عنوان: | موبائل فون موجودہ دور کا ایک بڑا فتنہ ہے |
---|---|
تحریر: | فردوس جبیں امجدی ضیائیہ |
شیخ موبائل کی صحبت سے نکل کر
شیخ کامل کی صحبت اختیار کر
دینِ اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے۔ اسلام اپنے ماننے والے پر کچھ ایسے قیود عائد کرتا ہے جن میں نسلِ انسانی کے لیے خیر ہی خیر ہے۔ اگر ان قوانین و ضوابط کے مطابق زندگی گزاری جائے تو انسان فلاح و بہبود کی راہ پر گامزن ہوتا ہے، اور اس پابندی سے نکلنے کی ہلکی سی بھی سعی انسان کو ذلت و رسوائی کے دہانے پر لا چھوڑتی ہے۔ لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ہم خود کو اور اپنے اہل و عیال کو اسلام کا پابند بنائیں۔ ہم میں سے ہر ایک کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم خود کو اور اپنے اقارب و اعزّہ کو جہنم کی اس آگ سے بچائیں جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں۔
ربِّ لم یزل نے قرآن میں اسی کا حکم یوں صادر فرمایا:
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِیْكُمْ نَارًا وَّ قُوْدُهَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ (التحریم: 6)
ترجمہ: (کنزالعرفان) اے ایمان والو! اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس آگ سے بچنے اور بچانے کا حکم ہوا، اس بھڑکتی ہوئی آگ میں پہنچانے والے اسباب کیا کیا ہیں؟
آج ہم جس دور میں قدم دوڑا رہے ہیں، اسے 21st century اور Modern Era کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ اس پُر فتن دور میں جہاں کئی مہلک فتنے سر اٹھائے نوعِ انسانی کی ہلاکت کے منتظر ہیں، وہیں ایک بڑا فتنہ موبائل فون کا غلط اور غیر محتاط استعمال بھی ہے۔
جوان ہو یا بوڑھے، مرد ہو یا عورت، سب اس موبائل فون کے اسیر بن چکے ہیں۔ جہاں بیش قیمت فون شہریوں اور مالداروں کے ہاتھ کی زینت ہے، وہیں دیہاتیوں اور غریب طبقے کے لوگوں کے لیے بھی باعثِ فخر ہے۔ غرض یہ کہ موبائل فون اور انٹرنیٹ ہر انسان کی دسترس میں ہے۔
یقیناً موبائل فون اس صدی کی حیرت انگیز ایجادات میں سے ایک ہے، جو گھنٹوں کا کام منٹوں میں انجام دے کر انسان کو آسانیاں فراہم کرتا ہے، سینکڑوں میل کے فاصلے ویڈیو کال کے ذریعے ایک لمحے میں ختم کر دیتا ہے۔ علاوہ ازیں نسلِ انسانی کی دیگر ضروریات و حاجات، مثلاً خرید و فروخت، منی ٹرانسفر، اور تعلیم و تعلم وغیرہ کو بڑی سہولت کے ساتھ پوری کرتا ہے۔ لیکن کہتے ہیں نا کہ ہر سکے کے دو پہلو ہوتے ہیں!
"Every coin has two sides, one is good and another is bad."
