگت ہو رہی ہے۔ قوم کی دولت بھی ٹھکانے لگ رہی ہے اور وقت کا بھی ”صحیح استعمال“ ہو رہا ہے۔ شاید اس طرح کے اجلاس میں آنے والے کچھ سامعین دل دل میں سوچتے ہوں گے کہ،
یار! اس سے تو یہی اچھا تھا کہ نرم بستر پر نیند کے مزے لیتے یا افرادِ خانہ کے ساتھ گپ شپ لگا رہے ہوتے!
خیر! یہ تو رہے وہ مناظر و مرایا جو ہماری نظروں کے حصار میں رہتے ہیں اور جن سے ہم بھی متاثر ہوتے ہیں اور ہماری نسلِ نو بھی شعوری یا لاشعوری طور پر متاثر ہوتی ہے۔
آیئے! اس منبرِ پاک پر برپا چیخ و پکار اور شور بے ہنگم کو نظر میں رکھیں اور امامِ اہلِ سنت کے پاکیزہ قلم سے اس پاک منبر کے آداب اور تقاضے ملاحظہ کریں اور حساب لگائیں کہ ہم اپنے امام کی فکر و نظر سے کتنے فاصلے پر کھڑے ہیں۔ آپ ”طریقہ محمدیہ“ اور اس کی شرح ”حدیقہ ندیہ“ سے نقل کرکے تحریر فرماتے ہیں:
یوہیں جو مجلسِ وعظ میں بیٹھا ہو، اسے بھی بات کرنا گناہ ہے اگرچہ آہستہ ہی ہو۔ اسی طرح صرف بے ضرورت ادھر اُدھر دیکھنا، یا کوئی حرکت و جنبش کرنا، کھڑا ہو جانا، یا تکیہ لگا لینا، اور یہ سب گستاخی اور بے ادبی اور ہلکا پن، خفیف الحرکاتی، جلد بازی اور حماقت ہے۔ بلکہ لازم یہی ہے کہ اسی کی طرف توجہ کیے خاموش کان لگائے سنتے رہیں، یہاں تک کہ اس کا کلام ختم ہو، اس وقت تک نہ ادھر اُدھر دیکھیں، نہ کوئی جنبش کریں، نہ اصلاً کچھ بات کریں۔ اھ۔
اللہ عزوجل ہمارے حالِ زار پر رحم فرمائے، ہمیں منبرِ نور اور مجلسِ وعظ و نصیحت کا ادب و احترام نصیب فرمائے۔ مال و متاعِ قومِ مسلم کو ضائع اور تلف کرنے، تفریحِ طبع اور نام و نمود کے لیے نوٹوں کی بارش کرنے اور اَنا کی تسکین کے لیے ایک دوسرے پر گرجنے برسنے اور منبرِ نور کی حرمت پامال کرنے سے حفظ و امان میں رکھے۔ آمین بجاہِ النبی الأمین الکریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلّم۔
مضمون نگار دارالعلوم احمدیہ بغدادیہ شطرنجی پورہ، ناگپور کے شیخ الحدیث ہیں۔ {alertInfo}
آمین یا رب العالمین
جواب دیںحذف کریں