✍️ رائٹرز کے لیے نایاب موقع! جن رائٹر کے 313 مضامین لباب ویب سائٹ پر شائع ہوں گے، ان کو سرٹیفکیٹ سے نوازا جائے گا، اور ان کے مضامین کے مجموعہ کو صراط پبلیکیشنز سے شائع بھی کیا جائے گا!

مومن کا غم کفارۂ ذنوب ہے

عنوان: مومن کا غم کفارۂ ذنوب ہے
تحریر: مفتیہ رضیؔ امجدی غفر لھا

تو بچا بچا کے نہ رکھ اسے ترا آئینہ ہے وہ آئینہ

کہ شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہ آئینہ ساز میں

ڈاکٹر اقبال نے دل کو آئینہ سے تشبیہ دی ہے اور یہ آشکار کیا ہے کہ یہ آئینہ جس قدر شکستہ ہوگا، نگاہ آئینہ ساز میں اتنا ہی معزز و بیش بہا ہوگا۔ کیونکہ شکستہ دل کا مرجع بارگاہِ ایزدی ہے۔

انسان جتنا کبیدہ خاطر ہوگا، فاطر حقیقی سے اس کے تعلقات اتنے ہی محکم و مضبوط ہوتے چلے جائیں گے۔ اور ایسا دل جو ہمیں اپنے رب سے جوڑ دے، وہ بظاہر شکست خوردہ ہے مگر فی الواقع فتحِ عظیم اس نے حاصل کر لی۔

تو کہیے نا کہ: دل کی سرنگوئی ہی اس کی سرفرازی ہے، اس کی شکستگی ہی اس کی پائندگی ہے، اس کی پامالی ہی اس کی بقا ہے، جسے سوزِ قلب حاصل نہ ہو پھر اسے کیا حاصل؟ جسے زندگی میں غمِ دروں سے دوچار نہ ہونا پڑے، وہ کیسی زندگی؟ جو لذتِ کرب سے آشنا نہ ہوا، وہ کاہے کا آشنا؟

شکستہ دلی کی صورت میں پیدا ہونے والے غم ہی تو انسان کو فیروز بختی کی خلعت عطا کرکے اسے جواں بخت بناتے ہیں۔ اور جو بھی اس حقیقت سے آشنا ہوا، پھر کبھی اس نے غم سے آزادی کی خواہش نہیں کی۔

احبا! ہمارے قلوب کی مثال نرم شاخ کے تنے کی مانند ہے۔ جتنا اسے جھکائیں گے، اتنا ہی وہ بلند ہوتا جائے گا۔ دل کو شکست جتنی زیادہ ہوگی، فتوحات اتنی ہی اس کے مقدر میں ہوں گی۔

ہماری زندگی ہمارے قلوب کے دم سے ہے۔ دل ہی انسانی وجود کا مرکز اور جسم انسانی کا کلیدی عضو اور پورے جسم کا سب سے خوبصورت اور لطیف جز ہے جس کے ساتھ انسان کے کثیرہا خصائص وابستہ ہیں۔

صوفیا فرماتے ہیں: دل انسانی جسم کا بادشاہ ہے اور باقی سب اس کے لشکر ہیں۔

اور جب بادشاہ دل کو ٹھیس پہنچتی ہے تو تمام اعضاء اس سے متاثر ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ غمزدہ انسان کے چہرے ہی اس کے غم کی ترجمانی کر دیتے ہیں۔

یاد رہے! یہ ظاہری اور عارضی ھموم، باطنی اور ابدی سرفرازی کی کلید ہیں، مگر چشمِ ظاہر سے مخفی اور چشمِ بصیرت کے محتاج۔

ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشہ کرے کوئی

ہو دیکھنا تو دیدۂ دل وا کرے کوئی

احبا! دل کی شکستگی غم کو جنم دیتی ہے اور غم و اندوہ کا استقرار کدورتِ ذہن کے خاتمہ کا سبب بنتا ہے۔

بقول:

چنان کہ آب فشانند و گَرد برخیزد

چو غم نشست کدورت زخاطرم برخاست

جس طرح پانی چھڑکنے سے گَرد و غبار اٹھ جاتا ہے، اسی طرح جب غم بیٹھ گیا تو میرے ذہن سے کُدورت کی گَرد اٹھ گئی۔