افسوس کہ آج اکثریت موبائل فون کو منفی طور پر استعمال کرتی ہے۔
آج اس موبائل فون نے نوجوانوں کو دین سے دور کر دیا۔ جن جاں بازوں کے ہاتھ میں دین کی سربلندی کی باگ ڈور ہوتی تھی، آج ان کے ہاتھوں میں پانچ انچ کا فون نظر آتا ہے۔ جن کو پرچمِ اسلام بلند کرنا تھا، وہ آج اپنے ہاتھ کو بلند کرکے سیلفی اور TikTok بناتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
وہ قوم جو کل تک کھیلتی تھی شمشیروں کے ساتھ
سینما دیکھتی ہے آج وہ اپنے ہمشیروں کے ساتھ
اس فون کی عادت نے کئی رشتوں کو بربادی اور تباہی کی دہلیز پر لا کھڑا کیا۔ اس فون نے زوجین میں نااتفاقی پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ پارٹنر ایک دوسرے کے مخلص نہ رہے، ہر ایک نے فون کو اپنی کل کائنات گردان لیا۔ زوجین ایک دوسرے سے چھپ کر کسی اجنبی سے تعلقات و مراسم قائم رکھتے ہیں، جس کے سبب محبت کی یہ خوبصورت کشتی شک کے تنکے سے بکھرنے لگتی ہے، بالآخر طلاق اور خلع کی نوبت آ جاتی ہے۔
جن نونہالوں کے ہاتھ میں قرآن کے سپارے نظر آتے تھے، آج ان کے ہاتھ میں فون نظر آتا ہے۔ از سحر تا شب Games، Cartoons اور Short Videos دیکھنے کی عادت نے ان کے چہرے سے سادگی چھین لی۔ کم عمری سے ہی ان نونہالوں کی بینائی کمزور ہو گئی، نتیجتاً آج ان بچوں کے چہروں پر چشمہ سجا ہوا نظر آتا ہے۔
جن ماؤں کو اسلام کا سپاہی اور مجاہدین تیار کرنا تھا، وہ اپنی اولاد کی تربیت سے کوسوں دور نظر آتی ہیں۔ گھنٹوں فون میں Serials اور فلمیں دیکھنے سے اکتاتی نہیں۔ جو مائیں بچوں کو قرآنی آیات بطور لوریاں سنایا کرتی تھیں، آج بچے کی ایک چیخ پر جھٹ سے فون کی اسکرین ان کی نظروں کے سامنے لا کر رکھ دیتی ہیں۔
جس بنتِ حوا کے ہاتھوں میں تفسیر، حدیث اور فقہ کی کتابیں ہونی چاہئیں، آج موبائل فون ان کے ہاتھوں کی زینت بن کر رہ گیا ہے۔ تعلیم کے نام پر نوجوان لڑکیاں انٹرنیٹ کا غلط استعمال کرکے اپنی عزت غیروں کے ہاتھوں فروخت کر رہی ہیں۔ فون جیسی اس مصیبت نے ان کی عزت کو تار تار کرنے میں غیر معمولی کردار ادا کیا ہے۔
یہ فون ہمارے اعمال کو بھی نقصان پہنچا رہا ہے۔ آج حج اور عمرہ کے مبارک سفر پر بھی اس فون کی نحوست بشکلِ سیلفی دیکھنے کو ملتی ہے۔ وہ جگہ جو عرشِ معلیٰ سے بھی افضل ہے، جہاں فرشتے بھی ادب سے تشریف لاتے ہیں، اس مبارک جگہ پر ایسی بے حرمتی دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔
مسجد ہو یا قبرستان، ہر جگہ بے خوف و خطر لوگ موبائل فون کا استعمال کرتے ہیں۔ کچھ طالب علم جو نہ کتب بینی کی فرصت رکھتے ہیں اور نہ ہی مطالعے کا شوق، وہ بھی اپنا پیشوا موبائل فون کو مان کر ہر مسئلے میں انٹرنیٹ کا سہارا لیتے ہیں، اور بغیر تحقیق کے مسائل کو بڑی برق رفتاری سے شیئر کرتے ہیں۔
جب بات فون اور انٹرنیٹ کی آئی تو اس حقیقت سے بھی پردہ اٹھانا ضروری ہے کہ موجودہ دور میں کچھ Ex-Muslims احکامِ خداوندی کا مذاق بنا کر دینِ اسلام کو بدنام کرنے کی ناپاک سازش کر رہے ہیں۔ ان کی اس کرتوت کو لوگوں میں عام کرنے کا ذریعہ بھی یہی موبائل اور انٹرنیٹ بنا ہے، جس کی وجہ سے آج کئی بھولے بھالے مسلمان اسلامی قوانین کی مخالفت پر آمادہ ہو چکے ہیں۔
بالجملہ، اس فون کے منفی استعمال نے ہر جانب کوہرام مچا رکھا ہے۔ ایسے میں ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم اس کے تدارک کی ہر ممکن سعی کریں۔
كُلُّكُمْ رَاعٍ وَ كُلُّكُمْ مَسْؤُوْلٌ عَنْ رَّعِيَّتِهِ (ابو داؤد:2998)
ترجمہ: تم سب راعی (حاکم) ہو، اور تم سب اپنی رعیت کے بارے میں سوال کیے جاؤ گے۔
اللہ پاک ہم سب کو اپنے حصے کی شمع جلانے کی توفیق عطا فرمائے، اور ایمان کے ساتھ دنیا سے کوچ کرنا نصیب فرمائے۔ آمین بجاہ سید المرسلین ﷺ
سچ فرمایا اللّٰہ کریم محفوظ فرمائے آمین
جواب دیںحذف کریں