اس لیے دل کی شکستگی کو غمِ زیست نہ بنائیں، کیوں کہ یہی شکستہ و کبیدہ دل بارگاہِ ایزدی میں تقرب سے سرفراز ہوتا ہے۔ اور یہ تقربِ حق عز مجدہ آپ کے شکستہ خاطر کو ایسے جوڑ دے گا:

چناں کہ خود نشناسی کہ از کجا بشکست

عزیزوں! تو یہ غم فی الحقیقت غم نہیں ہے، بلکہ میرے رب کے تلطف و کرم اور رحمت و فضل کی کمند ہے۔ اور اس کمند کے ذریعے وہ اپنے دوستوں کو اپنے حضور میں بلاتا ہے، اور اپنے قرب سے سرفراز فرماتا ہے۔ اور جسے رب کا قرب حاصل ہوجائے پھر اسے اور کیا چاہیے؟

لہذا ابتلائے غم سے خود کو آزردہ نہ کریں۔ بقول واصف علی واصف: غم ہی وہ طلسم ہے جس سے رومی، رازی، غزالی پیدا ہوتے ہیں۔ (رحمہم اللہ تعالی)

اور یہ بات ذہن میں بٹھا لیں کہ آپ کے ھموم معطل نہ کیے جائیں گے، بلکہ مومن کا غم کفارۂ ذنوب ہے جیسا کہ حدیث شریف میں آیا ہے:

أن عائشة رضي الله عنها، زوج النبي صلى الله عليه وسلم، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ما من مصيبة تصيب المسلم، إلا كفر الله بها عنه. حتى الشوكة يشاكها۔ (البخاری: 5640)

ترجمہ: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجۂ مطہرہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو مصیبت بھی کسی مسلمان کو پہنچتی ہے، اللہ تعالیٰ اسے اس کے گناہ کا کفارہ کر دیتا ہے، حتی کہ ایک کانٹا بھی اگر جسم کے کسی حصہ میں چبھ جائے تو وہ بھی اس شخص کے گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے۔

دوسری جگہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

وعن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: ما يصيب المسلم من نصب، ولا وصب، ولا هم، ولا حزن، ولا اذى، ولا غم، حتى الشوكة يشاكها، إلا كفر الله بها من خطاياه۔ (البخاری 5641)

ترجمہ: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمان جب بھی کسی پریشانی، بیماری، رنج و ملال، تکلیف اور غم میں مبتلا ہوتا ہے، یہاں تک کہ اگر اسے کوئی کانٹا بھی چبھ جائے، تو اللہ تعالیٰ اسے اس کے گناہوں کا کفارہ بنا دیتا ہے۔

نیز مومن کے غم و آلام نورِ قلب کا باعث ہوتے ہیں۔ اگر دل منور ہو جائے تو تمام کائنات روشن و تاباں ہو جاتی ہے، کیوں کہ بزمِ کائنات کے جلوے نورِ قلب کے دم ہیں، اور کائنات کی تمام رعنائیاں اور جلوہ سامانیاں قلب کی روشنی میں ہی نظر آتی ہیں۔ بالفاظِ دگر دل کی تابندگی ہی زندگی ہے۔

سو غم و آلام سے ملول خاطر نہ ہوں کہ:

غم دل مرے رفیقوں غم رائیگاں نہیں ہے

صبرِ جمیل اختیار کریں، اجرِ جزیل سے نوازا جائے گا ان شاء اللہ العزیز۔

اللہ رب العزت سے دعا گو ہیں کہ وہ ہمارے قلوب کو شاکر و صابر بنائے۔ آمین ثم آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم۔

1 تبصرے

  1. ما شاء اللہ تعالیٰ
    جزاک اللہ خیرا کثیرا
    پڑھ کر کافی ہمّت و حوصلہ ملا

    جواب دیںحذف کریں
جدید تر اس سے پرانی
WhatsApp Profile
لباب-مستند مضامین و مقالات Online
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مرحبا، خوش آمدید!
اپنے مضامین بھیجیں